Showing posts with label Hadith Fazail e Namaz. Show all posts
Showing posts with label Hadith Fazail e Namaz. Show all posts

Hadith Fazail e Namaz: Salat is light at day of judgment Fazail e Amaal in urdu Unicode


۶۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍوؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہ‘ ذَکَرَ الصَّلٰوۃَ یَوْمًا فَقَالَ مَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا کَا نَتْ لَہ‘ نُوْرًا وَّبُرْہَانًا وَّ نَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَّمْ یُحَا فِظْ عَلَیْہَا لَمْ یَکُنْ لَّہ‘ نُوْرٌ وَّلَابُرْہَانٌ وَّ لَا نَجَاۃٌ وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلْفٍ ـ
ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے نماز کا ذکر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ وہ شخص نماز کا اہتمام کرے تو نماز اس کیلئے قیامت کے دن نور ہو گی اور حساب پیش ہونے کے وقت حجت ہو گی اور نجات کا سبب ہو گی اور جو شخص نماز کا اہتمام نہ کرے اس کیلئے قیامت کے دن نہ نور ہو گا اور نہ اسکے پاس کوئی حجت ہو گی اور نہ نجات کا کوئی ذریعہ اسکا حشر فرعون ہامان اور ابی بن خلف کیساتھ ہو گا۔
ف: فرعون کو تو ہر شخص جانتا ہے کہ کس درجہ کا کافر تھا حتی کہ خدائی کا دعوی کیا تھا اور ہامان اس کے وزیر کا نام ہے اور ابی بن خلف مکہ کے مشرکین میں سے بڑا سخت دشمن اسلام تھا ہجرت سے پہلے نبی اکرم ﷺ سے کہا کرتا تھا کہ میں نے ایک گھوڑا پالا ہے اس کو بہت کچھ کھلاتا ہوں اس پر سوار ہو کر ( نعوذ باﷲ) تم کو قتل کروں گا حضور نے ایک مرتبہ اس سے فرمایا تھا کہ انشاء اﷲ میں ہی تجھ کو قتل کروں گا احد کی لڑآئی میں وہ حصور اقدس ﷺ کو تلاش کرتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر وہ آج بچ گئے تو میری خیر نہیں چنانچہ حملہ کے ارادہ سے وہ حضور کے قریب پہنچ گیا صحابہ نے ارادہ بھی فرمایا کہ دور ہی سے اس کو نمٹا دیں حضور نے ارشاد فرمایا کہ آنیدو جب وہ قریب ہوا تو حضور ﷺنے ایک صحابی کے ہاتھ میں سے برچھا لیکر اسکے مارا جو اسکی گردن پر لگا اور ہلکا سا خراش اس کی گردن پر آ گیا مگر اس کی وجہ سے گھوڑے سے لڑھکتا ہوا گرا اور کئی مرتبہ گرا اور بھاگتا ہوا اپنے لشکر میں پہنچ گیا اور چلاتا تھا کہ خدا کی قسم مجھے محمد ﷺ نے قتل کر دیا کفار نے اس کو اطمینان دلایا کہ معمولی خراش ہے کوئی فکر کی بات نہیں مگر وہ کہتا تھا کہ محمد نے مکہ میں کہا تھاکہ میں تجھ کو قتل کروں گا خدا کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں مر جاتا لکھتے ہیں کہ اس کے چلانیکی آواز ایسی ہو گئی تھی جیسا کہ بیل کی ہوتی ہے ابو سفیان نے جو اس لڑائی میں بڑے زوروں پر تھا اس کو شرم دلائی کہ اس ذرا سی خراش سے اتنا چلاتا ہے اس نے کہا تجھے خبر بھی ہے کہ یہ کس نے ماری ہے یہ محمد کی مار ہے مجھے اس سے جس قدر تکلیف ہو رہی ہے لات اور غزی ( دو مشہور بتوں کے نام ہیں ) کی قسم اگر یہ تکلیف سارے حجاز والوں کو تقسیم کر دی جائے تو سب ہلاک ہو جائیں محمد نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ مین تجھ کو قتل کروںگا میں نیاسی وقت سمجھ لیا تھا کہ میں ان کے ہاتھ سے ضرور مارا جاؤں گا میں ان سے چھوٹ نہیں سکتا اگر وہ اس کہنے کے بعد مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں اس سے بھی مرجاتا چنانچہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے ایک دن پہلے وہ راستہ ہی میں مر گیا ہم مسلمانوں کے نہایت غیرت اور عبرت کا مقام ہے کہ ایک کافر پکے کافر اور سخت دشمن کو تو حضور ﷺکے ارشاد کے سچا ہونیکا اس قدر یقین ہو کہ اس کو اپنے مارے جانے میں ذرا بھی تردد یا شک نہ تھا لیکن ہم لوگ حضورﷺ کو نبی ماننے کے باوجود حضور ﷺکو سچاماننے کے باوجود حضورﷺ کے ارشادات کو یقینی کہنے کے باوجود حضورﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کے باوجود حضورﷺ کی امت میں ہو نے پر فخر کے باوجود کتنے ارشادات پر عمل کرتے ہیں اور جن چیزوں میں حضورﷺ نے عذاب بتائے ہیں ان سے کتنا ڈرتے ہیں کتنا کانپتے ہیں یہ ہر شخص کے اپنے ہی گریبان میں منہ ڈال کر دیکھنے کی بات ہے کو ی ٔدوسرا کسی کے متعلق کیا کہہ سکتا ہے ابن حجر نے کتاب الزواجر میں قارون کا بھی فرعون وغیرہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اکثر انہی وجوہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھین پس اگر اس کی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہو گا اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ اور وزارت ( یعنی ملازمت یا مصاحبت ) ہے تو ہامان کے ساتھ اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ اور جب ان لوگوں کے ساٹھ اس کا حشر لو گیا تو پھر جس قسم کے بھی عذاب احادیث میں وارد ہوئے خواہ وہ حدیثیں متکلم فیہ ہوں ان میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ جہنم کے عذاب سخت سے سخت ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کو اپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن ان سے خلاصی ہو جائے گی اور وہ لوگ ہمیشہ کیلئے اس میں رہیں گے لیکن خلاصی ہونے تک کا زمانہ کیا کچھ ہنسی کھیل ہے نہ معلوم کتنے ہزار برس ہوں گے۔

Hadith in Fazail e Namaz:Dont miss any prayer Loss and destruction is akin to loosing everything


۴۔ عَنْ نَوفَلِ بْنِ مُعٰوِیَۃَؓ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ فَاتَتُہُ صَلٰوۃٌفَکَاَنَّمَا وُتِرَاَھْلُہ‘ وَمَالُہ‘۔(رواہ ابن حبان فی صحیحہ کذافی الترغیب
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کی ایک نماز بھی فوت ہو گئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔
زادالسیوطی فی الدروالنسائی ایضاقلت ورواہ احمد فی مندہ) ۔
ف: نماز کا ضائع کرنا اکثر یا بال بچوں کی و جہ سے ہوتا ہے کہ ان کی خیر خبر میں مشغول رہے یا مال و دولت کمانے کے لالچ میں ضائع کی جاتی ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز کا ضائع کرنا انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے گویا بال بچے اور مال و دولت سب ہی چھیں لیا گیا اور اکیلا کھڑا رہ گیا یعنی جتنا خسارہ اور نقصان اس حالت میں ہے اتنا ہی نماز کے چھوڑنے میں ہے یا جس قدر رنج و صدمہ اس حالت میں ہو اتنا ہی نماز کے چھوٹنے میں ہونا چاہئے اگر کسی شخص سے کوئی معتبر آدمی یہ کہہ دے اور اسے یقین آ جائے کہ فلاں راستہ لٹتا ہے اور جو رات کو اس راستہ سے جاتا ہے تو ڈاکو اس کو قتل کر دیتے ہیں اور مال چھیں لیتے ہیں تو کون بہادر ہے کہ اس راستہ سے رات کو چلے رات کو تو درکنار دن کو بھی مشکل سے اس راستہ کو چلے گا مگر اﷲ کے سچے رسول کا یہ پاک ارشاد ایک دو نہیں کئی کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اور ہم مسلمان حضورﷺ کے سچے ہونیکا دعوٰی بھی جھوٹی زبانوں سے کرتے ہیں مگر اس پاک ارشاد کا ہم پر اثر کیا ہے ہر شخص کو معلوم ہے۔
۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلٰوتَیْنِ مِنْ غَیْرِعُذْرٍ فَقَدْاَتٰی بَابًا مِنْ اَبُوَابِ الْکَبَآئِرِ۔
نبی اکر م ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر پہنچ گیا۔
(رواہ الحا کم و قال حنش ھوابن قیس ثقۃ وقال الحافظ بل واہ بمرۃ لا نعلم احمدوثقہ غیر حصین بن نمیرکذافی الترغیب زادالسیوطی فی الدرالترمذی ایضا و ذکرفی الالی لہ شواھد اکذافی التعقبات وقال الحدیث اخرجہ الترمذی وقالحنش ضعیف ضعفہ احمد وغیرہ والعملعلی ھذاعند اھل العلم فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقدصرح غیر واحد بان من ولیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ لم یکن اسناد یعتمد علی مثلہ۱ہ)
ف: حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تین چیز میں تاخیر نہ کر ایک نماز جب اس کا وقت ہو جائے دوسری جنازہ جب تیار ہو جائے تیسری بے نکاحی عورت جب اس کے جوڑ کا خاوند مل جائے ( یعنی فوراً نکاح کر دینا ) بہت سے لوگ جو اپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیں اور گویا نماز کے پابند بھی سمجھے جاتے ہیں وہ کئی کئی نمازیں معمولی بہانہ سے سفر کا ہو دوکان کا ہو ملازمت کا ہو گھر آ کر اکھٹی ہی پڑھ لیتے ہین یہ گناہ کبیرہ ہے کہ بلا کسی عذر بیماری وغیرہ کے نماز کو اپنے وقت پر نہ پڑھا جاوے گو بالکل نماز نہ پڑھنے کے برابر گناہ نہ ہو لیکن بے وقت پڑھنے کا بھی سخت گناہ ہے اس سے خلاصی نہ ہوئی۔

Hadith in Fazail e Namaz: Ten Naseehah from Prophet about Shirk,Parent disobedience,leaving obligatory prayer,Alcohol, good Nurturing Tarbeeat of Children, not to leave the place at time of epedimic


۳۔ عَنْ مُّعَاؓذِبْنِ جَبَلٍ قَالَ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اﷲِ  بِعَشْرِ کَلِمَاتٍ قَالَ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ شَیْاً وَّاِنْ قُتِلْتَ اَؤحُرِّقْتَ وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِد یْکَ وَاِنْ اَمَرَاکَاَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ وَلَا تَتْرُکَن صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًافَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًافَقَدْبَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُاﷲِ وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرَاَفَاِنَّہ‘ رَأْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ وَاِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اﷲِ وَاِیَّاکَ وَالْفِرَارَمِنَ الزَّحْفِ وَاِنْ ھَلَکَ النَّاسُ وَاِنْ اَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ فَاثْبُتُ وَاَنْفِقْ عَلٰی اَھْلِکَ مِنْ طَوْلِکَ وَلَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ اَدَبًاوَاَخِفْھُمْ فِی اﷲِ۔
حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اقدسؐ نے دس باتوں کی وصیت فرمائی (۱) یہ کہ اﷲ کیساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے (۲) والدین کی نافرمانی نہ کرنا گو وہ تجھے اسکا حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کر دے (۳) فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا جو شخص فرض نماز جان کر چھوڑ دیتا ہے اﷲ کا ذمہ اس سے بری ہے (۴)شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی اور فحش کی جڑہے(۵) اﷲ کی نافرمانی نہ کرنا کہ اس سے اﷲ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے (۶) لڑائی میں نہ بھاگنا چاہے سب ساتھی مر جائیں (۷) اگر کسی جگہ وبا پھیل جاوے (جیسے طاعون وغیرہ) تو وہاں سے نہ بھاگنا اپنے گھر ولوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا (۹) تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا (۱۰) اﷲ تعالیٰ سے انکو ڈراتے رہنا۔
(رواہاحمدوالطبرنی فی الکبیرواسناد احمدصحیح لوسلم من الانقطاع فان عبدالرحمن ابن جبیر لم یسمع من معاذذافی الترغیب الیھما عزاہ السیوطیفی الدرولم یذکرالا نقطاع ثم قال واخرج الطبرانی عن امیمۃ مولۃرسول اﷲ قالت کنت اصب علی رسول اﷲ علیہ وسلم وضوء ہ فدخل رجل فقال اوصنی فقال لاتشرک باﷲشیا وان قطعت او حرقت خمرا فانہ مفتاح کل شرولاتترکن صلوۃمتعمداً فمن فعل ذلک فقد برات منہ ذمۃاﷲورسولہ)۔
ف: لکڑی نہ ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بے فکر نہ ہوں کہ باپ تنبیہ نہیں کرتا اور مارتا نہیں جو چاہے کرتے رہو بلکہ ان کو حدود شرعیہ کے تحت کبھی کبھی مارتے رہنا چاہئے کہ بغیر مار کے اگثرتنبیہ نہیں ہوتی آج کل اولاد کو شروع میں تو محبت کے جوش میں تنبیہ نہیں کی جاتی جب وہ بری عادتوں میں پختہ ہو جاتے ہیں تو پھر روتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ اولاد کے ساتھ محبت نہیں سخت دشمنی ہے کہ اس کو بری باتوں سے روکا نہ جائے اور مارپیٹ کو محبت کے خلاف سمجھا جائے کون سمجھ دار اس کو گوارا کر سکتا ہے کہ اولاد کے پھوڑے پھنسی کو بڑھایا جائے اور اس وجہ سے کہ نشتر لگانے سے زخم اور تکلیف ہو گی عمل جراحی نہ کرایا جائے بلکہ لاکھ بچہ روئے منہ بنائے بھاگے بہرحال نشتر لگانا ہی پڑتا ہے بہت سی حدیثوں میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ بچہ کو سات برس کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو حضرت لقمان حکیم کا ارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لئے ایسی ہے جیسا کہ کھیتی کے لئے پانی حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے یہ ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر علہ کا ہوتا ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی اس شخص پر رحمت کرے جو گھر والوں کو تنبیہ کے واسطے گھر میں کورا لٹکائے رکھے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے افضل عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھا طریقہ تعلیم کرے۔

Hadith Fazail e Amaal chaptor 2 Hadith No2: Dont leave Kalima and Namaz , Alcohol is mother of all evil, Never drink it Prohet Hadith


۲۔ عَنْ عُبَادَۃَبْن الصَّامتِؓ قَالَ أَوْ صَانِیْ خَلِیْلِی ْرَسُوْلُ اﷲِ بِسَبْعِ خِصَالٍ فَقَالَ لَا تُشْرِکُوْابِاﷲِ شَیْئًاوَّاِنْ قُطِعْتُمْ اَوْ حُرِّقْتُمْ اَوْصُلِّبْتُمْ وَلَا تَتْرُکُوالصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدِیْنَ فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّداً افَقَد خَرَجَ مِنَ المِلَّۃِ وَلَا تَرْکَبُوْا الْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّھَاسَخَطُ اﷲِ وَلَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ فَاِنَّھَا رَأْسُ الْخَطَایَاکُلِّھَا۔(الحدیث رواہ الطبرانی ومحمد بن نصرفی کتابی الصلوۃباسنادین لاناس بھما کذافیالترغیب وھکذاذکرہ السیوطی فی الدرالمنثورواعزہ الیھمافی المشکوۃ بروایۃ ابن ماجۃعن ابن ابی الدرداء نحوہ
حضرت عبادہؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضوراقدسﷺ نے سات نصیحتیں کی ہیں جن میں سے چار یہ ہیں اول یہ کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ بناؤ چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا تم جلا دئے جاؤ یا تم سولی چڑھا دئے جاؤ دوسری یہ کہ جان کر نماز نہ چھوڑو جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے وہ مذہت سے نکل جاتا ہے تیسری یہ کہ اﷲ تعالی کی نافرمانی نہ کرو کہ اس سے حق تعالی ناراض ہو جاتے ہیں جوتھی یہ کہ شراب نہ پیو کہ وہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔
ف: ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو الدردا ؓ بھی اسی قسم کا مضمون نقل فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے وصیت فرمائی کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ کرنا خواہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا آگ میں جلا دیا جائے دوسری نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑنا جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے اﷲ تعالی شانہ بری الذمہ ہیں تیسری شراب نہ پینا کہ ہر برائی کی کنجی ہے۔

Fazail e Namaz:Chapter 2 Hadith for punishment for leaving Salah/Namaz from Fazail e Amaal in Urdu Unicode


فصل دوم
نماز کے چھوڑنے پر جو وعید اور عتاب حدیث میں آیا ہے اس کا بیان
حدیث کی کتابوں میں نماز نہ پڑھنے پر بہت سخت سخت عذاب ذکر کئے گئے ہیں نمونے کے طور پر چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں سجی خبر دینے والے کا ایک ارشاد بھی سمجھ دار کے لئے کافی تھا مگر حضور اقدس ﷺکی شفقت کے قربان کہ آپ نے کئی کئی طرح سے اور بار بار اس چیز کی طرف متوجہ فرمایا کہ ان کے نام لیوا ان کی امت کہیں اس میں کوتاہی نہ کرنے لگے پھر افسوس ہے ہمارے حال پر کہ ہم حضور کے اس اہتمام کے باوجود نماز کا اہتمام نہیں کرتے اور بے غیری اور بے حیائی سے اپنے کو امتی اور متبع رسول اور اسلام کا دھنی بھی سمجھتے ہیں ۔
۱۔ عَنْ جَابِرِؓ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الرَّجُلاِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃ۔(رواہ احمد و مسلم) وَقَالَ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ۔ (ابوداودوالنسای ولفظہ لیس بین العبد وبین الکفر الاترکُ الصَّلٰوۃوالترمذی ولفظہ قال بین الکفروالایمان ترک الصلوۃ وابن ماجۃ ولفظہ قال بین العبد وبین الکفر ترالصلوۃکذافی التراغیب للمنذری وقال السیوطی فی الدرالحدیث جابراخرجہ ابن ابی شیبۃواحمدومسلم وابوداودوالترمذی النسای وابن ماجۃ ثم قال واخراج ابن ابی شیبۃواحمدوابوداودوالترمذی وصححہ والنسای وابن ماجۃ و ان حبان والحاکم وصححہ عن بُرَیدَۃَ مَرْفُوْعًا اَلْعَھْدُالَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلٰوۃ فَمَنْ تَرَکَھَاَ فَقَدْ کَفَر
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز چھوڑنا آدمی کو کفر سے ملادیتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندہ کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز چھوڑنا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔
ف : اس قسم کا مضمون اور بھی کئی حدیثوں میں آیا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابر کے دن نماز جلدی پڑھا کرو کیونکہ نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ ابر کی وجہ سے وقت کا پتہ نہ چلے اور نماز قضا ہو جائے اس کو بھی نماز کا چھوڑنا ارشاد فرمایا کتنی سخت بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز کے چھوڑنے والے پر کفر کا حکم لگانے میں گو علماء نے اس حدیث کوانکار کے ساتھ مقید فرمایا ہے مگر حضور ﷺکے ارشاد کی فکر اتنی سخت چیز ہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضور اقدس ﷺ کی وقعت اور حضور ﷺکے ارشاد کی اہمیت ہو گی اس کے لئے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں اس کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ جیسا کہ حضرت عمرؓ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓوغیرہ حضرات کا یہی مذہب ہے کہ بلا عذر جان کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے ائمہ میں سے حضرت امام احمد بن حنبل اسحق بن راہویہ ابن مبارک کا بھی یہی مذہب نقل کیا جاتا ہے اللہم احفظنا منہ۔

Hadith about coolness of Eye of Prophet is in Salah/Namaz, Prophet recited Surah Baqra Ale Imran and Surah Maeda in one rikat, Love for Namaz, Sincerity and Allah attention in Namaz


اسی دولت کی وجہ سے حضور نے اپنی آنکھ کی ٹھنڈک اس میں فرمائی اور اسی لذت کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ رات کا اکثر حصہ نماز ہی میں گذار دیتے تھےیہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وصال کے وقت خاص طور پر نماز کی وصیت فرمائی اور اس کے اہتمام کی تاکید فرمائی متعدد احادیث میں ارشاد نبوی نقل کیا گیا اِتَّقُواللّٰہَ فِی الصَّلٰوۃ ’’نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرتے رہو ‘‘حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ تمام اعمال میں مجھے نماز سب سے زیادہ محبوب ہے ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ایک رات مسجد نبوی پر گزرا حضوراَقدسﷺنماز پڑھ رہے تھے مجھے بھی شوق ہوا حضور کے پیچھے نیت باندھ لی حضورﷺسورہ بقرہ پڑھ رہے تھے میں نے خیال کیا کہ سو آیتوں پر رکوع کر دیں گے مگر جب وہ گزر گئیں اور رکوع نہ کیا تو میں نے سوچا دو سو پر رکوع کریں گے مگر وہاں بھی نہ کیا تو مجھے خیال ہوا کہ سورت کے ختم ہی پر کرین گے جب سورت ختم ہوئی تو حضورنے کئی مرتبہ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورہ آل عمران شروع کردی میں سوچ میں پڑ گیا آخر میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے ختم پر تو رکوع کریں ہی گے حضور نے اس کو ختم فرمایا اور تین مرتبہ اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورئہ مائدہ شروع کردی اس کو ختم کر کے رکوع کیا اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھتے رہے اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھتے رہے جوسمجھ میں نہ آیا اس کے بعد اسی طرح سجدہ میں سبْحانَ رَ بی الْاَ عْلٰی بھی پرھتے رہے اس کے ساتھ کجھ اور بھی پڑھتے تھے اس کے بعد دوسری رکعت میں سورہ انعام شروع کردی میں حضور کے ساتھ نماز پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا اور مجبور ہو کر چلا آیا پہلی رکعت میں تقریاً پانچ سیپارے ہوئے اور پھر حضور اقدس ﷺ کا پڑھنا جو نہایت اطمینان سے تجوید اور ترتیل کے ساتھ ایک ایک آیت جدا جدا کر کے پڑھتے تھے ایسی صورت میں کتنی لانبی رکعت ہوئی ہوگی انہیں وجوہ سے آپ کے پاؤںپر نماز پڑھتے پڑھتے ورم آ جاتا تھا مگر جس چیز کی لذت دل میں اتر جاتی ہے اس میں مشقت اور تکلیف دشوار نہیں رہتی ابو اسحق سبیحی مشہور محدث ہین سو برس کی عمر میں انتقال فرمایا اس پر افسوس کیا کرتے تھے کہ بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے نماز کا لطف جاتا رہا دو رکعتوں میں صرف دو سورتیں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی جاتی ہیں زیادہ نہیں پڑھا جاتا ( تہذیب التہذیب ) یہ دو سورتیں بھی پونے چار پاروں کی ہیں محمد بن سماک فرماتے ہیں کہ کوفہ میں میرا ایک پڑوسی تھا اس کے ایک لڑکا تھا جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا اور رات بھر نماز میں اور شوقیہ اشعار میں رہتا تھا وہ سوکھ کر ایسا ہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑہ رہ گیا اس کے والد نے مجھ سے کہا کہ تم اس کو ڈرا سمجھاؤ میں ایک مرتبہ اپنے دروازہ پر بیٹھا ہوا تھا وہ سامنے سے گزرا میں نے اسے بلایا وہ آیا سلام کرکے بیٹھ گیا میں نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ کہنے لگا چچا شاید آپ محنت میں کمی کا مشورہ دیں گے چچا جان میں نے اس محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ دیکھیں کون شخص عبادت میں زیادہ کوشش کرے انہوں نے کوشش اور محنت کی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بلا لئے گئے جب وہ بلائے گئے تو بڑی خوشی اور سرور کے ساتھ گئے ان میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا میرا عمل دن مین دوبار ان پر ظاہرہوتا ہو گا وہ کیا کہیں گے جب اس میں کوتاہی پائیں گے چچاجان ان جوانوں نے بڑے بڑے مجاہدے کئے ان کی محنتیں اور مجاہدے بیان کرنے لگا جن کو سنکر ہم لوگ متحیر رہ گئے اس کے بعد وہ لڑکا اٹھ کر چلا گیا تیسرے دن ہم نے سنا کہ وہ بھی رخصت ہو گیا ۔ رحمہ اﷲرحمۃ واسعۃ( نزہتہ) اب بھی اس گئے گذرے زمانے میں اﷲ کے بندے ایسے دیکھے جاتے ہیں جو رات کا اکثر حصہ نماز میں گزار دیتے ہیں اور دن دین کے کاموں تبلیغ و تعلیم میں منہمک رہتے ہیں حضرت مجدد الف ثانی کے نام نامی سے کون شخص ہندوستان میں ناواقف ہو گا ان کے ایک خلیفہ مولانا عبدالواحد لاہوری نے ایک دن ارشاد فرمایا کیا جنت میں نماز نہ ہو گی کسی نے عرض کیا کہ حضرت جنت میں نماز کیوں ہو وہ تو اعمال کے بدلہ کی جگہ ہے نہ کہ عمل کرنے کی اس پر ایک آہ کھینچی اور رونے لگے اور فرمایا کہ بغیر نماز کے جنت میں کیونکر گزرے گی ایسے ہی لوگوں سے دنیا قائم ہے اور زندگی کو وصول کرنے والی حقیقت میں یہی مبارک ہستیاں ہیں اﷲ جل شانہ اپنے لطف اور اپنے پر مر مٹنے والوں کے طفیل اس روسیاہ کو بھی نواز دے تو اس کے لطف عام سے کیا بعید ہے ایک پر لطف قصہ پر اس فصل کو ختم کرتا ہوں حافظ ابن حجر نے منیہات مین لکھا ہے ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں خوشبو ،عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضورﷺکے پاس چند صحابہؓ تشریف فرما تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں آپ کے چہرہ کا دیکھنا اپنے مال کو آپ پر خرچ کرنا اور یہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہے حضرت عمر ؓنے فرمایا سچ ہے اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں امر بالمعروف نہی عن المنکر اچھے کاموں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا اور پرانا کپڑا حضرت عثمان ؓنے فرمایا آپ نے سچ کہا اور مجھے تیں چیزیں محبوب ہیں بھوکو کو کھلانا ننگوں کپڑا پہنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا حضرت علی ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں پسند ہیں مہمان کی خدمت ،گرمی کا روزہ اور دشمن پر تلوار ۔اتنے میں حضرت جبریئل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھے حق تعالیٰ شا نہ‘ نے بھیجا ہے اور فرمایا کہ اگر میں ( یعنی جبرئیل) دنیا والوں میں ہوتا تو بتاؤں مجھے کیا پسند ہوتا حضور ﷺنماز دین کا ستون ہے نے ارشاد فرمایا بتاؤ عرض کیا بھولے ہووں کو راستہ بتانا غریب عبادت کرنے والوں سے محبت رکھنا اور عیال دار مفلسوں کی مدد کرنا اور اللہ جل شانہ‘ کو بندوں کی تین چیزیں پسندہیں ( اﷲ کی راہ میں) طاقت کا خرچ کرنا ( مال سے ہو یا جان سے) اور گناہ پرندامت کے وقت رونا اور فاقہ پر صبر کرنا ۔
حافظ ابن قَیِّمؒ در زادالمعادمیں تحریر فرماتے ہیں کہ نماز روزی کو کھینچنے والی ہے صحت کی محافظ ہے بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے دل کی تقویت پہنچاتی ہے چہرہ کو خوبصورت اور منور کرتی ہے جان کو فرحت پہنچاتی ہے اعضاء میں نشاط پیدا کرتی ہے کاہلی کو دفع کرتی ہے شرح صدر کا سبب ہے ۔رُوح کی غذا ہے ۔دل کو منور کرتی ہے ۔اﷲ کے انعام کی محافظ ہے اور عذاب الٰہی سے حفاظت کا سبب ہے شیطان کو دور کرتی ہے اور رحمن سے قرب پیدا کرتی ہے غرض روح اور بدن کی صحت کی حفاظت میں اس کو خاص دخل ہے اور دونوں چیزوں میں اسکی عجیب تاثیر ہے نیز دنیا اور آخرت کی مضرتوں کے دور کرنے میں اور دونوں جہان کے منافع پیدا کرنے میں اس کو بہت خصوصیت ہے ۔

Fazail e Namaz Hadith no 10 Abu Daood:Two rikat Nafl after faez is better than 200 Oqia Silver coin with respect to Akhirah business


۱۰۔ عَنْ اِبْنِ سُلْمَانَ اَنَّ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِ حَدَّثَہ‘ قَالَ لَمَّا فَتَحْنَاخَیْبَرَاَخْرَجُوْا غَنَائِمَھُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبِیِ فَجَعَلَ النَّاسُ یَتَبَا یَعُوْنَ غَنَائِمَھُمْ فَجَائَ رجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِلَقَدْرَبِحْتُ رِبْحًا مَارَبِحَ الْیَوْمَ مِثْلَہ‘ اَحَدٌ مِّن اَھْلِ الْوَادِیْ قَالَ وَیْحَکَ وَمَارَبِحْتَ قَالَ مَازِلْتُ اَبِیْعُ وَاَبْتَاعُ حَتّٰی رَبِحْت ثَلٰثَ مِائَۃِ اُوْقِیَۃٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ  اَنَااُنَبِّئُکَ بِخَیْر رَجُلٍ رَبِحَ قَالَ مَاھُوَیَارَسُوْلَ اﷲِ قَالَ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَالصَّلٰوۃِ۔ (اخرجہ ابوداودوسکت عنہ المذری)
ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ لڑائی میں جب خیبر کو فتح کرچکے تو لوگوں نے اپنے مالِ غنیمت کو نکالا جس میں متفرق سامان تھا اور قیدی تھے اور خرید و فروخت شروع ہوگئی (کہ ہر شخص اپنی ضروریات خریدنے لگا اور دوسری زائد چیزیں فروخت کرنے لگا ، اتنے میں ایک صحابیؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے آج کی اس تجارت میں اس قدر نفع ہوا کہ ساری جماعت میں سے کسی کو بھی اتنا نفع نہیں مل سکا۔ حضورﷺنے تعجب سے پوچھا کہ کتنا کمایا اُنہوں نے عرض کیا کہ حضورمیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اوقیہ چاندی نفع میں بچی حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا میں تمہیں بہترین نفع کی چیز بتاؤں انہوں نے عرض کیا حضورمیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اوقیہ چاندی نفع میں بچی حضورﷺنے اِرشاد فرمایا میں تمہیں بہترین نفع کی چیز بتاؤں انہوں نے عرض کیا حضور ضرور بتائیں اِرشاد فرمایاکہ فرض نماز کے بعد دو رکعت نفل۔
ف: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباًچار آنہ کا۔ تو اس حساب سے تین ہزار روپیہ ہوا۔ جس کے مقابلہ میں دو جہان کے بادشاہ کا ارشاد ہے کہ یہ کیا نفع ہوا۔ حقیقی نفع وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے والا اور کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اگر حقیقت میں ہم لوگوں کے ایمان ایسے ہی ہو جائیں اور دو رکعت نماز کے مقابلہ تین ہزار روپے کی وقعت نہ رہے تو پھرواقعی زندگی کا لطف ہے اور حق یہ ہے کہ نماز ہے ہی ایسی دولت۔ اسی وجہ سے حضوراقدس سیدالبشر فخر رسل ﷺنے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔ اور وصال کے وقت آخری وصیت جو فرمائی ہے اس میں نماز کے اِہتمام کا حکم فرمایا ہے (کنزالعمال) متعددحدیثوں میں اس کی وصیت مذکور ہے منجملہ ان کے حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ آخری وقت میں جب زبان مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے اس وقت بھی حضوراقدسﷺنماز اور غلاموں کے حقوق کی تاکید فرمائی تھی۔ حضرت علیؓ سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ آخری کلام حضوراَقدسﷺ کا نماز کی تاکید اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم تھا (جامع صغیر) حضوراقدسﷺْ نے نجد کی طرف ایک مرتبہ جہاد کے لئے لشکر بھیجا جو بہت ہی جلدی واپس لوٹ آیا اور ساتھ ہی بہت سارا مال غنیمت لے کر آیا۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ اتنی ذرا سی مدت میں اتنی بڑی کامیابی اور مال و دولت کے ساتھ واپس آگیا۔ حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس سے بھی کم وقت میں اس مال سے بہت زیادہ غنیمت اور دولت کمانے والی جماعت بتاؤں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح کی نماز میں جماعت میں شریک ہوں اور آفتاب نکلنے تک اسی جگہ بیٹھے رہیں۔ آفتاب نکلنے کے بعد (جب مکروہ وقت جو تقریباً بیس منٹ رہتا ہے نکل جائے) تو دو رکعت (اشراق کی) نماز پڑھیں۔ یہ لوگ بہت تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ دولت کمانے والے ہیں۔ حضرت شفیق ؒ بلخی مشہورصوفی اور بزرگ ہیں۔ فرماتے ہیںکہ ہم نے پانچ چیزیں تلاش کیں اُن کو پانچ جگہ پایا (۱) روزی کی برکت چاشت کی نماز میں ملی اور (۲) قبر کی روشنی تہجد کی نماز میں ملی (۳) منکر نکیر کے سوال کا جواب طلب کیا تو اس کو قرأت میں پایا اور (۴) پل صراط کا سہولت سے پار ہونا روزہ اور صدقہ میں پایا اور (۵) عرش کا سایہ خلوت میں پایا (نزہۃالمجالس) حدیث کی کتابوں میں نماز کے بارے میں بہت ہی تاکید اور بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے تبرکا ًچند احادیث کا صرف ترجمہ لکھا جاتا ہے۔
(۱) حضورﷺکا اِرشاد ہے کہ اللہ جل شانہ نے میری امت پر سب چیزوں سے پہلے نماز فرض کی اور قیامت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا (۲) نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو (۳)آدمی کے اور شرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے (۴) اسلام کی علامت نماز ہے جو شخص دل کو فارع کر کے اور اوقات اور مستحبات کی رعایت رکھ کر نماز پڑھے وہ مومن ہے (۵) حق تعالیٰ شانہ ‘نے کوئی چیز ایمان اور نماز سے افضل فرض نہیں کی اگر اس سے افضل کسی اور چیز کو فرض کرتے تو فرشتوں کو اس کا حکم دیتے فرشتے دن رات کوئی رکوع میں ہے کوئی سجدے میں (۶) نماز دین کا ستون ہے (۷) نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے (۸) نماز مومن کا نور ہے (۹) نماز افضل جہاد ہے (۱۰) جب آدمی نماز میں داخل ہوگا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کی طرف پوری توجہ فرماتے ہیں جب وہ نماز سے ہٹ جاتا ہے تو وہ بھی توجہ ہٹا لیتے ہیں (۱۱)جب کوئی افت آسمان سے اترتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹ جاتی ہے (۱۲) اگر ادمی کسی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے تو اسکی آگ سجدے کی جگہ کو نہیں کھاتی(۱۳) اﷲ نے سجدہ کی جگہ کو آگ پر حرام فرما دیا ہے (۱۴) سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اﷲ کے نزدیک وہ نماز ہے جو وقت پر پڑھی جائے (۱۵)اﷲ جل شانہ کو آدمی کی ساری حالتوں میں سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس کو سجدہ میں پڑا ہوا دیکھی کہ پیشانی زمین سے رگڑ رہا ہے (۱۶) اﷲ جل شانہ کے ساتھ آدمی کو سب سے زیادہ قرب سجدہ میں ہوتا ہے (۱۷) جنت کی کنجیاں نماز ہیں (۱۸) جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اﷲ جل شانہ کے اور اس نمازی کے درمیان پردے ہٹ جاتے ہیں جب تک کہ کھانسی وعیرہ میں مشغول نہ ہو (۱۹) نمازی شہنشاہ کا دروازہ کھٹکٹاتا اور یہ قاعدہ ہے کہ جو دروازہ کھٹکٹاتا ہی رہے تو کھلتا ہی ہے (۲۰) نماز کا مرتبہ دین میں ایسا ہی ہے جیسا کہ سر کا درجہ ہے بدن میں (۲۱) نماز دل کا نور ہے جو اپنے دل کو نورانی بنانا چاہے (نماز کے ڈریعہ سے ) بنا لے (۲۲) جو شخص اچھی طرح وضو کر اس کے اعد خشوع و خضوع سے دو یا چار رکعت نماز فرض یا نفل پڑھ کر اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے اﷲ تعالی شانہ معاف فرما دیتے ہیں (۲۳) زمین کے جس حصہ پر نماز کے ذریعہ سے اﷲ کی یاد کی جاتی ہے وہ حصہ زمین کے دوسرے ٹکڑوں پر فخر کرتا ہے (۲۴) جو شخص دو رکعت نماز پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے تو حق تعالی شانہ وہ دعا قبول فرما لیتے ہیں خواہ فوراً ہو یا کسی مصلحت سے کجھ دیر کے بعد مگر قبول ضرور فرماتے ہیں (۲۵) جو شخص تنہائی میں دو رکعت نماز پڑھے جس کو اﷲ اور اس کے فرشتوں کے سوا کوئی نہ دیکھے تو اس کی جہنم کی آگ سے بری ہونے کا پروانہ مل جاتاہے (۲۶) جو شخص ایک فرض نماز ادا کرے اﷲ جل شانہ کے یہاں ایک مقبول دعا اس کی ہو جاتی ہے (۲۷) جو پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہے ان کے رکوع و سجود اور وضو وغیرہ کو اہتمام کے ساتھ اچھی طرح سے پورا کرتا رہے جنت اس کے لئے واجب ہو جاتی ہے اور دوزخ اس پر حرام ہو جاتی ہے (۲۸)مسلمان جب تک پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے شیطان اس سے ڈرتا رہتا ہے اور جب وہ نمازوں میں کوتاہی کرنے لگتا ہے تو شیطان کو اس پر جرأت ہو جاتی ہے اور اس کے بہکانے کی طمع کرنے لگتا ہے (۲۹) سب سے افضل عمل اول وقت نماز پڑھنا ہے (۳۰) نماز ہر متقی کی قربانی ہے (۳۱) اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل نماز کو اول وقت پڑھنا ہے (۳۲) صبح کو جو شخص نماز کو جاتا ہے اس کے ہاتھ میں ایمان کا جھنڈا ہوتا ہے اور جو بازار کو جاتا ہے اس کے ہاتھ میں شیطان کا جھنڈا ہوتا ہے (۳۳) ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتوں کا ثواب ایسا ہے جیسا کہ تہجد کی چار رکعتوں کا (۳۴) ظہر سے پہلے چار رکعتیں تہجد کی چار رکعتوں کے برابر شمار ہوتی ہیں (۳۵) جب آدمی نماز کو کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الٰہیہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے (۳۶)افضل ترین نماز آدھی رات کی ہے مگر اس کے پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں (۳۷) میرے پاس حضرت جبرئیل آئے اور کہنے لگے اے محمد ﷺ خواہ کتنا ہی آپ زندہ رہیں آخر ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہیں محبت کریں آخر ایک دن اس سے جدا ہونا ہے اور آپ جس قسم کا بھی عمل کریں (بھلا یا برا ) اس کا بدلہ ضرور ملے گا اس میں کو ئی تردد نہیں کہ مؤمن کی شرافت تہجد کی نماز ہے اور مومن کی عزت لوگوں سے استغنا ہے (۳۸) اخیر رات کی دو رکعتیں تمام دنیا سے افضل ہیں اگر مجھے مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو امت پر فرض کر دیتا(۳۹) تہجد ضرور پڑھا کرو کہ تہجد صالحین کا طریقہ ہے اور اﷲ کے قرب کا سبب ہے تہجد گناہوں سے روکتا ہے اور خطاؤں کی معافی کا ذریعہ ہے اس سے بدن کی تندرستی بھی ہوتی ہے (۴۰) حق تعالیٰ شا نہ‘ کا ارشاد ہے کہ اے آدم کی اولاد تو دن کے شروع مین چار رکعتوں سے عاجز نہ بن میں تمام دن تیرے کاموں کی کفایت کروں گا ۔
حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے نماز کے فضائل اور ترغیبن ذکر کی گئی ہیں چالیس کے عدد کی رعایت سے اتنے پر کفایت کی گئی کہ اگر کوئی شخص ان کو حفظ یاد کر لے تو چالیس حدیثیں یاد کرنے کی فضیلت حاصل کرلے گا حق یہ ہے کہ نماز ایسی بڑی دولت ہے کہ اس کی قدر وہی کر سکتا ہے جس کو اﷲ جل شانہ نے اس کا مزہ چکھا دیا ہو 

Fazail e Namaz Hadith no 9: Abu Daood Durre Mansur,Ahmad Ibne Hibban Baheeqi Allah takes guarantee for those perform five times prayer with punctuality


۹۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ بِنْ رَبْعِیٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِنِّی افْتَرَضْتُ عَلٰی اُمَّتِکَ خَمْسَ صَلٰواتٍ وَعَھِدْتُ عِنْدِیْ عَھْدًااَنَّہ‘ مَنْ حَافِظَ عَلَیْھِنَّ لِوَقْتِھِنَّ اَدْخَلْتُہُالْجَنّۃَ فِیْ عَھْدِیْ وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْھِنَّ فَلَا عَھْدَ لَہ‘ عِنْدِیْ۔(کذافی الدرالمنثوربروایت ابی داود و ابن ماجۃوفیہایضا اخرج مالک وابن ابی شیبۃ و احمدد اود و النسایو ابن حبان والبقی عن عبادۃ بن الصامت فذکرمعنی حدیث الباب مرفوعاباطول منہ)
حضورﷺکا اِرشاد ہے کہ حق تعالی جل شانہ‘ نے یہ فرمایا کہ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اس کا میں نے اپنے لئے عہد کرلیا ہے کہ جو شخص ان پانچوں نمازوں کو اُن کے وقت پر ادا کرنے کا اِہتمام کرے اسکو اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کرونگا اور جو اِن نمازوں کا اہتمام نہ کرے تو مجھ پر اُسکی کوئی ذمہ داری نہیں۔
ف:ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون اور وضاحت سے آیاہے کہحق تعالی جل شانہ‘ نے پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جو شخص ان میں لاپروائی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ اچھی طرح وضو کرے اور وقت پر ادا کرے خشوع وخضوع سے پڑھے۔ حق تعالیٰ جل شانہ‘ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے اور جو شخص ایسا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اُس سے نہیں، چاہے اس کی مغفرت فرمائیں چاہے عذاب دیں کتنی بڑی فضیلت ہے نماز کی کہ اس کے اِہتمام سے اللہ کے عہد میں اورذمہ داری میں آدمی داخل ہوجاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی معمولی سا حاکم یا دولت مند کسی شخص کو اطمینان دلادے یا کسی مطالبہ کا ذِ مہ دار ہوجائے یا کسی قسم کی ضمانت کرلے تو وہ کتنا مطمئن اور خوش ہوتا ہے اور اُس حاکم کا کس قدر احسان مند اور گرویدہ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک معمولی عبادت پر جس میں کچھ مشقت بھی نہیں ہے مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ عہد کرتا ہے پھر بھی لوگ اس چیز سے غفلت اور لاپروائی کرتے ہیں۔ اِس کسی کا کیا نقصان ہے، اپنی ہی کم نصیبی اور اپنا یہ ضرر ہے۔

Fazail e Namaaz Hadith no 8 in Sahih Ibne Khuzaimah o Ahmad Hasan Hadith from Fazail e Amaal in Urdu


۸۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ عَنْ رَسُوْلِ  اَنَّہ‘ قَالَ یُبْعَث مُنَادٍ عِنْدَ حَضْرَۃِکُلِّ صَلٰوۃِ فَیَقُوْلُ یَا بَنِیْ اٰدَمَ قُوْمُوْا فَاَطْفِئُوْا مَا اَوْقَدْتُّم عَلٰی اَنْفُسِکُمْ فَیَقُوْمُوْنَ فَیَتَطَہَّرُوْنَ وَیُصَلُّونَ اظُّہْرَ فَیُغْفَرُلَہُمْ مَا بَیْنَہُمَا فَاِذَا  حَضَرَتِ الْعَصْرُ فَمِثْلُ ذٰلِکَ فَاِذَا حَضَرَتِ الْمَغْرِبُ فَمِثْلُ ذٰلِکَ فَاِذَا حَضَرَتِ الْعَتَمَۃُ فَمِثْلُ ذٰلِکَفَیَنَامُوْنَ فَمُدْلِجٌ فِیْ خَیْرٍ وَمُدْ لِجٌ فِیْ شَرٍّ۔(قال المنذری رواہ مالک واللفظ لہ واحمد ماسناد حسن والنسائی وابن خزیمۃ فی صحیحہ)۔
حضوراقدسﷺکا اِرشا د ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو ایک فرشتہ اعلان کرتاتا ہے کہ اے آدم کی اولاد اٹھواور جہنم کی اس آگ کو جسے تم نے (گناہوں کی بدولت) اپنے اوپر جلانا شروع کردیا ہے بجھاؤ چنانچہ (دیندار لوگ) اُٹھتے ہیں وضو کرتے ہیں ظہر کی نماز پڑھتے ہیں جس کی وجہ ان کے گناہوں کی (صبح سے ظہر تک کی) مغفرت کر دیجاتی ہے اسی طرح پھر عصر کے وقت پھر مغرب کے وقت پھر عشاء کے وقت (غرض ہر نماز کے وقت یہی صورت ہوتی ہے) عشاء کے بعد لوگ سونے میں مشغول ہوجاتے ہیں اس کے
بعد اندھیرے میں بعض لوگ برائیوں زنا کاری بدکاری، چوری وکی طرف چل دیتے ہیں اور بعض لوگ بھلائیوں (نماز، وظیفہ۔ذکر وغیرہ) کی طرف چلنے لگتے ہیں۔
ف: حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے یہ مضمون آیا ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے لطف سے نماز کی بدولت گناہوں کو معاف فرماتے ہیں اور نماز میں چونکہ استغفارخود موجود ہے جیسا کہ اوپر گذرا اسلئے صغیرہ اور کبیرہ ہر قسم کے گناہ اس میں داخل ہوجاتے ہیں بشرطیکہ دل سے گناہوں پر ندامت ہو۔ خود حق تعالی شانہ کاارشاد ہے۔اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِوَزُلَفًا مِّنْ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ طجیسا کہ حدیث (۳) میں گزرا ۔
حضرت سلمان ؓ ایک بڑے مشہور صحابی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب عشاء کی نماز ہو لیتی ہے تو تمام آدمی تین جماعتوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ایک وہ جماعت ہے جس کے لئے یہ رات نعمت ہے اور کمائی ہے اور بھلائی ہے۔ وہ حضرات ہیں جو رات کی فرصت کو غنیمت سمجھتے ہیں اور جب لوگ اپنے اپنے راحت وآرام اور سونے میں مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ نماز میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ ان کی رات ان کے لئے اجروثواب بن جاتی ہے۔ دوسری وہ جماعت ہے جس کیلئے رات وبال ہے عذاب ہے یہ وہ جماعت ہے جو رات کی تنہائی اور فرصت کو غنیمت سمجھتی ہے اور گناہوں میں مشغول ہو جاتی ہے اُن کی رات ان پر وبال بن جاتی ہے۔ تیسری وہ جماعت ہے جو عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتی ہے اس کے لئے نہ وبال ہے نہ کمائی، نہ کچھ گیا اور نہ آیا۔

Fazail e Namaz Hadith No 8 Hadith Ibne Hibban Ibne Maja from Fazail e Amaal

۷۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ کَانَ رَجُلَانِ مِنْ بَلِیِّ حَیٌّ مِّنْ قُضَاعَۃَ اَسْلَمَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ  فَاسْتُشْھِدْ اَحَدُ ھُمَا وَاُخِّرَ الْاٰخَرُ سَنَۃً قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اﷲِ فَرَأَیْتُ الْمُؤَخَّرَ مِنْھُمَااُدْخِلَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الشَّھِیْدِ فِتِعِجَّبْتُ لِذٰلِکَ فَاَصْبَحْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ  اَوْذُکِرَ لِرَسُوْلِ اﷲِ  فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِاَلَیْسَ قَدْصَامَ بَعْدَہ‘ رَمَضَانَ وَصَلّٰی سِتَّۃَ اٰلَافِ رَکْعَۃٍ وَکَذَا وَکَذَا رَکْعَۃً صَلٰوۃَ سَنَۃٍ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو صحابی ایک ساتھ مسلمان ہوئے اُن میں سے ایک صاحب جہاد میں شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد انتقال ہوا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا تھا اُن شہید سے بھی پہلے جنت میں ہوگئے تو مجھے بڑا تعجب ہواشہید کا درجہ تو بہت اونچا ہے ہو پہلے جنت میں داخل ہوتے ۔ میں حضورﷺسے خود عرض کیا یا کسی اور نے عرض کیا تو حضور اقدسﷺارشاد فرمایا کہ جن صاحب کا بعد میں اِنتقال ہوا ان کی نیکیاں نہیں دیکھتے کتنی زیادہ ہوگئیں ایک رمضان المبارک کے پورے روزے بھی اُن کے زیادہ ہوئے اور چھ ہزار اور اتنی اتنی رکعتیں نماز کی ایک سال میں اُن کی بڑھ گئیں۔
(رواہ احمد باسنادحسن ورواہ ابن ماجۃوابن حبان فی صحیہ والبیھقی کھم عن طلھۃ بنحوہ اطول منہ وزادابن ماجہ وابن حبان فی احرہ فلما بیینھما اطول ما بین السما والارض کذا فی التر غیب ولفظ احمد فی النسخۃ التی با ید ینا اوکذاوکذا رکعۃ بلفظ اووفی الد را خرجہ مالکٔ وا حمد والنسائی وابن خزیمۃوالحا کم والبییہقی فے شعب الایمان عامر بن سعد قال سمعت سعد اونا سامن الصحا بۃ یقو لون کان رجلان اخران فی عہد رسول اللّٰہ  وکان احدہما افضل من الاخر فتونی الزی ہو افضلہما ثم عمر الاخر بعدہ اربعین لیلۃ الحدیث وقد ا خرج ابوداؤد بعنی حدیث الباب من حدیث عبید بن خا لد بافظ قتل احدہما وما ت الاخر بعدہ بجمعۃ الحدیث) ۔
ف: اگرایک سال کے تمام مہینے انتیس دن کے لگائے جائیں اور صرف فرض اور وتر کی بیس رکعتیں شمار کی جائیں تب بھی چھ ہزار نو سو ساٹھ رکعتیں ہوتی ہیں اور جتنے مہینے تیس دن کے ہوں گے بیس بیس رکعتوں کا اضافہ ہوتا رہے گا اور سنتیں اور نوافل بھی شمار کئے جائیں تو کیا ہی پوچھنا ۔ ابن ماجہ میں یہ قصّہ اور بھی مفصل آیا ہے اس میں حضرت طلحہ ؓ جو خواب دیکھنے والے ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو آدمی حضوراقدسﷺکی خدمت میں ایک ساتھ آئے اور اکھٹے مسلمان ہوئے ایک صاحب بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے تھے وہ ایک لڑائی میں شہید ہو گئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں اور وہ دونوں صاحب بھی وہاں ہیں۔ اندر سے ایک شخص آئے اور اُن صاحب کو جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا تھا اندر جانے کی اجازت ہوگئی اور جو صاحب شہید ہوئے تھے وہ کھڑے رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اندر سے ایک شخص آئے اور اُن شہید کو بھی اجازت ہوگئی اور مجھ سے کہا کہ تمہارا ابھی وقت نہیں آیا تم واپس چلے جاؤ۔ میں نے صبح کو لوگوں سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ سب کو اس پر تعجب ہوا کہ ان شہید کو بعد میں اجازت کیوں ہوئی ان کو تو پہلے ہونی چاہیے تھی۔ آخر حضورﷺسے لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا توحضورﷺنے اِرشاد فرمایا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسولﷺاللہ وہ شہید بھی ہوئے اور بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے بھی تھے اور جنت میں یہ دوسرے صاحب پہلے داخل ہوگئے حضورﷺنے اِرشادفرمایا، کیا انہوں نے ایک سال عبادت زیادہ نہیں کی عرض کیا، بیشک کی۔ اِرشاد فرمایا، کیا انہوں نے پورے ایک رمضان کے روزے اُن سے زیادہ نہیں رکھے عرض کیا گیا بیشک رکھے۔ اِرشاد فرمایا کیا انہوں نے اتنے اتنے سجدے ایک سال کی نمازوں کے زیادہ نہیں کئے۔ عرض کیا گیا بیشک کئے۔ حضورﷺنے فرمایا پھر اِ ن دونوں میں آسمان زمیں کا فرق ہوگیا۔
اس نوع کے واقعہ کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے ۔ ابوداؤد شریف میں دو صحابہؓ کا قصّہ اسی قسم کا صرف آٹھ دن کے فرق سے ذکر کیا گیا ہے کہ دوسرے صاحب کا اِنتقال ایک ہفتہ بعد ہوا پھر بھی وہ جنت پہلے داخل ہوگئے۔ حقیقت میں ہم لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں کہ نماز کتنی قیمتی چیز ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ حضوراقدس ﷺْ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔ حضورﷺکی آنکھ کی ٹھنڈک جو انتہائی محبت کی علامت ہے معمولی چیز نہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ دو بھائی تھے ان میں سے ایک چالیس روز پہلے اِنتقال کر گئے۔ دوسرے بھائی کا چالیس روز بعد اِنتقال ہوا۔ پہلے بھائی زیادہ بزرگ تھے۔ لوگوں نے اُن کو بہت بڑھانا شروع کر دیا۔ حضورﷺنے اِرشاد فرمایا کیا دوسرے بھائی مسلمان نہ تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بیشک مسلمان تھے مگر معمولی درجہ میں تھے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ ان چالیس دن کی نمازوں نے اُن کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔ نماز کی مثال ایک میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو دروازہ پر جاری ہو اور آدمی پانچ دفعہ اس میں نہاتا ہو تو اس کے بدن پر کیا میل رہ سکتا ہے اس کے بعد پھر دوبارہ حضورﷺنے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ اس کی نمازوں نے جو بعد میں پڑھی گئیں اس کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔

Hadith No 7 Fazail e Namaz chapter in Fazail e Amaal, virtues of Amaal, Salah washes away minor sins, but we should be careful and not be proudy for it.


۶۔ عَنْ اَبِیْ مُسْلِمٍ نِ التَّغْلَبِیِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ اُمَامَۃَوَھُوَفِی الْمَسْجَدِ فَقُلْتُ یَااَبَااُمَامَۃَاِنَّ وَاُذْنَیْہِ ثُمَّ قَامَ اِلَی صَلٰوۃٍمَّفْرُوْضَۃٍ غَفَرَاﷲُ لَہ‘ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مَا مَشَتْ اِلَیْہِ رِجْلَاہُ وَقَبَضَتْ عَلَیْہِ یَدَاہُ وَسَمِعَتْ اِلَیْہِ اُذُنَاہُ وَنَظَرَتْ اِلَیْہِ عَیْنَاہ‘ وَحَدَّثَ بِہٖ نَفْسُہ‘ مِنْ سُوْئٍ فَقَالَ وَاﷲِ لَقَدْ سَمِعْتُہ‘ مِنَ النَّبِیِّ  مِرَارًا۔(رواہ احمدوالغالب علی سند ہ الحسن وتقدم لہ شواھدفی الوضوء کذافی الترغیب قلت وقدروی معنی الحدیث عن ابی امامۃ بطرق فی مجمع الزوائد)
ابو مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپکی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ جل شانہ، اس دن وہ گناہ جوچلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اسکے ہاتھوںنے کیا ہو اور وہ گناہ جو اسکے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوںسے کیاہواوروہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں ۔سب کو معاف فرما دیتے ہیں حضرت ابو امامہ نے فرمایا کہ میں نے یہ مضمون نبی اکرم ﷺ سے کئی دفعہ سنا ہے
ف : یہ مضمون بھی کئی صحابہؓ سے نقل کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت عبداللہ صنابحیؓ، حضرت عمروؓ بن عبسہ وغیرہ حضرات سے مختلف اَلفاظ کے ساتھ متعدد روایات میں ذکر کیا گیا ہے اور جو اہل کشف ہوتے ہیں اُن کو گناہوں کا زائل محسوس بھی ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا قصہ مشہور ہے کہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرما لیتے تھے کہ کونسا گناہ اس میں دھل رہا ہے۔ حضرت عثمان کی ایک روایت میں نبی اکرم ﷺْ کا یہ اِرشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو اس بات سے غرور نہیں ہونا چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھمنڈ پر کہ نماز سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں جرأت نہیں کرنا چاہیے اس لئے کہ ہم لوگوں کی نماز اور عبادات جیسی ہوتی ہیں اُن کو اگر حق تعالیٰ جل شانہ، اپنے لطف و کرم سے قبول فرمالیں تو اُن کا لطف، احسان و اِنعام ہے ورنہ ہماری عبادتوں کی حقیقت ہمیں خوب معلوم ہے۔ اگرچہ نماز کا یہ اثر ضروری ہے کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں مگر ہماری نماز بھی اس قابل ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ ا س وجہ سے گناہ کرنا کہ میرا مالک کریم ہے معاف کرنے والا ہے انتہائی بے غیرتی ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ کوئی شخص یوں کہے کہ اپنے ان بیٹوں سے جو فلاں کام کریں درگزر کرتا ہوں تو وہ نالائق بیٹے اس وجہ سے کہ باپ نے درگزر کرنے کو کہہ دیا ہے جان جان کر اُس کی نافرمانیاں کریں۔