مولف
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اﷲ مرقدہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مقدمہ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ الْاِنْسَانَ
وَعَلَّمَہُ الْبَیَانَ وَاَنْزَلَ لَہُ الْقُرْاٰنَ وَجَعَلَہ‘ مَوْعِظَۃً
وَّشِفَائً وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّذَوِی الْاِیْمَانِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلَمْ
یَجْعَلْ لَّہ‘ عِوَجًاوَّاَنْزَلَہ‘ قَیِّماً حُجَّۃً نُوْرَاًلِّذَوِی
الْاِیْقَانِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ الْاَتَمَّانِ الْاَکْمَلَانِ عَلٰی
خَیْرِالْخَلَائِقِ مِنَ الْاِنْسِ وَالْجَٓانِ الَّذِیْ نَوَّرَ الْقُلُوْبَ وَالْقُبُوْرَ نُوْرُہ‘
وَرَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ ظُھُوْرُہ‘ وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَصَحْبِہِ الَّذِیْنَ
ھُمْ نُجُوْمُ الْھِدَایَۃِ وَنَاشِرُو الْفُرْقَانِ وَعَلٰی مَنْ تَبِعَھُمْ
بِالْاِیْمَانِ وَبَعْدُ فَیَقُوْلُ الْمُفْتَقِرُاِلٰی رَحْمَۃِ رَبِّہِ
الْجَلِیْلِ عَبْدُہُ الْمَدْعُوُّ بِزَکَرِیَّابِنِ یَحْیٰی بِنِ اِسْمٰعِیْلَ
ھٰذِہِ الْعُجَالَۃُ اَرْبَعُوْنَۃٌ فِیْ فَضَائِلِ الْقُراٰنِ اَلَّفْتُھَا
مُمْتَثِلًا لِاَمْرِ مَنْ اِشَارَتُہ‘ حُکْمٌ وَّطَاعَتُہٗ غُنْمٌ۔
تمام تعریف اس ذات پاک کیلئے ہے
جس نے انسان کو پید ا کیا اور اسکو وضاحت سکھائی اور اس کیلئے وہ قرآن پاک نازل
فرمایا جس کو نصیحت اور شفا اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کیلئے بنایا جس میں نہ
کوئی شک ہے اور نہ کسی قسم کی کجی بلکہ وہ بالکل مستقیم ہے اور حجت و نور ہے یقین
والوں کیلئے اور کامل و مکمل درودو سلام اس بہترین خلائق پر ہو جیو، جس کے نور نے
زندگی میں دلوں کو اور مرنے کے بعد قبروں کو منور فرما دیا اور جسکے ظہور تمام
عالم کیلئے رحمت ہے اور آپکی اولاد اور اصحاب پر جو ہدایت کے ستارے ہیں اور کلام
پاک کے پھیلانے والے نیز ان مومنین پر بھی جو ایمان کیساتھ انکے پیچھے لگنے والے
ہیں حمد صلوۃ کے بعد اﷲ کی رحمت کا محتاج بندہ زکریا بن یحییٰ بن اسمٰعیل عرض کرتا
ہے کہ یہ جلدی میں لکھے ہوے۔
چند اوراق فضائل قرآن میں ایک
چہل حدیث ہے جسکو میں نے ایسے حضرات کے امتشال حکم میں جمع کیا ہے جن کا اشارہ بھی
حکم ہے اور انکی اطاعت ہر طرح مغتنم ہے۔
حق سبحانہ و تقدس کے ان انعامات
خاصہ میں سے جو مدرسہ عالیہ مظاہر علوم سہارن پور کے ساتھ ہمیشہ مخصوص رہے ہیں
مدرسے کا سالانہ جلسہ ہے جو ہر سال مدرسے کے اجمالی حالات سنانے کے لئے منعقد ہوتا
ہے مدرسے کے اس جلسہ میں مقررین واعظین اور مشاہیر اہل ہند کے جمع کرنے کا اس قدر
اہتمام نہیں کیا جاتا جتنا کے اﷲ والے قلوب والے کمنامی میں رہنے والے مشائخ کے
اجتماع کی سعی کی جاتی ہے وہ زمانہ اگرچہ دور ہو گیا ہے جب کہ حجتہ الاسلام حضرت
مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس اﷲ سترہ العزیز اور قطب الارشاد حضرت اقدس
مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نور اﷲ مرقدہ کی تشریف آوری حاضرین جلسہ کے قلوب کو
منور فرمایا کرتی تھی مگر وہ منظر ابھی آنکھوں سے زیادہ دور نہیں ہوا جب کہ ان مجد
دین اسلام اور شموس ہدایت کے جانشین حصرت شیخ الہند رحمتہ اﷲ علیہ حضرت شاہ عبد
الرحیم صاحب رحمتہ اﷲ علیہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب رحمتہ اﷲ علیہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب نور
اﷲ مرقدہ مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں مجتمع ہو کر مردہ قلوب کیلئے زندگی و نورانیت
کیلئے چشمے جاری فرمایا کرتے تھے اور عشق کے پیاسوں کو سیراب فرماتے تھے۔
دور حاضر میں مدرسے کا جلسہ ان
بدور ہدایت سے بھی گو محروم ہو گیا مگر ان کے سچے جانشین حضار جلسہ کو اب بھی اپنے
فیوض و برکات سے مالا مال فرماتے ہیں جو لوگ امسال جلسے میں شریک رہے ہیں وہ اس کے
لئے شاہد عدل ہیں آنکھوں والے برکات دیکھتے ہیں لیکن ہم سے بے بصر بھی اتنا ضرور
محسوس کرتے ہیں کہ کوئی بات ضرور ہے۔
مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں اگر
کوئی شخص شستہ تقاریر زور دار لیکچروں کا طالب بن کے آئے تو شاید وہ اتنا مسرور نہ
جائے جس قدر کہ دورائے دل کا طالب کامگار و فیض یاب جائے گا فللہ الحمد و المنۃ۔
اسی سلسلہ میں سال رواں ۲۷ ذیقعدہ ۱۳۴۸ ھ کے جلسہ میں حضرت الشاہ حافظ
محمد یسین صاحب نگینوی نے قدم رنجہ فرما کر اس سیہ کار پر جس قدر شفقت و لطف کا
مینہ برسایا یہ ناکارہ اس کے تشکر سے بھی قاصر ہے ممدوح کے متعلق یہ معلوم ہو جانے
کے بعد کہ آپ حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلفاء میں سے ہیں پھر آپ کے اوصاف جلیلہ
یک سوئی تقدس مظہر انوار و برکات وغیرہ کے ذزکر کی صرورت نہیں رہتی جلسہ سے فراغت
کے بعد ممدوح جب مکان واپس تشریف لے گئے تو گرامی نامہ مکرمت نامہ عزت نامہ سے
مجھے اس کا حکم فرمایا کہ فضائل قرآن میں ایک چہل حدیث جمع کر کے اس کا ترجمہ خدمت
میں پیش کروں اور نیز یہ کہ اگر ممدوح کے حکم سے میں نے انحراف کیا تو وہ میرے
جانشین شیخ اور مثیل والد چچا جان مولانا الحافظ مولو ی محمد الیاس صاحب رحمۃ اﷲ
علیہ سے اپنے اس حکم کو مؤکد کرائیں گے اور بہرحال یہ خدمت ممدوج کو مجھ جیسے
ناکارہ ہی سے لینا ہے یہ افتخار نامہ اتفاقا ایسی حالت میں پہنچا کہ میں سفر میں
تھا اور میرے چچا جان یہاں تشریف فرما تھے انھوں نے میری واپسی پر یہ گرمی نامہ
اپنے تاکیدی حکم کے ساتھ میرے حوالے فرمایا کہ جس کے بعد نہ مجھے کسی معذرت کی
گنجائش رہی اور نہ اپنی عدم ایلیت کے پیش کرنے کا موقع رہا میرے لئے شرح موطاامام
مالک کی مشغولیت بھی ایک قوی عذر تھا مگر ارشادات عالیہ کی اہمیت کی وجہ سے اس کو چند
روز کے ملتوی کر کے ما حضر خدمات عالیہ میں پیش کرتا ہوں اور ان لغزشوں سے جن کا
وجود میری نا اہلیت کے لئے لازم ہے معافی کا خواستگار ہوں ۔
رَجَائَ الْحَشْرِفِیْ سِلْکِ مَنْ قَالَ
فِیْھِمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ حَفِظَ عَلٰی
اُمَّتِیْ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا فِیْ اَمْرِدِیْنِھَا بَعَثَہُ اللّٰہُ فَقِیْھًا
وَکُنْت لَہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ شَافِعًا وَّشَھِیْدًاقَالَ الْعَلْقَمِیُّ
اَلْحِفْظُ ضَبْط الشَّیْ وَمَنْعُہ مِنَ الضِّیَاعِ فَتَارَۃً یَکُوْنُ حِفْظُ الْعِلْمِ بِالْقَلْب وَاِن
لَّمْ یَکْتُبْ وَتَارَۃً فی الْکِتَابِ وَاِنْ لَّمْ یَحْفَظْہُ بِقَلْبِہٖ فَلَوْ حَفِظَ فِیْ کِتَابٍ ثُمَّ نَقَلَ اِلَی
االنَّاسِ دَخَلَ فِیْ وَعْدِ الْحَدِیْثِ وَقَالَ الْمُنَاوِیُّ قَوْلُہ‘ مَنْ حَفِظَ عَلٰی
اُمَّتِیْ اَیْ نَقَلَ اِلَیْھِمْ بِطَرِیْقِ التَّخْرِیْجِ وَالْاِسنَادِ
وَقِیْلَ مَعْنٰی حَفِظَھَا اَنْ یَنْقُلَھَا اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَاِنْ لَّمْ
یَحْفَظْھَا وَلَا عَرَفَ مَعْنَاھَاوَقَوْلُہ‘ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا صِحَاحًا
اَوْحِسَانَا قِیْلَ اَوْضِعْافًا یُعْمَلُ بِھَا فِی الْفَضَائِلِ اھ فَلِلَّہِ
دَرُّ الْاِسْلَامِ مَا اَیْسَرَہ‘ وَلِلّٰہِ دَرُّاَھْلِہٖ مَا اَجْوَدَ مَا
اسْتَنْبَطُوْا، رَزَقَنِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاِیَّاکُمْ کَمَالَ الْاِسْلَامِ
وَمِمَّالَابُدَّ مِنَ التَّنْبِیْہِ عَلَیْہِ اَنِّیْ اِعْتَمَدْتُّ فِی
التَّخْرِیْجِ عَلَی الْمِشْکٰوۃِ وَتَخْرِیْجِہٖ وَشَرْحِہِ الْمِرْقَاۃِ
وَشَرْحِ الْاِحْیَائِ لِلسَّیِّدِ مُحَمَّدِن الْمُرْتَضٰی وَالتَّرْغِیْبِ
لِلْمُنْذِرِیِّ وَمَا عَزَوْتُ اِلَیْھَا لِکَثْرَۃِ الْاَخْذ عَنْھَا وَمَا
اَخَذْتُ عَنْ غَیْرِھَاعَزَوْتُہ‘اِلٰی مَاْخَذِہ وَیَنْبَغِیْ لِلْقَارِیْ
مُرَاعَاتُ اٰدَابِ التِّلَاوَ ۃِ عِنْدَ الْقِرَائَ ۃِ ۔
اس جماعت کیساتھ حشر ہونے کے
امید میں جن کے بارے میں حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ جو شخص میری امت کیلئے ان کے دینی
امور میں چالیس حدیثیں محفوظ کرے گا حق تعالی شانہ اس کو قیامت میں عالم اٹھائے گا
اور میں اس کیلئے سفارشی اور گواہ بنوں گا علقمی کہتے ہیں کہ محفوظ کرنا شے کے
منضبط کرنے اور ضائع ہونے سے حفاظت کا نام ہے چاہے بغیر لکھے بر زبان یاد کر لے یا لکھ کر محفوظ کر لے اگرچہ
یاد نہ ہو پس اگر کوئی شخص کتاب میں لکھ کر دوسروں تک پہنچا دے وہ بھی حدیث کی
بشارت میں داخل ہو گا مناوی کہتے ہیں میری امت پر محفوظ کر لینے سے مراد ان کی طرف
نقل کرنا ہے سند کے حوالے کیساتھ اور بعض نے کہا ہے کہ مسلمانوں تک پہنچانا ہے
اگرچہ وہ برزبان یاد نہ ہوں نہ انکے معنی معلوم ہوں اسی طرح چالیس حدیثیں بھی عام
ہیں کہ سب صحیح ہوں یا حسن یا معمول درجہ کی ضعیف جن پر فضائل میں عمل جائز ہو اﷲ
اکبر اسلام میں بھی کیا کیا سہولتیں ہیں اور تعجب کی بات ہے کہ علماء نے بھی کس
قدر باریکیاں نکالی ہیں حق گ کمال اسلام مجھے بھی نصیب فرماویں اور تمہیں بھی اس
جگہ ایک ضروری امر پر متنبہ کرنا بھی لا بدی ہے وہ یہ کہ میں نے احادیث کا حوالہ
دینے میں مشکوۃ تنقیح الرواۃ مرقاۃ اور احیاء العلوم کی شرح اور منذری کی ترغیب پر
اعتما کیا ہے اور کثرت سے ان سے لیا ہے اسلئے انکے حوالہ کی ضرورت نہیں سمجھی۔
البتہ انکے علاوہ کہیں سے لیا ہے تو اسکا حوالہ نقل کر دیا نیزقاری کیلئے تلاوت کے
وقت اسکے آداب کی رعایت بھی ضروری ہے ۔مقصود سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کلام
مجید پڑھنے کے کچھ آداب بھی لکھ دئے جائیں کہ
بے ادب محروم گشت از فضل رب
مختصر طور پر آداب کا خلاصہ یہ
ہے کلام اﷲ شریف معبود کا کلام ہے محبوب و مطلوب کے فرمودہ الفاظ ہیں ۔
جن لوگوں کو محبت سے کچھ واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ معشوق کے خط کی
محبوب کی تقریر و تحریر کی کسی دل کھوئے ہوئے کے یہاں کیا وقعت ہوتی ہے اس کے ساتھ
جو شیفتگی و فریفتگی کا معاملہ ہوتا ہے اور ہونا جاہئے وہ قواعد و ضوابط سے
بالاتر ہے ۔ ع
محبت تجھ کو آداب محبت خود سکھا دے گی
اس وقت اگر جمال حقیقی اور
انعامات غیر متناہی کا تصور ہو تو محبت موجزن ہو گی اس کے ساھ ہی وہ احکم الحاکمین
کا کلام ہے سلطان السلاطین کا فرمان ہے اس سطوت و جبروت والے باشاہ کا قانون ہے کہ
جس کی ہمسری نہ کسی بڑے سے بڑے سے ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے جن لوگوں کو سلاطین کے
دربار سے کچھ واسطہ پڑ چکا ہے وہ تجربے سے اور جن کو سابقہ نہیں پڑا وہ اندازہ کر
سکتے ہیں کہ سلطانی فرمان کی ہیبت قلوب پر کیا ہو سکتی ہے کلام الٰہی محبوب و حاکم
کا کلام ہے اسلئے دونوں آداب کا مجموعہ اس کے ساتھ برتنا ضروری ہے ۔
حضرت عکرمہs جب کلام پاک پڑھنے کے لئے
کھولا کرتے تھے تو بے ہوش ہو کر گر جاتے تھے اور زبان پر جاری ہو جاتا تھا ھذا کلام ربی ھذا کلام ربی ( یہ میرے رب کا کلام ہے یہ میرے رب کا کلام ) یہ ان
آداب کا اجمال ہے اور ان تفصیلات کا اختصار ہے جو مشائخ نے آداب تلاوت میں لکھے
ہیں جب کی کسی قدر توضیح بھی ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جن کا خلاصہ صرف یہ
ہے کہ بندہ نوکر بن کر نہیں چاکر بن کر نہیں بلکہ بندہ بن کر آقا و مالک محسن و
منعم کا کلام پڑھے صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنے کو قرات کے آداب سے قاصر
سمجھتا رہے گا وہ قرب کے مراتب میں ترقی کرتا رہے گا اور جو اپنے کو رضا و عجب کی
نگہ سے دیکھے گا وہ ترقی سے دور ہو گا۔
آداب
مسواک اور وضو کے بعد کسی یک
سوئی کی جگہ میں نہایت وقار و تواضع کے ساتھ روبہ قبلہ بیٹھے اور نہایت ہی حضور
قلب اور خشوع کے ساتھ اس لطف سے جو اس وقت کے مناسب ہے اس طرح پڑھے کہ گویا خود حق
سبحانہ و عزاسمہ کو کلام پاک سنا رہا ہے اگر وہ معنی سمجھتا ہے تو تدبر و تفکر کے
ساتھ آیات وعدہ رحمت پر دعائے مغفرت و رحمت مانگے اور آیات عذاب و وعیدپر اﷲ سے
پناہ چاہے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں آیات تنزیہ و تقدیس پر سبحان اﷲ کہے
اور از خود تلاوت میں رونا نہ آوے تو بہ تکلف رونے کی سعی کرے۔
والذحالات الغرابم لمغرم
شکوی الھوی بالمدمع المھراق
ترجمہ: کسی عاشق کے لئے سب سے
زیادہ لذت کی حالت یہ ہے کہ محبوب سے اس کا گلہ ہو رہا ہو اس طرح کہ آنکھوں سے
بارش ہو ۔
پس اگر یاد کرنا مقصود نہ ہو تو
پڑھنے میں جلدی نہ کرے کلام پاک کو رحل یا تکیہ یا کسی اونچی جگہ پر رکھے تلاوت کے
درمیان میں کسی سے کلام نہ کرے اگر کوئی ضرورت پیش ہی آ جا وے تو کلام پاک بند کر
کے بات کرے اور پھر اس کے بعد اعوذ پڑھ کر دوبارہ شرو ع کرے اگر مجمع مین لوگ اپنے
اپنے کاروبار میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھنا افضل ہے ورنہ آواز سے پڑھنا اولے ہے
مشائخ نے تلاوت کے جھ آداب ظاہری اور چھ باطنی ارشاد فرمائے ہیں ۔
ظاہری آداب
اول غایت احترام سے با وضو روبہ
قبلہ بیٹھے دوم پڑھنے میں جلدی نہ کرے ترتیل و تجوید سے پڑھے سوم رونے کی سقی کرے
چاہے بہ تکلف ہی کیوں نہ ہو چہارم آیات رحمت و آیات عذاب کا حق ادا کرے جیسا کہ
پہلے گذر چکا پنجم اگر ریا کا احتمال ہو یا کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف و حرج کا
اندیشہ ہو تو آہستہ پڑھے ورنہ آواز سے ششم خوش الحانی سے پڑھے کہ خوش الحانی سے
کلام پاک پڑھنے کی بہت سی احادیث میں تاکید آئی ہے
باطنی آداب
اول کلام پاک کی عظمت دل میں
رکھے کہ کیسا عالی مرتبہ کلام ہے دوم حق سبحانہ و تقدس کی علو شان اور رفعت و
کبریائی کو دل مًن رکھے جس کا کلام ہے سوم دل کو وساوس و خطرات سے پاک رکھے چہارم
معانی کا تدبر کرے اور لذت کے ساتھ پڑھے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شب
تمام رات اس آیت کو پڑھ کر گذار دی۔
اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ
الْعَزِیْزُالْحَکِیْم (سورۃ مائدہ آیہ ۱۶۴(
اے اﷲ! اگر تو ان کو عذاب دے تو
یہ تیرے بندے ہیں اور اگر مغفرت فرمادے تو عزت و حکمت والا ہے
سعید بن جبیر ؒنے ایک رات اس آیت
کو پڑھ کر صبح کر دی۔وَامْتَازُوالْیَوْمَ
اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْن )سورۃ یٰس آیہ ۱۴(
او مجرمو! آج قیامت کے دن فرماں
بر داروں سے الگ ہو جاؤ۔
پنجم: جن آیات کی تلاوت کر رہا
ہے دل کو ان کے تابع بنا دے مثلا اگر آیت رحمت زبان پر ہے دل سرور محص بن جائے اور
آیت عذاب اگر آگئی ہے تو دل لرز جائے ششم کانوں کو اس درجہ متوجہ بنا دے کہ گویا
خود حق سبحانہ و تقدس کلام فرما رہے ہیں اور یہ سن رہا ہے حق تعالی شانہ محص اپنے
لطف و کرم سے مجھے بھی ان آداب کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمہیں بھی۔
مسئلہ: اتنے قرآن شریف کا حفظ
کرنا جس سے نماز ادا ہو جائے ہر شخص پر فرض ہے اور تمام کلام پاک کا حفظ کرنا فرص
کفایہ ہے اگر کوئی بھی العیذ باﷲ حافظ نہ رہے تو تمام مسلمان گناہ گار ہیں بلکہ
زرکشی سے ملا علی قاری نے نقل کیا ہے کہ جس شہر یا گاؤںمیں کوئی قرآن پاک پڑھنے
والا نہ ہو تو سب گناہ گار ہیں اس زمانہ ضلالت و جہالت میں جہاں ہم مسلمانوں میں
اور بہت سے دینی امور میں گمراہی پھیل رہی ہے وہاں ایک عام آواز یہ بھی ہے کہ قرآن
شریف کے حفظ کرنے کو فضول سمجھا جا رہا ہے اس کے الفاظ رٹنے کو حماقت بتلایا جاتا
ہے اس کے الفاظ یاد کرنے کو دماغ سوزی اور تضییع اوقات کہا جاتا ہے اگر ہماری بد
دینی کی یہی ایک وبا ہوتی تو اس پر کچھ تفصیل سے لکھا جاتا مگر یہاں ہر ادا مرض ہے
اور ہر خیال باطل ہی کی طرف کھینچتا ہے اس لیے کس کس چیز کو رویے اور کس کس کا شکوہ
کیجئے۔ فالی اﷲ المشتکی و اﷲ
المسستعان ۔
۱۔ عَنْ عُثْمَاؓنَ قَالَ
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُمْ مَّنْ
تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہ‘۔)رواہ البخاری وابوداؤدو الترمذی والنسائی وابن ماجۃ ھٰذافی
الترغیب وعزاہ الٰی مسلم ایضًالکن حکی الحافظ فی الفتح عن ابی العلائِ اَنَّ مسلمًا سکت عنہ)۔
حضرت عثمان سے حضور اقدس ﷺ کا
ارشاد منقول ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن شریف کو سیکھے اور سکھائے اکثر کتب میں یہ روایت واو کے
ساتھ ہے جس کا ترجمہ لکھا گیا ہے اس صورت میں فضیلت اس شخص کے لئے ہے جو کلام پاک
سیکھے اور اس کے بعد دوسروں کو سکھائے لیکن بعص کتب میں یہ روایت او کے ساتھ وارد ہوئی
ہے اس صورت میں بہتری اور فضیلت عام ہو گی کہ خود سیکھے یا دوسروں کو سکھائے دونوں
کے لئے مستقل خیر و بہتری ہے ۔
کلام پاک چونکہ اصل دین ہے اس کی
بقاء اشاعت پر ہی دین کا مدار ہے اس لیے اس کے سیکھنے اور سکھانے کا افضل ہونا
ظاہر ہے کسی توضیح کا محتاج نہیں البتہ اس کی انواع مختلف ہیں کمال اس کا یہ ہے کہ
مطالب و مقاصد سمیت سیکھے اور ادنی درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے نبی کریم
ﷺ کا دوسرا ارشاد حدیث مذکور کی تائید کرتا ہے جو سعید بن سلیم سے مرسلا منقول ہے
کہ جو شخص قرآن شریف کو حاصل کر لے اور پھر کسی دوسرے شخص کو جو کوئی اور چیز عطا
کیا گیا ہو اپنے سے افضل سمجھے تو اس سے حق تعالیٰ شانہ کے اس انعام کی جو اپنے
کلام پاک کی وجہ سے اس پر فرمایا ہے تحقیر کی ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کلام
الی سب کلاموں سے افضل ہے جیسا کہ مستقل احادیث میں انے والا ہے تو اس کا پڑھنا
پڑھانا یقینا سب چیزوں سے افضل ہونا ہی چاہئے ایک دوسری حدیث سے ملا علی قاری نے
نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کلام پاک کو حاصل کر لیا اس نے علوم نبوت کو اپنی پیشانی میں جمع کر لیا سہل تستری
فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے کلام پاک کی محبت
قلب میں ہو شرح احیاء میں ان لوگوں کی فہرست میں جو قیامت کے ہولناک دن میں عرش کے
سایہ کے نیچے رہیں گے ان لوگوں کو بھی شمار کیا ہے جو مسلمانوں کے بچوں کو قرآن
پاک کی تعلیم دیتے ہیں نیز ان لوگوں کو بھی شمار کیا ہے جو بچپن میں قرآن شریف
سیکھتے ہیں اور بڑے ہو کر اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں ۔
۲۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الرَّب
تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْاٰنُ عَنْ ذِکْرِیْ وَ مَسْئَلَتِیْ
اَعْطَیْتُہ‘ اَفْضَلَ مَا اُعْطِی السِّائِلِیْنَ وَفَضْلُ کَلَامِ اللّٰہِ عَلٰی
سَائِرِ الْکَلَامِ کَفَضْلِ اللّٰہِ عَلٰی خَلْقِہٖ (رواہ الترمذی والدرامی
والبیھقی فی الشعب(
ابو سعیدؓ سے حضور اکرم ﷺ کا
ارشاد منقول ہے کہ حق سبحانہ و تقدس کا یہ فرمان ہے کہ جس شخص کو قرآن شریف کی
مشغولی کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اسکو سب
دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اﷲ تعالی شانہ کے کلام کو سب کلاموں
پر ایسی فضیلت ہے جیسی کہ خود حق تعالیٰ شانہ کو تمام مخلوق پر۔
یعنی جس شخص کو قرآن پاک کے یاد
کرنے یا جاننے اور سمجھنے میں اس درجہ مشغولی ہے کہ کسی دوسری دعا وغیرہ کے مانگنے
کا وقت نہیں ملتا میں دعا مانگنے والوں کے مانگنے سے بھی افضل چیز اس کو عطا کروں گا
دنیا کا مشاہدہ ہے کہ جب کوئی شخص شیرینی وغیرہ تقسیم کر رہا ہو اور کوئی مٹھائی
لینے والا اس کے ہی کام میں مشغول ہو اور اس کی وجہ سے نہ آ سکتا ہو تو یقینااس کا
حصہ پہلے ہی نکلا لیا جاتا ہے ایک دوسری حدیث میں اسی موقہ پر مذکور ہے کہ میں اس
کو شکر گزار بندوں کے ثواب سے افضل ثواب عطا کروں گا ۔
۳۔ عَنْ عُقْبَۃَؓ بْنِ
عَامِرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَنَحْنُ
فِی الصُّفَّۃِ فَقَالَ اَیُّکُمْ یُحِبُّ اَنْ یَّغْدُوَکُلَّ یَوْمٍ اِلٰی
بُطْحَانَ اَوِالْعَقِیْقِ فَیَاْتِیْ بِنَاقَتَیْنِ کَوْمَا وَیْنِ فِیْ غَیْرِ
اِثْم وَلَا قَطِیْعَۃِ رَحِم فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ کُلُّنَا نُحِبُّ
ذَلِکَ قَالَ اَفَلَا یَغْدُو اَحَدُ کُمْ اِلَی الْمَسْجِدِ فَیُعَلِّمَ اَوْ
یَقْرَائَ اٰیَتَیْنِ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ خَیْرٌلَّہ‘ مِنْ نَّاقَتَیْنِ وَ
ثَلٰثٌ خَیْرٌلَّہٗ مِنْ ثَلٰثٍ وَاَربَعٌ خَیْرٌ لَّہُ مِنْ اَرْبَعٍ وَمِنْ
اَعْدَادِھِنَّ مِنَ الْاِ بِلِ ۔)راوہ مسلم وا بوداود(
عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے ہم لوگ صفہ میں بیٹھے تھے آپ نے فرمایا کہ تم
میں سے کون شخص اس کو پسند کرتا ہے کہ علی الصبح بازار بطحان یا عقیق میں جاوے
اوردو اونٹنیاں عمدہ سے عمدہ بلا کسی قسم کے گناہ اور قطع رحمی کے پکڑ لائے صحابہ
نے عرض کیا کہ اس کو تو ہم میں سے ہر شخص پسند کرے گا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ مسجد میں جا کر دو آیتون کا پڑھنا یا پڑھا دینا دو اونٹنیوں سے اور تین
آیات کا تین اونٹنیوں سے اسی طرح چار کا چار سے افضل ہے اور ان کے برابر اونٹوں سے
افضل ہے
صفہ :مسجد نبوی میں ایک خاص معین
چبوترہ کا نام ہے جو فقراء مہاجرین کی نشست گاہ تھی اصحاب صفہ کی تعداد مختلف
اوقات میں کم و بیش ہو تی رہتی تھی علامہ سیوطی نے ایک سو ایک نام گنوائے ہیں اور
مستقل رسالہ ان کے اسماے گرامی میں تصنیف کیا ہے بطحان اور عقیق مدینہ طیبہ کے پاس دو جگہ ہیں جہاں اونٹوں
کا بازار لگتا تھا عرب کے نزدیک اونٹ نہایت پسندہ چیز تھی بالخصوص وہ اونٹنی جس کا
کوہان فربہ ہو بغیر گناہ کا مطلب یہ ہے کہ بے محنت چیز اکثر یا جھین کر کسی سے لی
جاتی ہے یا یہ کہ میراث وعیرہ میں کسی رشتہ دار کے مال پر قبضہ کر لے یا کسی کا
مال چرا لے اس لئے حصور اکرمﷺ نے ان سب کی نفی فر ما دی کہ بالکل بلا مشقت اور
بدون کسی گناہ کے حاصل کر لینا جس قدر پسندیدہ ہے اس سے زیادہ بہتر و افضل ہے چند
آیات کا حاصل کر لینا اور یہ یقینی امر ہے کہ ایک دو اونٹ در کنار ہفت اقلیم کی سلطنت بھی اگر کسی
کو مل جاوے تو کیا آج نہیں تو کل موت اس سے جبراً جدا کر دے گی لیکن ایک آیت کا
اجر ہمیشہ کے لئے ساتھ رہنے والی چیز ہے دنیا ہی میں دیکھ لیجئے کہ آپ کسی شخص کو
ایک روپیہ عطا فر ما دیجئے اس کی اس کو مسرت ہو گی بمقابلہ اس کے کہ ایک ہزار
روپیہ اس کے حوالے کر دیں کہ اس کو اپنے پاس رکھ لے میں ابھی واپس آ کر لے لوں گا
کہ اس صورت میں بوجز اس پر بار امانت کے اور کوئی فائدہ اس کو حاصل نہیں ہو گا در
حقیقت اس حدیث شریف میں فانی و باقی کے تقابل پر تنبیہ بھی مقصود ہے کہ آدمی اپنی
حرکت و سکون پر غور کرے کہ کسی فانی چیز پر اس کو ضائع کر رہا ہوں یا باقی رہنے
والی چیز پر اور پھر حسرت ہے ان اوقات پر جو باقی رہنے والا وبال کماتے ہوں حدیث
کا اخیر جملہ اور ان کے برابر اونٹوں سے افصل ہے تین مطالب کا متحمل ہے اول یہ کہ چار کے عدد تک بالتفصیل
ارشاد فرمایا اور اس کے مافوق کو اجمالاً فرما دیا کہ جس قدر آیات کوئی شخص حاصل
کرے گا اس کے بقدر اونٹوں سے افضل ہے اس صورت میں اونٹون سے جنس مراد ہے خواہ اونٹ
ہوں یا اونٹنیاں اور بیان ہے چار سے زیادہ کا اس لئے کہ چار تک کا ذکر خود تصریحاً
مذکور ہو چکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں اعداد کا ذکر ہے جو پہلے مذکور ہو چکے اور
مطلب یہ ہے کہ رغبات مختلف ہوا کرتی ہیں کسی کو اونٹنی پسند ہے تو کوئی اونٹ کا
گرویدہ ہے اس لئے حضور نے اس لفظ سے یہ ارشاد فرما دیا کہ ہر آیت ایک اونٹنی سے
بھً افضل ہے اور اگر کوئی شخص اونٹ سے محبت رکھتا ہو تو ایک آیت ایک اونٹ سے بھی
افضل ہے تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ بیان انہیں اعداد کا ہے جو پہلے ذکر کئے گئے چار
سے زائد کا نہیں ہے مگر دوسرے مطلب میں جو تقریر گذری کہ ایک اونٹنی یا ایک اونٹ
سے افضل ہے یہ نہیں بلکہ مجموعہ مراد ہے کہ ایک آیت ایک اونٹ اور ایک اونٹنی دونوں
کے مجموعہ سے افضل ہے اسی طرح ہر آیت اپنے موفق عدد اونٹنی اور اونٹ دونوں کے
مجموعے سے افضل ہے تو گویا فی آیت کا مقابلہ ایک جوڑا سے میرے والد صاحب نور اﷲ
مرقدہ نے اسی مطلب کو پسند فرمایا ہے کہ اس میں فضیلت کی زیادتی ہے اگرچہ یہ مراد
نہیں کہ ایک آیت کا اجر ایک اونٹ یا دو اونٹ کا مقابلہ کر سکتا ہے یہ صرف تنبیہ
اور تمثیل ہے میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ایک یت جس کا ثواب دائمی اور ہمیشہ رہنے
والا ہے ہفت اقلیم کی بادشاہت سے جو فنا ہو جانے ولی ہے افضل اور بہتر ہے ۔
ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ ایک
بزرگ کے بعض تجارت پیشہ احباب نے ان سے درخواست کی کہ جہاز سے اترنے کے وقت حضرت
جدہ تشریف فرما ہوں تا کہ جناب کی برکت سے ہمارے مال میں نفع ہو اور مقصود یہ تھا
کہ تجارت کے منافع سے حضرت کے بعض خدام کو کچھ نفع حاصل ہو اول تو حضرت نے عذر
فرمایا مگر جب انھوں نے اصرار کیا تو حضرت نے دریافت فرمایا کہ تمہیں زائد سے زائد
جو نفع مال تجارت میں ہوتا ہے وہ کیا مقدار ہے انھوں نے عرض کیا کہ مختلف ہوتا ہے
زائد سے زائد ایک کے دو ہو جاتے ہیں حضرت نے فرمایا کہ اس قلیل نفع کے لئے اس قدر
مشقت اٹھاتے ہو اتنی سے بات کے لئے ہم حرم محترم کی نماز کیسے چھوڑ دیں جہاں ایک
کے لاکھ ملتے ہیں در حقیقت مسلمانوں کے غور کرنے کی جگہ ہے کہ وہ ذرا سے دنیوی
متاع کی خاطر کس قدر دینی منافع کو قربان کر دیتے ہیں ۔
۴۔ عَنْ عَاشَۃَ قَا لَتْ قَا لَ رَ سُوْلُ
اللّٰہِ ﷺ اَلَمُاھِرُ بِا
لْقُرْاٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ ا لْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ وَالَّذِیْ
یَقْرَأُ الْقُرُآنَ وَیِتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَھُوَ عَلَیْہِ شَاقّ’‘ لَہ‘
اَجْرَانِ۔ (راوہ البخاری و مسلم و بوداود والترمذی والنسا ئی وابن ما جۃ(
حضرت عائشہ نے حضور اقدس ﷺ کا یہ
ارشاد نقل کیا ہے کہ قرآن کا ماہر ان ملائکہ کے ساتھ ہے جو میر منشی ہیں اور نیک
کار ہیں اور جو شخص قرآن شریف کو اٹکتا ہوا پڑھتا ہے اور اس میں دقت اٹھاتا ہے اس
کو دوہرا اجر ہے ۔
قرآن شریف کا ماہر وہ کہلاتا ہے جس
کو یاد بھی خوب ہو اور پڑھتا بھی خوب ہو اور اگر معانی و مراد پر بھی قادر ہو تو
پھر کیا کہنا ملائکہ کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی قرآن شریف کے لوح محفوظ
سے نقل کرنے والے ہیں اور یہ بھی اس کا نقل کرنے والا اور پہنچانے والا ہے تو گویا
دونوں ایک ہی مسلک پر ہیں یا یہ کہ حشر میں ان کے ساتھ اجتماع ہو گا اٹکنے والے کو
دوہرا اجر ایک اس کی قرآئت کا دوسرا اس کی اس مشققت کا جو اس بار بار کے اٹکنے
کی وجہ سے برداشت کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اس ماہر سے بٹھ جا وے
ماہر کیلئے جو فضیلت ارشاد فرمائی گئی ہے وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے کہ مخصوص ملائکہ
کے ساتھ اس کا اجتماع فرمایا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کے اٹکنے کی وجہ سے اس
مشقت کا اجر مستقل ملے گا لہٰذا اس عذر کی وجہ سے کسی چھوڑنا نہیں چاہئے ملا علی
قاری نے طبرانی اور بیہقی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن شریف پڑھتا ہے
اور وہ یاد نہیں ہوتا تو اس کیلئے دوہرا اجر ہے اور جو اس کو یاد کرنے کی تمنا
کرتا رہے لیکن یاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مگروہ پڑھنا بھی ً نہیں چھوڑتا تو حق
تعالی شانہ اس کا حفاظ ہی کے ساتھ حشر فرمائیں گے ۔
۵۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا حَسَدَ اِلَّا عَلٓیٰ اثُنَیْنِ رَجُل’‘ اٰتَاہُٓ
اللّٰہُ الْقُرْاٰنَ فَھُوَ یَقُوْمُ بِہٖ اٰنَآئَ اللَّیْلِ وَ اٰنَآئَ
النَّھَارِ وَرَجُل’‘ اٰتاَہُ اللّٰہُ مَا لًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ اٰنَآَء ا
للَّیْلِ وَاٰنَآئَ النَّھَار (راوہ البخاری والترمذی والنسائی(
ابن عمرؓ سے حضور اقدس ﷺکا یہ
ارشاد منقول ہے کہ حسد دو شخصوں کے سوا کسی پر جائز نہیں ایک وہ جس کو حق تعالیٰ
شانہ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی اور وہ دن رات اس میں مشغول رہتا ہے دوسرے
وہ جس کو حق سبحانہ نے مال کی کثرت عطا فرمائی اور وہ دن رات اس کو خرچ کرتا ہے ۔
قرآن شریف کی آیات اور احادیث
کثیرہ کے عموم سے حسد کی برائی اور ناجائز ہونا مطلقاً معلوم ہوتا ہے اس حدیث شریف
سے دو آدمیوں کے بارے میں جواز معلوم ہوتا ہے چونکہ وہ روایات زیادہ مشہور و کثیر
ہیں اس لئے علماء نے اس حدیث کے دو مطلب ارشاد فرمائے ہیں اول یہ کہ حسد اس حدیث
شریف میں رشک کے معنی میں ہے جس کو عربی میں غبطہ کہتے ہیں حسد اور غبطہ میں یہ
فرق ہے کہ حسد میں کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ آرزو ہوتی ہے کہ اس کے پاس یہ
نعمت نہ رہے خواہ اپنے پاس حاصل ہو یا نہ اور رشک میں اپنے پاس اس کے حصول کی تمنا
و آرزو ہوتی ہے عام ہے کہ دوسرے سے زائل ہو یا نہ ہو چونکہ حسد بالاجماع حرام ہے
اس لئے علما ء نے اس لفظ حسد کو مجازاً غبطہ کے معنی میں ارشاد فرمایا ہے جو دنیوی
امور میں مباح ہے اور دینی امور میں مستحب دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ بسا اوقات
کلام علی سبیل الفرض و التقدیر مستعمل ہوتا ہے یعنی اگر حسد جائز ہوتا تو یہ دو
چیزیں ایسی تھیں کہ ان میں جائز ہوتا ۔
۶۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسیٰ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَثَلُ
المُوُمِنِ الَّذِیْ یَقْرَاُ اُلْقُرْاَنَ مَثَلُ الْاُ تْرُجَّۃ رِیْحُھَا
طَیِّبٌ وَّطَعْمُھَا طَیِّبٌ وَّمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِیٰ لَا
یَقْرأُالْقُرُاٰنَ مَثَلُ الْتَّمْرَۃِ لَا رِیْحَ لَھَا وَطَعْمُھَا حُلُوٌّ
وَمَّثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِیْ لَا یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ کَمَثَلِ
الْحَنْظَلَۃِ لَیْسَ لَھَا رِیْحٌ
وَّطَعْمُھَا مُرُّوَّمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِیْ یَقْرَأُالْقُرْاٰنَ مَثَل
الرَّیْحَانَۃِ رِیْحُھَا طَیِّبٌ وَّ طَعْمُھَا مُرٌّ۔ (رواہ البخاری و
مسلم والنسائی وابن ماج(
ابو موسیؓ نے حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد
نقل کیا ہے کہ جو مؤمن قرآن شریف پڑھتا ہے اس ما مثال ترنج کی سی ہے اس کی خوشبو
بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اس کی مثال
کھجور کی سی ہے کہ خوزبو کچھ نہیں مگر مزہ شیریں ہوتا ہے اور جو منافق قرآن شریف
نہیں پڑھتا اس کی مثال حنظل کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور
جو منافق قرآن شریف پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبودار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور
مزہ کڑوا۔
مقصود اس حدیث سے غیر محسوس شے
کو محسوس کے ساتھ تشبیہ دینا ہے تا کہ ذہن میں فرق کلام پاک کے پڑھنے اور نہ پڑھنے
میں سہولت سے آ جاوے ورنہ ظاہر ہے کہ کلام پاک کی حلاوت و مہک سے کیا نسبت ترنج و
کھجور کو اگرچہ ان اشیاء کے ساتھ تشبیہ میں خاص نکات بھی ہیں جو علوم نبویہ سے
تعلق رکھتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کے علوم کی وسعت کی طرف مشیر ہیں مثلاً ترنج ہی کو
لے لیجئے منہ میں خوشبو پیدا کرتا ہے معدہ کو صاف کرتا ہے ہضم میں قوت دیتا ہے
وغیرہ وغیرہ یہ منافع ایسے ہیں کہ قرآت قرآن شریف کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں
مثلاً منہ کا خوشبودار ہونا باطن کا صاف کرنا روحانیت میں قوت پیدا کرنا یہ منافع
تلاوت میں ہیں جو پہلے منافع کے ساتھ بہت ہی مشابہت رکھتے ہیں ایک خاص کا اثر ترنج
میں یہ بھی بتلایا جاتا ہے جس گھر میں ترنج ہو وہاں جن نہیں جاسکتا اگر یہ صحیح ہے
تو پھر کلام پاک کے ساتھ خاص مشابہت ہے بعض اطباء سے میں نے سنا ہے کہ ترنج سے
حافظہ بھی قوی ہوتا ہے اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے احیاء میں نقل کیا ہے کہ تین
چیزیں حافظہ کو بڑھاتی ہیں ۔
(1) مسواک اور (2) روزہ اور (3) تلاوت کلام اﷲ شریف
ابو داؤد کی روایت میں اس حدیث
کے ختم پر ایک اور مضمون نہایت ہی مفید ہے کہ بہترہم نشیں کی مثال مشک والے آدمی
کی سی ہے اگر تجھے مشک نہ مل سکا تو اس کی خوشبو تو کہیں گئی نہیں اور بدتر ہم
نشین کی مثال آگ کی بھٹی والے کی طرح سے ہے کہ اگر سیاہی نہ پہنچے تب بھی دھواں تو
کہیں گیا ہی نہیں نہایت ہی اہم بات ہے آدمی کو اپنے ہم نشینوں پر بھً نظر کرنا
چاہئے کہ کس قسم کے لوگوں میں ہر وقت نشست و برخاست ہے ۔
۷۔عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ
بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ (رواہ
مسلم (
حضرت عمرحضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل
کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ اس کتاب یعنی قرآن پاک کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو
بلند مرتبہ کرتا ہے اور کتنے ہی لوگوں کو پست و ذلیل کرتا ہے ۔
یعنی جو لوگ اس پر ایمان لاتے
ہیں عمل کرتے ہیں حق تعالی شانہ ان کو دنیا و آخرت میں رفعت و عزت عطا فرماتے ہیں
اور جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے حق سبحانہ و تقدس ان کو ذلیل کرتے ہیں کلام اﷲ
شریف کی آیات سیً بھی یہ مضمون ثابت ہوتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہٖ
کَثِیْرًا حق تعالیٰ شانہ اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ہدایت فرماتے ہیں اور
بہت سے لوگوبں کو کمراہ دوسری جگہ ارشاد ہے وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَشِفَآئٌ
وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَا رًا(
بنی اسرائیل ۔۹)حضور اکرمﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ
اس امت کے بہت سے منافق قاری ہوں گے بعض مشائخ سے احیاء میں نقل کیا ہے کہ بندہ
ایک سورت کلام پاک کی شروع کرتا ہے تو ملائکہ اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں
یہاں تک کہ وہ فارغ ہو اور دوسرا شخص ایک سورت شروع کرتا ہے تو ملائکہ اس کے ختم
تک اس پر لعنت کرتے ہیں بعض علماء سے منقول ہے کہ آدمی تلاوت کرتا ہے اور خود اپنے
اوپر لعنت کرتا ہے اور اس کو خبر بھی نہیں ہوتی قرآن شریف میں پڑھتا ہے اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الظَّالِمیْن( ہود
۔۲)اور خود ظالم ہونے کی وجہ سے اس
وعید میں داخل ہوتا ہے اسی طرح پڑھتا ہے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الْکٰذِبِیْن (سورہ آل
عمران۔(۶) اور خود جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس
کا مستحق ہوتا ہے ۔
عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ حضرت
عمر نے نافع بن عبدالحارث کو مکہ مکرمہ کا حاکم بنا رکھا تھا ان سے ایک دفعہ
دریافت فرمایا کہ جنگلات کا ناظم کس کو مقرر کر رکھا ہے انھوں نے عرض کیا کہ ابن
ابزٰی ؓکو حضرت عمر نے پوچھا کہ ابن ابزٰی کون شخص ہے انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا
ایک غلام حضرت عمر نے اعتراضاً فرمایا کہ غلام کو امیر کیوں بنا دیا انہوں نے کہا
کہ کتاب اﷲ کا پڑھنے والا ہے حضرت عمر ؓنے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا
ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شانہ اس کلام کی بدولت بہت سے لوگوں کے رفع درجات فرماتے
ہیں اور بہت سوں کو پست کرتے ہیں۔
۸۔عَنْ عَبْدِ الرّحَمْنٰؓ
بْنِ عَوْفٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ ثَلٰثُ تَحْتَ
الْعَرْشِ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ اَلْقُرْاٰنُ یُحَاُّج الْعِبَادَلَہٗ
ظَھْرٌوَّبَطْنٌ وَّالْاَمَانَۃُ وَالرَّحِم ُ تُنَادِیْ اَلَا مَنْ وَّصَلَنِیْ
وَصَلَہُ اللَّہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللَّہُ (رواہ فی شرح السنۃ)
عبدالرحمن بن عوف حضور اقدس ﷺ سے
نقل کرتے ہیں کہ تین چیزیں قیامت کے دن عرش کے نیچے ہوں گی ایک کلام پاک کہ جھگڑے
گا بندوں سے قرآن پاک کیلئے ظاہر ہے اور باطن دوسری چیز امانت ہے اور تیسری رشتہ
داری جو پکارے گی کہ جس شخص نے مجھ کو جوڑا اﷲ اسکو اپنی رحمت سے ملاوے اور جس نے مجھ کو
توڑا اﷲ اپنی رحمت سے اسکو جدا کرے۔
ان چیزوں کے عرش کے نیچے ہونے سے
مقصود ان کا کمال قرب ہے یعنی حق سبحانہ و تقدس کے عالی دربار میں بہت ہی قریب ہوں
گی کلام اﷲ شریف کے جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کی رعایت کی اس کا حق
ادا کیا اس پر عمل کیا ان کی طرف سے دربار حق سبحانہ میں جھگڑے گا اور شفاعت کرے
گا ان کے درجے بلند کرائے گا ملا علی قاری نے بروایت ترمذی نقل کیا ہے کہ قرآن
شریف بارگاہ الی میں عرص کرے گا کہ اس کو جوڑا مرحمت فرمائیں تو حق تعالی شانہ
کرامت کا تاج مرحمت فرماویں گے پھر وہ زیادتی کی درخواست کرے گا تو حق تعالیٰ شانہ
اکرام کا پورا جوڑا مرحمت فرماویں گے پھر وہ درخواست کرے گا کہ یا اﷲ آپ اس شخص سے
راضی ہو جائیں تو حق سبحانہ و تقدس اس سے رضا کا اظہار فرماویں گے اور جب کہ دنیا
میں محبوب کی رضا سے بڑھ کر کوئی بھی بڑی سے بڑی نعمت نہیں ہوتی تو آخرت میں محبوب
کی رصا کا مقابلہ کون سے نعمت کر سکتی ہے اور جن لوگوں نے اس کی حق تلفی کی ہے ان
سے اس بارے مطالبہ کرے گا کہ میری کیا رعایت کی میرا کیا حق ادا کیا شرح احیاء میں
امام صاحب سے نقل کیا ہے کہ سا میں دو مرتبہ ختم کرنا قرآن شریف کا حق ہے اب وہ
حضرات جو کبھی بھول کر بھی تلاوت نہیں کرتے ذرا غور فرمالیں کہ اس قوی مقابل کے
سامنے کیا جواب دہی کریں گے موت بہر حال آنے والی چیز ہے اس سے کسی طرح مفر نہیں
قرآن شریف کے ظاہر اور باطن ہونے کا مطلب ظاہر یہ ہے کہ ایک ظاہری معنی ہیں
جن کو ہر شخص سمجھتا ہے اور ایک باطنی معنی ہیں جن کو ہر شخص نہیں سمجھتا جس کی
طرف حضور اقدس ﷺ نے اس ارشاد نے اشارہ کیا ہے جو شخص قرآن پاک میں اپنی رائے سے
کچھ کہے اگر وہ صحیح بھی ہو تب بھی اس شخص نے خطا کی بعض مشائخ نے ظاہر سے مراد اس
کے الفاظ فرمائے ہیں کہ جن کی تلاوت میں ہر شخص برابر ہے اور باطن سے مراد اس کے
معنی اور مطالب ہیں جو حسب استعداد مختلف ہوتے ہیں ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اگر
علم چاہتے ہو تو قرآن پاک کے معانی میں غورو فکر کرو کہ اس میں اورلین و آخرین کا
علم ہے مگر کلام پاک کے معنی کے لئے جو شرائط و آداب ہیں ان کی رعایت ضروری ہے یہ
نہیں کہ ہمارے زمانے کی طرح سے جو شخص عربی کے چند الفاظ کے معنی جان لے بلکہ اس
سے بھی بڑھ کر بغیر کسی لفظ کے معنی جانے اردو ترجمے دیکھ کر اپنی رائے کو اس میں
داخل کر دے اہل فن نے تفسیر کے لیے پندرہ علوم پر مہارت ضروری بتلائی ہے وقتی
ضرورت کی وجہ سے مختصراً عرص کرتا ہوں جس سے معلوم ہو جاوے گا کہ بطن کلام پاک تک
رسائی ہر شخص کو نہیں ہو سکتی اول لغت جس سے کلام پاک کے مفر الفاظ کے معنی معلوم
ہو جاویں مجاہد کہتے ہیں کہ جو شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو
جائز نہیں کہ بدوں معرفت لغات عرب کے کلام پاک میں کجھ لب کشائی کرے اور چند لعات
کا معلوم ہوجانا کافی نہیں اس لیے کہ بسا اوقات لفظ چند معانی میں مشترک ہوتا ہے
اور وہ ان میں سے ایک دو معنی جانتا ہے اور فی الواقع اس جگہ کوئی اور معنی مراد
ہوتے ہیں دوسری نحو کا جاننا صروری ہے اس لئے کہ اعراب کے تعیر و تبدل سے معنی
بالکل بدل جاتے ہیں اور اعراب کی معرفت نحو پر موقوف ہے تیسرے صرف کا جاننا ضروری
ہے اس لئے کہ بنا اور صیغوں کے اختلاف سے معانی بالکل مختلف ہو جاتے ہیں ابن فارس
کہتے ہیں کہ جس شخص سے کلم صرف فوت ہو گیا اس سے بہت خچھ فوت ہو گیا علامہ زمخشری
اعجوبات تفسیر مین نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کلام پاک کی آیت یوم ندعوا کل اناس بامامھم ترجمہ: ( جس دن کہ پکاریں گے ہم
ہر شخص کو اس کے مقتدا اور پیش رو کے ساٹھ ) اس کی تفسیر صرف کی ناواقفیت کی وجہ
سے یہ کی کہ جس دن پکاریں گے ہر شخص کو ان کی ماؤں کے ساٹھ امام کا لفظ جو مفرد
تھا اس کو ام کی جمع سمجھ گیا اگر وہ صرف سے واقف ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ ام کی
جمع امام نہیں جوتھے اشتقاق کا جاننا ضروری ہے اس لئے کہ لفظ جب کہ دو مادوں سے
مشتق ہو تو اس کے معنی مختلف ہو ں گے جیسا کہ مسیح کا لفظ ہے کہ اس کا اشتقاق مسح
سے بھی ہے جس کے معنی چھونے اور تر ہاتھ کسی چیز پر پھیرنے کے ہیں اور مساحت سے
بھی ہے جس کے معنی پیمائش کے ہیں پانچویں علم معانی کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام
کی ترکیبیں معنی کے اعتبار سے معلوم ہوتی چھٹے علم بیان کا جاننا ضروری ہے جس سے
کلام کا ظہور و خفا تشبیہ و کنایہ معلوم ہوتا ہے ساتویں علم بدیع جس سے کلام کی
خوبیاں تعبیر کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہیں یہ تینوں فن علم بلاغت کہلاتے ہیں مفسر
کے اہم علوم میں سے ہیں اس لیے کہ کلام پاک جو سراسر اعجاز ہے اس سے اس کا اعجاز معلوم
ہوتا ہے اٹھویں علم قرائت کا جاننا بھی ضروری ہے اس لیے کہ مختلف قرائتوں کی وجہ
سے مختلف معنی معلوم ہوتے ہیں بعض معنی کی دوسرے معنی پر ترجیح معلوم ہو جاتی ہے
نویں علم عقائد کا جاننا بھی ضروری ہے اس لئے کہ کلام پاک میں بعض ایات ایسی بھی
ہیں جن کے ظاہری معنی کا اطلاق حق سبحانہ و تقدس پر صحیح نہیں اس لئے ان میں کسی
تاویل کی ضرورت پڑے گی جیسے کہ ید اﷲ فوق ایدیھم دسویں اصول فقہ کا معلوم ہونا
ضروری ہے کہ جس سے وجوہ استدلال و استنباط معلوم ہو سکیں گیارھوین اسباب نزول کا
معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ شان نزول سے آیت کے معنی زیادہ وصح ہوں گے اور بسا
اوقات اصل معنی کا معلوم ہونا بھی شان نزول پر موقوف ہوتا ہے بارہویں ناسخ و منسوخ
کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے تا کہ منسوخ شدہ احکام ’’معمول بہا‘‘ سے ممتاز ہو سکیں
تیرھویں علم فقہ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ جزئیات کے احاطہ سے کلیات پہچانے
جاتے ہیں چودھویں ان حادیث کا جاننا ضروری ہے جو قرآن پاک کی مجمل آیات کی تفسیر
واقع ہوئی ہیں ۔
ان سب کے بعد پندرھواں وہ علم
وہبی ہے جو حق سبحانہ و تقدس کا عطیہ خاص ہے اپنے مخصوص بندوں کو عطا فرماتا ہے جس
کی طرف اس حدیث شریف میں اشارہ ہے من عمل بما علم ورث اﷲ علم مال یعلم ( جب کہ بندہ اس چیز پر عمل کرتا
ہے جس کو جانتا ہے تو حق تعالی شانہ ایسی چیزوں کا علم عطا فرماتے ہیں جن کو وہ
نہیں جانتا ) ۔
اسی کی طرف حضرت علی کرم اﷲ وجہ
نے اشارہ فرمایا جب کہ ان سے لوگوں نے پوچھا کہ حضور اکرم ﷺ نے آپ کو کچھ خاص علوم
عطا فرمائے ہیں یا خاص وصایا جو عام لوگوں کے علاوہ آپ کے ساتھ مخصوص ہیں انہوں نے
فرمایا کہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے جنت بنائی اور جان پیدا کی اس فہم کے علاوہ
کچھ نہیں ہے جس کو اﷲ تعالیٰ شانہ نے اپنے کلام پاک کے سمجھنے کے لئے کسی کو عطا
فرمادیں ابن ابی الدنیا کا مقولہ ہے کہ علوم قرآن اور جو اس سے حاصل ہو وہ ایسا
سمندر ہے کہ جس کا کنارہ نہیں یہ علوم جو بیان کئے گئے مفسر کے لیء بطور آلہ کے
ہیں اگر کوئی شخص ان علوم کی واقفیت بغیر تفسیر کرے تو وہ تفسیر بالرائے میں داخل
ہے جس کی ممانعت آئی ہے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کے لئے علوم عربیہ طبعاً حاصل تھے
اور بقیہ علوم مشکوۃ نبوت سے مستفاد تھے۔ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ شاید تجھے یہ
خیال ہو کہ علم وہبی کا حاصل کرنا بندہ کی قدرت سے باہر ہے لیکن حقیقت ایسی نہیں
بلکہ اس کے حاصل کرنے کا طریقہ ان اسباب کا حاصل کرنا ہے جس پر حق تعالی شانہ اس
کو مرتب فرماتے ہیں مثلاً علم پر عمل اور دنیا سے بے رغبتی وغیرہ وغیرہ۔
کیمیائے سعادت میں لکھا ہے کہ
قرآن شریف کی تفسیر تین شخصوں پر ظاہر نہیں ہوتی اول وہ جو علوم عربیہ سے واقف نہ
ہو دوسرے وہ شخص جو کسی کبیرہ پر مصر ہو یا بدعتی ہو کہ اس گناہ اور بدعت کی وجہ
سے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے معرفت قرآن سے قاصر رہتا ہے تیسرے وہ
شخص کہ کسی اعتقادی مسئلہ میں ظاہر کا قائل ہو اور کلام اﷲ کی جو عبارت اس کے خلاف
ہواس طبیعت اچٹتی ہو اس شخص کو بھی فہم قرآن سے حصہ نہیں ۔ اللھم احفظنا منھم۔
۹۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ
بْنِ عَمْرٍؓ وقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْاٰنِ اِقْرَأ وَارْتَقِ
وَرَتِّلْ کَمَاکُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَافَاِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَاَخِرِ
اٰیَۃٍ تَقْرَأُھَا (رواہ احمد والترمذی وابوداود و النسائی واابن ماجۃ وابن حبان
فی صحیحہ)
عبداﷲ بن عمرو نے حضور اقدس ﷺ کا
ارشاد نقل کیا ہے ( کہ قیامت کے دن ) صاحب قرآن سے کہا جاوے گا کہ قرآن شریف پڑھتا
جا اور بہشت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر
ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا بس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے۔
صاحب القرآن سے بظاہر حافظ مراد
ہے اور ملا علی قاری نے بڑی تفصیل سے اس کو واضح کیا ہے کہ یہ فضیلت حافظ ہی کے
لئے ہے ناظرہ خواں اس میں داخل نہیں اول اس وجہ سے کہ صاحب قرآن کا لفظ بھی اسی
طرف مشیر ہے دوسرے اس وجہ سے کہ مسند احمد کی روایت میں ہے حَتّٰی یَقْرَأَ شَیْئًا مَّعَہ ( یہاں تک کہ پڑھے جو کچھ قرآن
شریف اس کے ساتھ ہے ) یہ لفظ اس امر میں زیادہ ظاہر ہے کہ اس سے حافظ مراد ہے
اگرچہ محتمل وہ ناظرہ خواں بھی ہے جو کہ قرآن شریف بہت کثرت کے ساتھ پڑھتا ہو
مرقاۃ میں لکھا ہے وہ پڑھنے والا مراد نہیں جس کو قرآن لعنت کرتا ہوں یہ اس حدیث
کی طرف اشارہ ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ وہ قرآن کو پڑھتے ہیں اور
قرآن ان کو لعنت کرتا ہے اس لئے اگر کسی شخص کے عقائد وغیرہ درست نہ ہوں تو قرآن
شریف کے پڑرھنے سے اس کی مقبولیت پر استدلال نہیں ہوسکتا خوارج کے بارے میں بکثرت
اس قسم کی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔
ترتیل کے متعلق شاہ عبدالعزیز
صاحب نور اﷲ مرقدہ نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ ترتیل لعت میں صاحف اور
واضح طور سے پڑھنے کو کہتے ہیں اور شرع شریف میں کئی چیز کی رعایت کے ساتھ تلاوت
کرنے کو کہتے ہیں اول حرفوں کو صحیح نکالنا یعنی اپنے مخرج سے پڑھنا ا کہ طا ؔکی
جگہ تا اؔور ضاد ؔکی جگہ ظا نہؔ نکلے دوسرے وقوف کی جگہ پر اھی طرح سے ٹھہرنا تا
کہ وصل اور قطع کلام کا بے محل نہ ہو جاوے تیقرے حرکتوں میں اشباع کرنا یعنی زیر
زبر پیش کو اھی طرح سے ظاہر کرنا چوٹھے آواز کوتھوڑا سے بلند کرنا تا کہ کلام پاک
کے الفاظ زبان سے نکل کر کانوں تک پہنچیں اور وہاں سے دل پر اثر کریں پانچویں آواز
کو ایسی طرح سے درست کرنا کہ اس میں درد پیدا ہوجاوے اور دل پر جلدی اثر کرے کہ
درد والی آواز دل پر جلدی اثر کرتی ہے اور اس سے روح کو قوت اور تاثر زیادہ ہوتا
ہے اسی وجہ سے اطبا نے کہا ہے کہ جس دوا کا اثر دل پر پہنچانا ہو اس کو خوشبو میں
ملا کر دیا جاء کہ دل اس کو جلدی کھینچتا ہے اور جس دوا کا اثر جگر میں پہنچانا ہو
اس کو شیرینی میں ملایا جائے کہ جگر مٹھائی کا جاذب ہے اسی وجہ سے بندہ کے نزدیک اگر تلاوت کے وقت خوشبو
کا خاص استعمال کیا جاوے تو دل پر تاثیر میں زیادہ تقویت ہو گی چھٹے تشدید اور مد
اچھی طرح ظاہر کیا جاوے کہ اس کے اظہار سے کلام پاک میں عظمت ظاہر ہوتی ہے اور
تاثیر میں اعانت ہوتی ہے ساتوین آیات رحمت و عذاب کا حق ادا کرے جیسا کہ تمہید میں
گذر چکا یہ سات چیزیں ہیں جن کی رعایت ترتیل کہلاتی ہے اور مقصود ان سب سے صرف ایک
ہے یعنی کلام پاک کا فہم و تدبر حضرت ام المؤمنین ام سلمہ سے کسی نے پوچھا کہ حضور
کلام اﷲ شریف کس طرح پڑھتے تھے انھوں نے کہا کہ سب حرکتوں کو بڑھاتے تھے یعنی زیر
زبر وغیرہ کو پورا نکالتے تھے اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتا تھا ترتیل سے
تلاوت مستحب ہے اگرچہ معنی نہ سمجھتا ہو۔
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں ترتیل
سے القارعۃ اور اذا زلزلت پڑھوں یہ بہتر ہے اس سے کہ بلاترتیل سورہ بقرۃ اور آل عمران
پڑھوں ۔
شراح اور مشائخ کے نزدیک حدیث
بالا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک کی ایک ایک آیت پڑھتا جا اور ایک ایک درجہ اوپر
چڑھتا جا اسلئے کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے درجات کلام اﷲ شریف کی آیات
کے برابر ہیں لہٰذا جو شخص جتنی آیات کا ماہر ہو گا اتنے ہی درجہ اوپر اسکا ٹھکانہ
ہو گا اور جو شخص تمام کلام پاک کا ماہر ہوگا وہ سب سے اوپر کے درجے میں ہو گا ۔
ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حدیث
میں وارد ہے کہ قرآن پڑھنے والے سے اوپر کوئی درجہ نہیں پس قراء آیات کی بقدر ترقی
کریں گے اور علامہ دانی سے اہل فن کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ قرآن شریف کی آیات
چھ ہزار (۶۰۰) ہیں لیکن اس کے بعد کی مقدار میں
( یعنی تعداد میں ) اختلاف ہے اور اتنے اقوال نقل کئے ہیں۔۲۰۴۔ ۱۴۔ ۱۹۔ ۲۵۔ ۳۶۔
شرح احیاء میں لکھا ہے کہ ہر آیت
ایک درجہ ہے جنت میں پس قاری سے کہا جاوے گا کہ جنت کے درجات پر اپنی تلاوت کے
بقدر چڑھتے جاؤ جو شخص قرآن پاک تمام پورا کرلے گا وہ جنت کے اعلی درجے پر پہنچے
گا اور جو شخص کچھ حصہ پڑھا ہوا ہو گا وہ اس کی بقدر درجات پر پہنچے گا بالجملہ
منتہائے ترقی منتہائے قرات ہو گی بندہ کے نزدیک حدیث بال کا مطلب کچھ اور معلوم
ہوتا ہے فَاِنْ کَانَ صَوَاباً فَمِنَ اللّٰہِ وَاِنْ کَانَ خَطَأً
فَمِنِّیْ وَمِنَ الَّشیْطَانِ وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْہُ بَرٓیْا ناگر درست ہو تو حق تعالی شانہ
کی اعانت سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اپنی تقصیر سے ہے اﷲ اور رسول اس سے بری
ہیں ۔
حاصل اس مطلب کا یہ ہے کہ حدیث
بالا سے درجات کی وہ ترقی مراد نہیں جو آیات کے لحاظ سے فی آیت ایک درجہ ہے اس لئے
کہ اس ترقی میں ترتیل سے پڑھنے نہ پڑھنے کو بظاہر کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا
جب ایک آیت پڑھی جائے ایک درجہ کی ترقی ہو گی عام ہے کہ ترتیل سے ہو یا بلا ترتیل
بلکہ اس حدیث میں بظاہر دوسری ترقی باعتبار کیفیت مراد ہے جس میں ترتیل سے پڑھنے
نہ پڑھنے کو دخل ہے لہٰذا جس ترتیل سے دنیا میں پڑھتا تھا اسی ترتیل سے آخرت میں
پڑھ سکے گا اور اس کے موافق درجات میں ترقی ہوتی رہے گی ملا علی قاری نے ایک حدیث
سے نقل کیا ہے کہ اگر دنیا میں بکثرت تلاوت کرتا رہا تب تو اس وقت بھی یاد ہو گا
ورنہ بھول جائے گا اﷲ جل شانہ اپنا فضل فرماویں کہ ہم میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن
کو والدیں نے دینی شوق میں یاد کرا دیا تھا مگر وہ اپنی لاپرواہی اور بے توجہی سے
دنی ہی میں ضائع کر دیتے ہیں اور اس کے بالمقابل بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جو
شخص قرآن پاک یاد کرتا ہوا اور اس میں محنت و مشقت برداشت کرتا ہوا مرجائے وہ حفاظ
کی جماعت میں شمار ہو گا حق تعالیٰ کے یہاںعطا میں کوئی کمی نہیں کوئی لینے والا
ہو۔
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
۱۰۔ عَنِ ابْنِ
مَسْعُوْدٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ منْ قَرَأَ حَرْفاً مِّن کِتَابِ اﷲِ فَلَہٗ بِہٖ
حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشَرِاَ مْثَا لِھَا لَااَقُوْلُ اَلٓمّٓحَرْفٌ ولکن
الِفٌ حَرْفٌ ولامٌ حرفٌ وَّمِیْمٌ حَرْفٌ۔ (رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح
غریب اسناد او الدارمی)
ابن مسعود نے حضور اقدس ﷺ کا
ارشاد نقل کیا ہے جو شخص ایک حرف کتاب اﷲ کا پڑھے اس کیلئے اس حرف کے عوض ایک نیکی
ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ سارا الم
ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف میم ایک حرف۔
مقصود یہ ہے کہ جیسے اور جملہ
اعمال میں پورا عمل ایک شمار کیا جاتا ہے کلام پاک میں ایسے نہیں بلکہ اجزاء عمل
بھی پورے عمل شمار کئے جاتے ہیں اور اس لئے تلاوت کلام پاک میں ہر ہر حرف ایک ایک
نیکی شمار کی جاتی ہے اور ہر نیکی پر حق تعالی شانہ کی طرف سےمَنْ جَآئَ بِا لْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ
اَمْثَا لِھَا( سورہ انعام۱۰) ( جو شخص ایک نیکی لاوے اس کو دس
نیکی کے بقدر اجر ملتا ہے ) دس حصہ اجر کا وعدہ ہے اور یہ اقل درجہ ہے وَاﷲُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآئ (سورہ مقرہ:۳۶) ( حق تعالیٰ شانہ جس کے لئے چاہتے
ہیں اجر زیادہ فرما دیتے ہیں ) ہر حرف کو مستقل نیکی شمار کرنے کی مثال حضور نے
ارشاد فرمادی کہ الم پورا ایک حرف شمار نہیں ہو گا بلکہ الف لام میم علیحدہ علیحدہ
حرف شمار کیء جائیں گے اور اس طرح پر الم کے مجموعہ پر تیس نیکیاں ہو گئیں اس میں
اختلاف ہے کہ الم سے سورہ بقرہ کا شروع مراد ہے یا اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَ صْحَابِ
الْفِیْل مراد ہے اگر سورہ بقرہ کا شروع مراد ہے تو بظاہر مطلب یہ ہے کہ لکھے
ہوئے حروف کا اعتبار ہے اور لکھنے میں چونکہ وہ بھی تین ہی حروف لکھے جاتے ہیں اس
لئے تیس نیکیاں ہوئیں اور اگر اس سے سورہ فیل کا شروع مراد ہے تو پھرسورہ بقرہ کے
شروع میں جو الم ہے وہ نو حروف ہیں اس لئے اس کا اجر نوے نیکیاں ہو گئیں بیہقی کی
روایت میں ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ بسم اﷲ ایک حرف ہے بلکہ ب س م یعنی علیحدہ
علیحدہ حروف مراد ہیں ۔
۱۱۔ عَنْ مُعَاذٍؓ
الْجُھَنِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ قَرَأ الْقُرْاٰنَ
وَعَمِلَ بِمَا فِیْہِ اُلْبِسَ وَالِدَاہُ تَاجًا یَّوْمَ الْقیَامَۃِ ضَوْئُہٗ
اَحْسَنُ مِنْ ضَوْئِ الشَّمْسِ فِیْ بُیُوْتِ الدُّنْیَا لَوْکَانَتْ
فِیْکُم،فَمَا ظَنُّکُمْ بِالَّذِیْ عَمِلَ بِھٰذَا (رواہ احمد وابوداؤدوصححہ
الحاکم)
معا ذ جہنیؓ نے حضور اکرم ﷺ کا یہ
ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اسکے والدین کو قیامت کے
دن ایک تاج پہنایا جاوے گا جسکی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی اگر وہ
آفتاب تمہارے گھروں میں ہو پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخص کے متعلق جو خود عامل ہے
۔
یعنی قرآن پاک کے پڑھنے اور اس
پر عمل کرنے کی برکت یہ ہے کہ اس پڑھنے والے کے والدیں کو ایسا تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب کی
روشنی سے بہت زیادہ ہو اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو یعنی آفتاب
اتنی دور سے اس قدر روشنی پھیلاتا ہے اگر وہ گھر کے اندر آ جائے تو یقینا بہت
زیادہ روشنی اور چمک کا سبب ہو گا تو پڑھنے والے کے والدیں کو جو تاج پہنایا جاوے
گا اس کی روشنی اس روشنی سے زیادہ ہو گی جس کو گھر میں طلوع ہونے والا آفتاب پھیلا
رہا ہے اور جب کہ والدین کے لئے یہ ذخیرہ ہے تو خود پڑھنے والے کے اجر کا خود
اندازہ کر لیا جاوے کہ کس قدر ہو گا کہ جب اس کے طفیلیوں کا یہ حال ہے تو خود اصل
کا حال بدرجہا زیادہ ہو گا کہ والدین کو یہ اجر صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ وہ اس کے
وجود یا تعلیم کا سبب ہو ئے ہیں آفتاب کے تھر میں ہونے سے جو تشبیہہ دی گئی ہے اس
میں علاوہ ازیں کہ قرب میں روشنی زیادہ محسوس ہوتی ہے ایک اور لطیف امر کی طرف بھی
اشارہ ہے وہ یہ کہ جو چیز ہر وقت پاس رہتی ہے اس سے انس و الفت زیادہ ہوتی ہے اس
لئے آفتاب کی دوری کی وجہ سے جو اس سے بیگانگی ہے وہ ہر وقت کے قرب کی وجہ سے مبدل
یہ انس ہو جاوے گی تو اس صورت میں روشنی کے علاوہ اس کے ساتھ موانست کی طرف بھی
اشارہ ہے اور اس طرف بھی کہ وہ اپنی ہو گی کہ آفتاب سے اگرجہ ہر شخص نفع اٹھاتا ہے
لیکن اگر وہ کسی کو ہبہ کر دیا جائے تو اس کے لئے کس قدر افتخار کی چیز ہو۔
حاکم نے بریدہ ؓسے حضور اقدس ﷺ
کا ارشاد نقل کیا ہے جو شخص قرآن شریف پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کو ایک تاج
پہنایا جائے گا جو نور سے بنا ہوا ہو گا اور اس کے والدین کو ایسے دو جورے پہنائے
جاویں گے کہ تمام دنیا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ عرص کریں گے کہ یا اﷲ یہ جوڑے
کس صلہ میں ہیں تو ارشاد ہو گا کہ تمہارے بچے کے قرآن شریف پڑھنے کے عوض میں ۔
جمع الفوائد میں طبرانی سے نقل
کیا ہے کہ حضرت انس ؓنے حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنے بیٹے
کو ناظرہ قرآن شریف سکھلاوے اس کے سب اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جو
شخص حفظ کرائے اس کو قیامت میں چودھویں رات کے چاند کے مشابہ اٹھایا جاوے گا اور
اس کے بیٹے سے کہا جاوے گا کہ پڑھنا شروع کر جب بیٹا ایک آیت پڑھے گا باپ کا ایک
درجہ بلند کیا جاوے گا حتیٰ کہ اسی طرح تمام قرآن شریف پورا ہو۔
بچے کے قرآن شریف پڑھنے پر باپ
کے لئے یہ فضائل ہیں اور اسی پر بس نہیں دوسری بات بھی سن لیجے کہ اگر خدانخواستہ
آپ نے اپنے بچے کو چار پیسے کے لالج میں دین سے محروم رکھا تو یہ ہی نہیں کہ آپ اس
لا یزال ثواب سے محروم رہیں گے بلکہ اﷲ کے یہاں آپ کو جواب دہی بھی کرنی پڑء گی آپ
اس ڈر سے کہ یہ مولوی و حافظ پڑھنے کے بعدصرف مسجد کے ملانیاور ٹکڑے کے محتاج بن
جاتے ہیں اس وجہ سے آپ اپنے لاڈلے بچے کو اس سے بچاتے ہیں یاد رکھیں کہ اس سے آپ
اس کو تو دائمی مصیبت میں گرفتار کر ہی رہے ہیں مگر ساٹھ ہی اپنے اوپر بھی بڑی سخت
جواب دہی لے رہے ہیں حدیث کا ارشاد ہے ’’کلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّ
عِیَّتِہٖ‘‘ (الحدیث)) ہر شخص سے اس کے
ماتحتوں اور دست نگروں کا بھی سوال ہو گا کہ ان کو کس قدر دین سکھلایا ۔ہاں یہ
ضرور ہے کہ ان عیوب سے آپ بچنے اور بچانے کی کوشش کیجئے مگر جوؤں کے ڈر سے کپڑا نہ
پہننا کوئی عقل کی بات نہیں البتہ اس کے صاف رکھنے کی ضرور کوشش چاہیے بالجملہ اگر
آپ اپنے بچے کو دینداری کی صلاحیت سکھلائیں گے اپنی جواب دہی سے سبک دوش ہوں گے
اور اس وقت تک وہ زندہ رہے جس قدر نیک اعمال رکے گا دعا و استغفار اپ کے لیے کرے
گا آپ کے لے رفع درجات کا سبب بنے گا لیکن دنیا کی خاطر چار پیسے کے لالج سے آپ نے
اس کو دین سے بے بہرہ رکھا تو یہی نہیں کہ خود آپ کو اپنی حرکت کا وبال بھگتنا پڑے
گا جس قدر بد اطواریاں فسق و فجور اس سے سرزد ہوں گے آپ کے نامئہ اعمال بھی اس
ذخیرہ سے خالی نہ رہیں گے خدارا اپنے حال پر رحم کھائیں دنیا بہر حال گذر جانے
والی چیز ہیاور موت ہر بڑی سے بڑی تکلیف کا خاتمہ ہے لیکن جس تکلیف کے بعد موت بھی
نہیں اس کوئی منتہا نہیں ۔
۱۲۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ
عَامِرٍص قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ لَو جُعِلَ الْقُرْاٰنُ
فِی اِھَابٍ ثُمَّ اُلْقِیَ
فِی النَّارِ مَا احْتَرَقَ (رواہ الدارمی)
عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ میں
حضور اقدسﷺ کو یہ فرماتے ہوء سنا کہ اگر رکھ دیا جائے قرآن شریف کو کسی چمڑے میں
پھر وہ آگ میں ڈال دیا جاوے تو نہ جلے۔
مشائخ حدیث اس روایت کے مطلب میں
دو طرف گئے ہیں بعض کے نزدیک چمڑے سے عام مراد ہے جس جانور کا ہو اور آگ سے دنیوی
آگ مراد ہے اس صورت میں یہ مخصوص معجزہ ہے جو حضور اقدس ﷺ کے زمانے کے ساٹھ خاص
تھا جیسا کہ اور انبیاء کے مغجزے ان کے زمانے کے ساٹھ خاص ہوئے ہیں دوسرے مطلب یہ ہے کہ
چمڑے سے مراد آدمی کا چمڑا ہے اور آگ سے جہنم اس صورت میں یہ حکم عام ہو گا کسی
زمانے کے ساٹھ مخصوص نہ ہو گا یعنی جو زخص کہ حافظ قرآن ہو اگر وہ کسی جرم میں
جہنم میں ڈالا بھی جاوے گا تو آگ اس پر اثر نہ کرے گی ایک روایت میں ما مستہ النار
کا لفظ بھی آیا یعنی آگ اس کو چھونے کی بھی نہیں ابو امامہ کی روایت جس کو شرح
السنۃ میں ملا علی قاری نے نقل کیا ہے اس دوسرے معنی کی تائید کرتی ہے جس کا ترجمہ
یہ ہے کہ قرآن شریف کو حفظ کیا کرو اس لئے کہ حق تعالی شانہ اس قلب کو عذاب نہیں
فرماتے جس میں کلام پاک محفوط ہو یہ حدیث اپنے مضمون میں صاف اور نص ہے جو لوگ حفظ
قرآن شریف کو فضول بتلاتے ہیں وہ خدارا ذرا ان فضائل پر بھی غور کریں کہ یہی ایک
فضیلت ایسی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص کو حفظ قرآن پر جان دے دینا چاہیے اس لیے کون
شخص ایسا ہو گا جس نے گناہ نہ کئے ہوں جس کی وجہ سے آگ کا مستحق نہ ہو ۔
شرح احیاء میں ان لوگوں کی فہرست
مین جو قیامت کے ہولناک اور وحشت اثر دن میں اﷲ کے عرش کے سائے کے نیجے رہیں گے
حضرت علیؓ کی حدیث سے بروایت دیلمی نقل کیا ہے کہ حاملین قرآن یعنی حفظ اﷲ کے سائے
کے نیچے انبیاء اور برگزیدہ لوگوں کے ساتھ ہوں گے ۔
۱۳۔ عَنْ عَلِیٍّؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ
فَا سْتَظْھَرَہُ فَأَحَلَّ حَلَالَہٗ وَحَرَّم حَرَامَہٗٓ اَدْخَلَہُ اللَّہُ
الْجَنَّۃَ وَ شَفَّعَہٗ فِیْ عَشَرَۃٍ مِّن اَھْلِ بَیْتِہٖ کُلِھِمْ قَدْ
وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ (رواہ احمد والترمذی وقال ھذا حدیث غریب و حفص بن سلیمان
الراوی لیس ھو بالقوی یضعف فی الحدیث ورواہ ابن ماجۃالداری)
حضرت علی نے حضور اقدس ﷺ ارشاد
نقل کیا ہے کہ جس شخص نے قرآن پڑھا پھر اس کو حفظ یاد کیا اور اس کے حلال کو خلال
جانا اور حرام کو حرام حق تعالیٰ شانہ اس کو جنت میں داخل فرماویں گے اور اس کے
گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرماویں گے جن کے لئے
جہنم واجب ہو چکی ہو۔
دخول جنت ویسے تو ہر مومن کے لیے
انشاء اﷲ ہے ہی اگرچہ بداعمالیوں کی سزا بھگت کر ہی کیوں نہ ہو لیکن حفاظ کے لئے
یہ فضیلت ابتداء دخول کے اعتبار سے ہے وہ دس شخص جن کے بارے شفاعت قبول فرمائی گئی
وہ فسق و فجار ہیں جو مرتکب کبائر کے ہیں اس لئے کہ کفار کے بارے میں تو شفاعت ہے
ہی نہیں حق تعالی شانہ کا ارشاد ہے اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ
اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ
اَنْصَار(سورہ مائدہ ۱۰) ( مشرکین پر اﷲ نے جنت کو حرام کر
دیا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالمین کا کوئی مدد گار نہیں ) دوسری جگہ ارشاد
ہے مَاکَانَ لِلِنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اَمَنُوْا اَنْ
یَّسْتَغِفُرْوالِلْمُشْرِکِیْنَ (سورہ توبہ۱۴۰) ( نبیت اور مسمانوں کیلئے اس کی
گنجائش نہیں کہ وہ مشرکین کے استغفار کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں) وغیرہ وغیرہ
نصوص اس مضمون میں صاف ہیں کہ مشرکین کی مغفرت نہیں ہے اس لئے حفاظ کی شافعت سے ان
مسلمانوں کی شفاعت مراد ہے جن کے معاصی کی وجہ سے ان کا جہنم میں داخل ہونا ضروری
بن گیا تھا جو لوگ جہنم سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ
حافظ نہیں اور خود حفظ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے کسی قریبی رشتر ہی کو حافظ
بنا دیں کہ اس کے طفیل یہ بھی اپنی بد اعمالیوں کی سزا سے محفوط رہ سکیں اﷲ کا کس
قدر انعام ہے اس شخص پر جس کے باپ چچا تائے دادا نانا ماموں سب ہی حافظ ہیں اَللّٰھُمَّ زِدْفَزِد۔
۱۴۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ
ۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعَلَّمُوا
الْقُرْاٰنَ فَاقْرَأُوْہُ فَاِنَّ مَثَلَ الْقُرْاٰنِ لِمَنْ تَعَلَّمَ فَقَرأَ
وَقَامَ بِہٖ کَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُو مِسْکًا تَفُوْحُ رِیْحُہٗ کُلَّ مَکَانِ
وَّمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَہٗ فَرَقَدَ وَھُوَ فِیْ جَوْفِہٖ کَمَثَلِ جِرَاب
اُوْکِیَ عَلٰی مِسْکٍ(رواہ الترمذی والنسا ئی وابن ماجۃ وابن حبان)
ابو ہریرہ نے حضور اکرم ﷺ کا
ارشاد نقل کیا ہے کہ قرآن شریف کو سیکھو پھر اسکو پڑھو اسلئے کہ جو شخص قرآن شریف
سیکھتا ہے اور پڑھتا ہیاور تہجد میں اس کو پڑھتا رہتا ہے اس کی مثال اس تھیلی کی
سی ہے جو مشک سے بھری ہوئی ہو کہ اسکی خوشبو تمام مکان میں پھیلتی ہے اور جس شخص
نے سیکھا اور پھر سوگیا اس مثال اس مشک کی تھیلی کی ہے جسکا منہ بند کر دیا گیا ہو
۔
یعنی جس شخص نے قرآن پاک پڑھا
اور اس کی خبر گیری کی راتوں کو نماز میں تلاوت کی اس می مثال اس مشک دان کی سی ہے
کہ جو کھلا ہوا ہو کہ اس کی خوشبو سے تمام مکان مہکتا ہے اسی طرح اس حافظ کی تلاوت
سے تمام مکان انوار و برکات سے معمور رہتا ہے اور اگر وہ حافظ سو جاوے یا غفلت کی
وجہ سے نہ پڑھ سکے تب بھی اس کے قلب میں جو کلام پاک ہے وہ تو بہرحال مشک ہی ہے اس
غفلت سے اتنا نقصان ہوا کہ دوسرے لوگ اس کی برکات سے محروم رہے لیکن اس کا قلب تو
بہرحال اس مشک کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔
۱۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺاِنَّ الَّذِیْ لَیْسَ
فِیْ جَوْفِہٖ شَئْیٌ مِّنَ الْقُرْاٰنِ کَا لْبَیْتِ الْخَرِبِ (رواہ الترمذی
وقال ھذاحدیث صحیح ورواہ الدارمی والحاکم و صححہ)
عبداﷲ بن عباسؓ نے نبی کریم ﷺ کا
یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص کے قلب میں قرآن شریف کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں
وہ بمنزلہ ویران گھر کے ہے ۔
ویران گھر کے ساٹھ تشبیہہ دینے
میں ایک خاص لطیفہ بھی ہے وہ یہ کہ خانہ خالی رادیو مے گیرد اسی طرح جو قلب کلام
پاک سے خالی ہوتا ہے شیاطین کا اس پر تسلط زیادہ ہوتا ہے اس حدیث میں حفظ کی کس
قدر تاکید فرمائی ہے کہ اس دل کو ویران گھر ارشاد ہوا ہے جس میں کلام پاک محفوظ
نہیں ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں کلام مجید پڑھا جاتا ہے اس کے اہل و عیال
کثیر ہو جاتے ہیں اس میں خیر و برکت بڑہ جاتی ہے ملائکہ اس میں نازل ہوتے ہیں اور
شیاطین اس گھر سے نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت نہیں ہوتی اس میں تنگی اور بے
برکتیہوتی ہے ملائکہ اس گھر سے چلے جاتے ہیں شیاطین اس میں گھس جاتے ہیں ابن مسعود
سے منقول ہے اور ب۳عض لوگ حضور ﷺ سے نقل کرتے ہیں
کہ خالی گھر وہی ہے جس میں تلاوت قرآن شریف نہ ہوتی ہو ۔
۱۶۔ عَنْ عَا ئِشَۃَ اَنَّ
النَّبِیَّ ﷺقَالَ قِرَائَ ۃُ
الْقُرْاٰنِ فِی الصَّلٰوۃِ اَفْضَلُ مِنْ قِرَائَ ۃِ الْقُرْاٰنِ فِیْ
غَیْرِالصَّلٰوۃِ وَقِرَائَ ۃُ االْقُرْاٰنِ فِی غَیْرِ الصَّلٰوۃِ اَفْضَلُ مَنَ
التَّسْبِیْحِ وَ التَّکُبِیْرِ وَ التَّسْبِیْحُ اَفْضَلُ مِنَ الصَّدَ قَۃِ
وَالصَّدَ قَۃُ اَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّوْمُ جُنَّۃٌ مِّنَ النَّارِ (رواہ االبیھقی فی شعب
الایمان)
حضرت عائشہ نے حضور اقدس ﷺ کا یہ
ارشاد نقل کیا ہے کہ نماز میں قرآن شریف کا تلاوت بغیر نماز کی تلاوت سے افضل ہے
اور بغیر نماز کی تلاوت تسبیح و تکبیر سے افضل ہے اور تسبیح صدقہ سے افضل ہے اور
صدقہ روزہ سے افضل ہے اور روزہ بچاؤ ہے آگ سے ۔
تلاوت کا اذکار سے افضل ہونا
ظاہر ہے اس لئے کہ یہ کلام الٰہی ہے اور پہلے معلوم ہو چکا کہ اﷲ تعالی کے کلام کو
اوروں کے کلام پر وہی فضیلت ہے جو اﷲ تعالی کو فضیلت ہے مخلوق پر ذکر اﷲ کا افضل
ہونا صدقہ سے اور روایات میں بھی وارد ہے اور صدقہ کا روزہ سے افصل ہونا جیسا کہ
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے دوسری بعض روایات کے خلاف ہے جن سے روزہ کی فصیلت معلوم
ہوتی ہے لیکن یہ احوال کے اعتبار سے مختلف ہے بعض حالتوں میں روزہ افضل ہے اور بعض
میں صدقہ اسی طرح لوگوں کے اعتبار سے بھی مختلف ہے بعض لوگوں کے لئے روزہ افضل ہے
اور جب کہ روزہ آگ سے بچاؤ ہے جس کا درجہ اس روایت میں سب سے اخیر میں ہے تو پھر
تلاوت کلام اﷲ کا کیا کہنا جو سب سے اول ہے صاحب احیاء نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے
نقل کیا ہے کہ جس شخص نے نماز میں کھڑے ہو کر کلام پاک پڑھا اس کو ہر حرف پر سو
نیکیاں ملیں گی اور جس شخص نے نماز میں بیٹھ کر پڑھا اس کے لئے پچاس نیکیاں اور جس
نے بغیر نماز کے وضو کے ساٹھ پڑھا اس کے لء پچیس نیکیاں اور جس نے بلا وضو پڑھا اس
کے لئے دس نیکیاں اور جو شخص پڑھے نہیں بلکہ صرف پڑھنے والے کی طرف کان لگا کر سنے
اس کے لئے بھً ہر حرف کے بدلے ایک نیکی۔
۱۷۔ عَنْ اَبِیْ
ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ اَیُحِبُّ اَحَدُ کُمْ اِذَا رَجَعَ اِلٰٓی اَھْلِہٖ
اَنْ یَّجِدَفِیْہِ ثَلَثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ قُلْنَا
نَعَمْ قَالَ فَثَلاَثَ اٰیَاتٍ یَّقْرَأُ بِھِنَّ اَحَدُکُمْ فَیْ
صَلٰوتِہٖ خَیْرٌلَہ‘ مِنْ ثَلاَثِخَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ۔ (رواہ مسلم)
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس
ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ جب گھر واپس آئے تو تین اونٹنیاں
حاملہ بڑی اور موٹی اس کو مل جاویں ہم نے عرض کیا کہ بے شک ( ضرور پسند کرتے ہیں )
حضور نے فرمایا کہ تین آیتیں جن کو تم میں سے کوئی نماز میں پڑھ لے وہ تین حاملہ
بڑیاور موٹی اونٹنیوں سے افضل ہیں ۔
اس سے ملتا جلتا مضمون حدیث نمبر ۳ میں گذر چکا ہے اس حدیث شریف میں
چونکہ نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے اور وہ بغیر نماز کے پڑھنے سے افضل ہے
اسلئے تشبیہہ حاملہ اونٹنیوں سے دی گئی اسلئے کہ وہاں بھی دو عبادتیں ہیں نماز اور
تلاوت ایسے ہی یہاں بھی دو چیزیں ہیں اونٹنی اور اس کا حمل میں حدیث نمبر ۳ کے فائدے میں لکھ چکا ہوں کہ اس
قسم کی احادیث سے صرف تشبیہہ مراد ہوتی ہے ورنہ ایک آیت کا باقی اجر ہزار فانی
اونٹنیوں سے افضل ہے ۔
۱۸۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ
عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ اَوْسِ الثَقْفِیِّ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قِرَائَٓ ۃُ الرَّجُلِ
الْقُرْاٰنَ فِیْ غَیْرِالْمُصْحَفِ اَلْفُ َدرَجَۃٍ وَ قِرَائَٓ تُہ‘ فِی
الْمُصْحَفِ تَضَعَّفُ عَلٰی ذَالِکَ اِلٰی اَلْفَیْ دَرَجَۃٍ(رواہ البیھقی فی شعب الا یمان)
اوس ثقفی ؓنے حضور اقدس ﷺ سے نقل
کیا ہے کہ کلام اﷲ شریف کا حفظ پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور قرآن پاک میں
دیکھ کر پڑھنا دو ہزار تک بڑھ جاتا ہے ۔
حافظ قرآن کے متعددفضائل پہلے
گذر چکے ہیں اس حدیث شریف میں جو دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ
قرآن پاک کے دیکھ کر پڑھنے میں تد بر اور فکر کے زیادہ ہونے کے علاوہ وہ کئی
عبادتوں کو متضمن ہے قرآن پاک کو دیکھنا اس کو چھونا وغیرہ وغیرہ اس وجہ سے یہ
افضل ہوا چونکہ روایات کا مفہوم مختلف ہے اسی وجہ سے علماء نے اس میں اکتلاف
فرمایا ہے کہ کلام پاک کا حفظ پڑھنا افضل ہے یا دیکھ کر ایک جماعت کی رائے ہے کہ
حدیث بالا کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اس میں غلط پڑھنے سے امن رہتا ہے قرآن پاک
پر نظر رہتی ہے قرآن شریف کو دیکھ کر پڑھنا افضل ہے دوسری جماعت دوسری روایت کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ حفط
پڑھنا زیادتی خشوع کا سبب ہوتا ہے ریا سے دور ہوتا ہے اور نیز نبی کریم ﷺ کی عادت
شریفہ حفظ پڑھنے کی حفظ کو ترجیح دیتی ہے امام تووی نے اس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ
فضیلت آدمیوں کے لحاظ سے مختلف ہے بعض کے لیے دیکھ کر پڑھنا افضل ہے جس کواس میں
تدبر و تفکر زیادہ حاصل ہوتا ہو جس کو حفظ میں تدبر زیادہ حاصل ہوتا ہو اس کے لئے
حفظ پڑھنا افضل ہے۔
حافظ نے بھی فتح الباری میں اسی
تفصیل کو پسند کیا ہے کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان کے پاس کثرت تلاوت کی وجہ سے دو
کلام مجید پھٹے تھے عمرو بن میمن نے شرح احاء میں نقل کیا ہے کہ جو شخص صبح کی
نماز پڑھ کر قرآن مجید کھولے اور بقدر سو آیت کے پڑھ لے تمام دنیا کی بقدر اس کا
ثواب لکھا جاتا ہے قرآن شریف کا دیکھ کر پڑھنا نگاہ کے لئے مفید بتلایا جاتا ہے
ابو عبید نے حدیث مسلسل نقل کی ہے جس میں ہر راوی نے کہا ہے کہ مجھے آنکھوں کی
شکایت تھی تو اسراد نے قرآن شریف دیکھ کر پڑھنے کو بتلایا حضرت امام شافعی صاحب
بسا اوقات عشاء کے بعد قرآن شریف کھولتے تھے اور صبح کی نماز کے وقت بند کرتے تھے۔
۱۹۔ عَنِ ابْنِ عُمَرؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ
تَصْدَأُکَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُاِذَآ اَصَا بَہُ ا لْمَائُ قِیْلَ یَا
رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا جِلَآ ئُھَا قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَ
تِلَاوَۃُا لْقُرْاٰنِ (رواہ البیہقی فی شعب ا لا
یمان)
عبداﷲ بن عمر نے حضور اکرم ﷺ سے
نقل کیا ہے کہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگتا
ہے پوچھا گیا کہ حضور ان کی صفائی کی کیا صورت ہے آپ نے فرمایا کہ موت
کو اکثر یاد کرنا اور قرن پاک کی تلاوت کرنا ۔
یعنی گناہوں کی کثرت اور اﷲ جل
شانہ کی یاد سے غفلت کی وجہ سے دلوں پر بھً زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو پانی
لگ جانے زنگ لگ جاتا ہے اور کلام پاک کی تلاوت اور موگ کی یاد ان کے لئے صیقل کا
کام دیتا ہے دل کی مثال ایک آئینہ کی سی ہے جس قدر وہ دھندلا ہو گا معرفت کا
انعکاس اس میں کم ہو گا اور جس قدر صاف اور شفاف ہو گا اسی قدر اس میں معرفت کا
انعکاس واصح ہوگا اسی لئے آدمی جس قدر معاصی شہوانیہ یا شیطانیہ میں مبتلا ہو گا اسی
قدر معرفت سے دور ہو گا اور اسی آئینہ کے صاف کرنے کیلئے مشائخ سلوک ریاضات و
مجاہدات اذکار و اشغال تلقین فرماتے ہیں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جب بندہ گناہ
کرتاہے تو ایک سیاہ نقطہ اس کے قلب میں پڑ جاتا ہے اگر وہ سچی توبہ کر لیتا ہے تو
وہ نقطہ زائل ہو جاتا ہے اور اگر دوسرا گناہ کر لیتا ہے تو دوسرا نقطہ پیدا ہو جاتا
ہے اسی طرح سے اگر گناہوں میں بڑھتا رہتا ہے تو شدہ شدہ ان نقطوں کی کثرت سے دل
بالکل سیاہ ہو جاتا ہے پھر اس قلب میں خیر کی رغبت ہی نہیں رہتی بلکہ شر ہی کی طرف
مائل ہوتا ہے اللّٰھُمَّ اْحْفِظْنَا مِنْہُ
اسی کی طرف قرآن پاک کی اس آیت
میں اشارہ ہے کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُواْ یَکْسِبُوْنْ
(سورہ تطفیف) ( بے شک ان کے قلوب پر زنگ جما دیا ان کی بد اعمالیوں نے) ایک حدیث
میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو واعظ چھوڑتا ہوں ایک بولنے والا
دوسرا خاموش بولنے والا قرآن شریف ہے اور کاش موت کی یاد حضور کا ارشاد سر آنکھوں
پر مگر واعظ تو اس کے لئے ہو جو نصیحت قبول کرے نصیحت کی ضرورت سمجھے جہاں سرے سے
دین ہی بیکار ہو ترقی کی راہ میں مانع ہو وہاں نصیحت کی ضرورت کسے اور نصیحت کرے
گی کیا حسن بصری کہتے ہیں کہ پہلے لوگ قرآن شریف کو اﷲ کا فرمان سمجھتے تھے رات
بھر اس میں عور و تدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ اس کے
حروف اور زبر و زیر تو بہت درست کرتے ہو مگر اس کو فرمان شاہی نہیں سمجھتے اس میں
غوروتدبر نہیں کرتے ۔
۲۰۔ عَنْ عَا ئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ اِنَّ لِکُلِّ شَیْئِ شَرَفاًیَتَبَاھَوْنَ بِہٖ وَ اِنّ بَھَائَ
اُمَّتِیْ وَ شَرَ فَھَا الْقُرْاٰنُ ( رواہ فی الحلیۃ)
حضرت عائشہ حضور اقدس ﷺ کا یہ
ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ہر چیز کیلئے کوئی شرافت و افتخار ہوا کرتا ہے جس سے وہ
تفاخر کیا کرتا ہے میری امت کی رونق اور افتخار قرآن شریف ہے ۔
یعنی لوگ اپنے آباو اجداد سے
خاندان سے اور اسی طرح بہت سی چیزروں سے اپنی شرافت و بڑائی ظاہر کیا کرتے ہیں
میری امت کے لئے ذریعہ افتخار کلام اﷲ شریف سے کہ اس کے پڑھنے سے اس کے باد
کرنے سے اس کے پڑھانے سے اس پر عمل کرنے سے غرض اس کی ہر چیز قابل افتخار ہے اور
کیوں نہ ہو کہ محبوب کا کلام ہےآقا کا فرمان ہے دنیا کا کوئی بڑے سے بڑاشرف بھی اس
کے برابر نہیں ہو سکتا نیز دنیا کے جس قدر کمالات ہیں وہ آج نہیں تو کل زائل ہونے
والے ہیں لیکن کلام پاک کا شرف و کمال دائمی ہے کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے قرآن
شریف کے چھوٹے چھوٹے اوصاف بھی ایسے ہیں کہ افتخار کے لئے ان میں کا ہر ایک کافی
ہے چہ جائیکہ اس میں وہ سب اوصاف کام طور پر پایے جاتے ہیں مثلا اس کی حسن تالیف
حسن سیاق الفاظ کا تناسب کلام کا ارتباط گذشتہ اور آئندہ واقعات کی اطلاع لوگوں کے
متعلق ایسے طعن کہ وہ اگر اس کی تکزیب بھی کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں جیسے کہ یہود کا باوجود ادعائے
محبت کے موت کی تمنا نہ کر سکنا نیز سننے والے کا اس سے متاثر ہونا پڑھنے والے کا
کبھی نہ اکتانا حالانہ ہر کلام خواہ وہ کتنا ہی دل کو پیارا معلوم ہوتا ہو مجنون
بنا دینے والے محبوب کا خط ہی کیوں نہ ہو دن میں دس دفعہ پڑھنے سے دل نہ اکتائے تو
بیس دفعہ سے اکتا جائے گا بیس سے نہ سہی چالیس سے اکتاوے کا بہر حال اکتاوے گا پھر
اکتاوے گا مگر کلام پاک کا رکوع یاد کیجئے دو سو مرتبہ پڑھئے چار سو مرتبہ پڑھئے
عمر بھر پڑھتے رہئے کبھی نہ اکتاوے گا اگر کوئی عارص پیش آ جاوے تو وہ خود عارضی
ہو گا اور جلد زائل ہو جانے والا جتنی کثرت کیجئے اتنی ہی طراوت اور لذت میں اضافہ
ہو گا وغیرہ وغیرہ یہ امور ایسے ایں کہ اگر کسی کے کلام میں ان میں سے ایک بھی
پایا جاوے خواہ پورے طور سے نہ ہو تو اس پر کتنا افتخار کیا جاتا ہے پھر جب کہ کسی
کلام میں یہ سب کے سب امور علی وجہ الکمال پائے جاتے ہوں تو اس سے کتنا افتخار ہو
گا اس کے بعد ایک لمحہ ہمیں اپنی حالت پر بھی غور کرنا ہے ہم میں سے کتنے لوگ ہیں
جن کو اپنے حافظ قرآن ہونے پر فخر ہے یا ہماری نگاہ میں کسی کا حافظ
قرآن ہونا باعث شرف ہے ہماری شرافت ہمارا افتخار اونچی اونچی ڈگریوں سے بڑے
بڑیالقب سے دنیوی جاہ و جلال اور مرنے کے بعد چھوٹ جانے والے مال و متاع سے ہے فَاِلَی اللّٰہِ ا لْمُشْتَکٰی۔
۲۱۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّؓ قَا لَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ
اللّٰہِ اَوْصِنِیْ قَالَ عَلَیْکَ بِتَقْو یَ اللّٰہِ فَاِ نَّہ‘ رَأْسُ الْاَ
مْرِ کُلِّہٖ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ زِدْنِیْ قَالَ عَلَیْکَ بِتَلَاوَ ۃِ
الْقُرْاٰنِ فَاِ نَّہ‘ نُوْرٌ لَّکَ فِی الْاَ رْ ضِ وَ ذُخَرٌ
لَّکَ فِی السَّمَائِ( رواہ ابن حبا ن فی صحیحہ فی حد یث طویل)
ابو ذر ؓکہتے ہیں کہ میں نے حضور
ﷺسے درخواست کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں حضور نے فرمایا تقوی کا اہتمام کرو کہ
تمام امور کی جڑ ہے میں نے عرض کیا کہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی ارشاد فرماویں تو
حضور نے فرمایا کہ تلاوت قرآن کا اہتمام کرو کہ دنیا میں یہ نور ہے اور آخرت میں
ذخیرہ۔
تقوی حقیقتاً تمام امور کی جڑ ہے
جس دل میں اﷲ کا ڈر پیدا ہو جاوے اس سے پھر کوئی بھی ً معصیت نہیں ہوتی اور نہ پھر
اس کو کسی قسم کی تنگی پیش آتی ہے ۔وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ‘ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ( جو شخص تقوی حاصل کرے تو حق
تعالیٰ شانہ اس کے لئے ہر ضیق میں کوئی راستہ نکال دیتے ہیں اور اس طرح اس کو روزی
پہنچاتے ہیں جس کا اس کو گمان بھی نہیں ہوتا ۔
تلاوت کا نور ہونا پہلی روایات
سے بھی معلوم ہوچکا شرح احاء میں معرتہ ابو نعیم سے نقل کیا ہے کہ حضرت باسط نے
حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد زکر کیا کہ جن گھروں میں کلام پاک کی تلاوت کی جاتی ہے وہ
مکانات آسمان والوں کے لئے ایسے چمکتے ہیں جیسا کہ زمیں والوں کے لئے آسمان پر
ستارے یہ حدیث ترغیب وغیرہ میں اتنی ہی نقل کی گئی یہ مختصر ہے اصل روایت بہت طویل
ہے جس کو ابن حبان وغیرہ سے ملا علی قاری نے مفصل اور سیوطی نے کچھ مختصر نقل کیا
ہے اگر چہ ہمارے رسالہ کے مناسب اتنا ہی جزو ہے جو اوپر گذر چکا مگر چونکہ پوری
حدیث بہت سے ضروری اور مفید مضامین پر مشتمل ہے اس لیے تمام حدیث کا مطلب ذکر کیا
جاتا ہے جو حسب ذیل ہے ۔
حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں کہ
میں نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ حق تعالی شانہ نے کل کتابیں کس قدر نازل فرمائی
ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ سو صحائف اور چار کتابیں پچاس صحیفے حضرت شیث ں پر اور
تیس صحیفے حضرت ادریس ں پر اور دس صحیفے حضرت ابراہیم ں پر اور دس صحیفے حضرت موسی
ں پر تورات سے پہلے اور ان کے علاوہ چار کتابیں توراۃ انجیل زبور اور قرآن شریف
نازل فرمائی میں پوچھا کہ حضرت ابراہیم ں کے صحیفوں میں کیا چیز تھی ارشاد فرمایا
کہ وہ سب ضرب المثلیں تھیں مثلاً او متسلط و مغرور بادشاہ میں نے تجھ کو اس لئے
نہیں بھًجا تھا کہ تو پیسہ پر پیسہ جمع کرتا رہے میں نے تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ
مجھ تک مظلوم کی فریاد نہ پہنچنے دے تو پہلے ہی اس کا انتظام کردے اس لئے کہ میں
مظلوم کی فریاد کو رد نہیں کرتا اگرچہ فریادی کافر ہی کیوں نہ ہو بندہ ناچیز کہتا
ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب اپنے صحابہ کو امیر اور حاکم بنا کر بھیجا کرتے تھے تو
منجملہ اور نصائح کے اس کو بھی اہتمام سے فرمایا کرتے تھے’’وَ اَّ تِق دَ عْوَۃَ الْمَظَلُوْ مِ فَاِ نَّہٗ لَیْسَ بَیْنَھَا وَ
بَیْنَ اللَّہِ حِجَاب‘‘کہ مظلوم کی بد دعا سے بچنا اس لئے کہ اس کے اور اﷲ جل شانہ کے
درمیان میں حجاب اور واسطہ نہیں ۔
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہراستبال می آید
نیز ان صحیفوں میں یہ بھی تھا کہ
عاقل کے لئے ضروری ہے جب تک کہ وہ مغلوب العقل نہ ہو جائے کہ اپنے تمام اوقات کو
تین حصوں پر منقسم کرے ایک حصہ میں اپنے رب کی عبادت کرے اور ایک حصہ میں
اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور سوچے کہ کتنے کام اچھے کئے اور کتنے برے اور ایک حصہ
کو کسب حلال میں خرچ کرے عاقل پر یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے اوقات کی نگہبانی کرے
اپنے حالات کی درستگی کے فکر میں رہے اپنی زبان کی فضل گوئی اور بے نفع گفتگو سے
حفاظت کرے جو شخص اپنے کلام کا محاسبہ کرتا رہے گا اس کی زبان بے فائدہ کلام میں
کم چلے گی عاقل کے لئے ضروری ہے کہ تین چیزوں کے علاوہ سفر نہ کرے یا آخرت کے لئے
توشہ مقصود ہو یا کچھ فکر معاش ہو یا تفریح بشرطیکہ مباح ہو میں نے پوچھا یا رسول
اﷲ حضرت موسی ں کے صحیفوں میں کیا چیز تھی ارشاد فرمایا کہ سب کی سب عبرت کی باتیں
تھیں مثلاً میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ جس کو موت کا یقین ہو پھر کسی بات پر
خوش ہو ( اس لئے کہ جب کسی شخص کو مثلاً یہ یقین ہو جاوے کہ مجھے پھانسی کا حکم ہو
چکا عنقریب سولی پر چڑھنا ہے پھر وہ کسی چیز سے خوش نہیں ہو سکتا ) میں تعجب کرتا
ہوں اس شخص پر کہ اس کو موت کا یقین ہے پھر وہ ہنستا ہے میں تعجب کرتا ہوں اس شخص
پر جو دنیا کے حوادث تعیرات انقلابات ہر وقت دیکھتا ہے پھر دنیا پر اطمینان کر
لیتا ہے میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر کہ جس کو تقدیر کا یقین ہے پھر رنج و مشقت
میں مبتلا ہوتا ہے میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پر جس کو عنقریب حساب کا یقین ہے پھر نیک
اعمال نہیں کرتا میں نے عرص کیا یا رسول اﷲ ﷺ مجھے کچھ وصیت فرمائیں حضورﷺ نے
سب سے اول تقوی کی وصیت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ تمام امور کی بنیاد اور جڑ
ہے میں نے عرض کیا کہ کچھ اور بھی اضافہ فرما دیجئے ارشاد ہوا کہ تلاوت قرآن اور
ذکر اﷲ کا اہتمام کر کہ یہ دنیا میں نور ہے اور آسمان میں زخیرہ ہے میں نیاور
اضافہ چاہا تو ارشاد ہوا کہ زیادہ ہنسی سے احتراز کر کہ اس سے دل مر جاتا ہے چہرے
کی رونق جاتی رہتی ہے ( یعنی ظاہر و باطن دونوں کو نقصان پہنچانے والی چیز ہے ) میں نے اور
اصافہ کی درخواست کی تو ارشاد ہوا کہ جہاد کا اہتمام کر کہ میری امت کے لئے یہی
رہبانیت ہے ( راہب پہلی امتوں میں وہ لوگ کہلاتے تھے کہ جو دنیا کے سب تعلقات
منقطع کر کے اﷲ والے بن جاویں ) میں نے اور اور ضافہ چاہا تو ارشاد فرمایا کہ
فقراء اور مساکین کے ساتھ میل جول رکھ ان کو دوست بنا ان کے پاس بیٹھا کر میں نے اور اصافہ
چاہا تو ارشاد ہوا کہ اپنے سے کم درجے والے پر نگاہ رکھا کر ( تا کہ شکر
کی عادت ہو ) اپنے سے اوپر کے درجہ والوں کو مت دیکھ مباد اﷲ کی نعمتوں کی جو تجھ
پر ہیں تحقیر کرنے لگے میں نے اور اضافہ چاہا تو ارشاد ہوا کہ تجھے اپنے عیوب
لوگوں پر حرف گیری سے روک دیں اور ان کے عیوب پر اطلاع کی کوشش مت کر کہ تو ان میں
خود مبتلا ہے تجھے عیب لگانے کے لئے کافی ہے کہ تو لوگون میں ایسے عیب پہچانے جو
تجھ میں خود موجود ہیں اور تو ان سے بے خبر اور ایسی باتیں ان میں پکڑے جن کو تو
خود کرتا ہے پھر حضور نے اپنا دست شفقت میرے سینے پر مار کر ارشاد فرمایا کہ ابو
ذر تدبیر کے برابر کوئی عقل مندی نہیں اور ناجائز امور سے بچنے کے برابر تقوی نہیں
اور خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی شرافت نہیں ا ھ۔ اس میں خلاصہ اور مطلب کا زیادہ لحاظ
کیا گیا تمام الفاظ کے ترجمہ کا لحاظ نہیں کیا گیا۔
۲۲۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَ یْرَۃَؓ
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قاَلَ مَا اجْتَمَعَ
قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِّن بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَا
رَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ اِلَّا نَزَ لَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَ غَشِیَتْھُمُ
الرَّحْمَۃُ وَ حَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَ
ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ ( رواہ مسلم وابوداود)
ابو ہریرہ ؓنے حضور اقدس ﷺ کا یہ
ارشاد نقل کیا ہے کہ کوئی قوم اﷲ کے گھروں میں سے کسی گھر میں مجتمع ہو کر تلاوت
کلام پاک اور اسکا دور نہیں کرتی مگر ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انکو
ڈھانپ لیتی ہے ملائکہ رحمت انکو گھیر لیتے ہیں اور حق تعالیٰ شانہ انکا ذکر ملائکہ
کی مجلس میں فرماتے ہیں
اس حدیث شریف میں مکاتب اور
مدرسوں کی خاص فضیلت ذکر فرمائی گئی جو بہت سے انواع اکرام کو شامل ہے ان میں سے
ہر ہر اکرام ایسا ہے کہ جس کے حاصل کرنے مین اگر کوئی شخص اپنی تمام عمر خرچ کر دے
تب بھی ارزاں ہے پھر جہ جائیکہ ایسے ایسے متعدد انعامات فرمائے جائیں بالخصوص آخری
فضیلت آقا کے دربار میں ذکر محبوب کی مجلس میں یاد ایک ایسی نعمت ہے جس کا مقابلہ
کوئی چیز بھی نہیں کر سکتی۔
سکینہ کا نازل ہونا متعدد روایات
میں وارد ہوا ہے اس کے مصداق مین مشائخ حدیث کے چند قول ہیں لیکن ان میں کوئی ایسا
اختلاف نہیں کہ جس سے آپس میں کچھ تعارض ہو بلکہ سب کا مجمودہ بھی مراد ہو سکتا ہے
حضرت علی سے سکینہ کی تفسیر یہ نقل کی گئی کہ وہ ایک خاص ہوا ہے جس کا چہرہ انسا ن
کے چھرہ جیسا ہوتا ہے علامہ سدیؒ سے نقل کیا گیا کہ وہ جنت کے ایک طشت کا نام ہے
جو سونے کا ہوتاہے اس میں انبیاء کے قلوب کو غسل دیا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ
خاص رحمت ہے طبری نے اس کو پسند کیا ہے کہ اس سے سکون قلب مرادہے بعض نے کہا ہے کہ
طمانیت مراد ہے بعض نے اس کی تفسیر وقار سے کی ہے تو کسی نے ملائکہ سے بعض نے
اوربھی اقوال کہے ہیں حافظ کی رائے تفح الباری میں یہ ہے کہ سکینہ کا اطلاق سب پر
آتا ہے تووی کی وائے ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جو جامع ہے طمانیت رحمت وغیرہ کو
ار ملائکہ کے ساتھ نازل ہوتی ہے کلام اﷲ شریف میں ارشاد ہے فاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ (توبہ
آیہ ۴۰) دوسری جگہ ارشاد ہے ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ ا لسَّکِیْنَۃَ فِیْ
قُلُوُبِ الْمُومِنِیْن (فتح آیہ۴) ایک جگہ ارشاد ہے فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّن رَّبِّکُم ( سورہ بقرہ
آیہ ۲۴۸) غرض متعدد آیات میں اس کا ذکر ہے
اور احادیث میں متعدد روایات میں اس کی بشارت فرمائی گئی ہے احیاء میں نقل کیا گیا
ہے کہ ابن ثوبان نے اپنے کسی عزیز سے اس کے ساتھ افطار کا وعدہ کیا مگر دوسرے روز
صبح کے وقت پہنچے انہوں نے شکایت کی تو کہا کہ اگر میری تم سے وعدہ نہ ہوتا تو ہر
گز نہ بتاتا کہ کیا مانع پیش آیا مجھے اتفاقاً دیر ہو گئی تھی حتی کہ عشاء کی نماز
کا وقت آ گیا خیال ہوا کہ وتر بھی ساتھ ہی پڑھ لوں کہ موت کا اطمینان نہیں کبھی
رات میں مر جاؤں اور وہ زمہ پر باقی رہ جائیں میں دعائے قنوت پڑھ رہا تھا کہ مجھے
جنت کا ایک سبز باغ نظر آیا جس میں ہر نوع کے پھول وغیرہ تھے اس کے دیکھنے میں
ایسامشغول ہوا کہ صبح ہو گئی اس قسم کے سینکٹوں واقعات ہیں جو بزرگوں کے حالات میں
درج ہیں لیکن ان کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب ماسوا سے انقطاع ہو جاوے اور اسی جانب
توجہ کامل ہو جاوے ۔
ملائکہ کا ڈھانکنا بھی متعدد روایات
میں وارد ہوا ہے اسید بن حضیر کا مفصل قصہ کتب حدیث میں آتا ہے کہ انہوں نے تلاوت
کرتے ہوء پرنے اوپر ایک ابر سا چھایا ہوا محسوس کیا حضور ﷺنے فرمایا کہ یہ ملائکہ
تھے جو قرآن شریف سننے کے لایے آئے تھے ملائکہ ازدہام کی وجہ سے ابر سا معلوم ہوتے
تھے ایک صحابی کو ایک مرتبہ ابر سا محسوس ہوا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ سکینہ تھا یعنی
رحمت جو قرآن شریف کی وجہ سے نازل ہوئی تھی مسلم شریف میں یہ حدیث زیادہ مفصل آئی
جس میں اور بھی مضامین ہیں اخیر میں ایک جملہ یہ بھی زیادہ ہے ’’ مًنْ بًطًّأ بٍہ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہ
نَسَبُہ‘‘( جس شخص کو اسکے برے اعمال
رحمت سے دور کریں اس کا عالی نسب ہونا اونچے خاندان کا ہونا رحمت سے قریب نہیں کر
سکتا ) ایک شخص جو پشتانی شریف النسب ہے مگر فسق و فجور میں مبتلا ہے وہ اﷲ کے
نزدیک اس رذیل اور کم زات مسلمان کی برابری کسی طرح بھی نہیں کر سکتا جو متقی
پرہیز گار ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُم
۲۳۔عَنْ اَبِی ذَرٍّؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْل اللّٰہِ ﷺ اِنَّکُم لَاتَرْجِعُوْنَ
اِلَی اللّٰہِ بِشَیْ اَفْضَلَ مِمَّا خَرَجَ مِنْہُ یَعْنِی اَلْقُرَاٰنَ (رواہ
االحاکم و صححہ ابوداود فی مراسیلہ عن جبیربن نفیروالتر مذی عن
ابی اامامۃ بمعناہ)
ابوذر حضور اقدس ﷺ سے نقل کرتے
ہیں کہ تم لوگ اﷲ جل شانہ کی طرف رجوع اور اس کے یہاں تقرب اس چیز سے بڑھ کر کسی
اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتے جو خود حق سبحانہ سے نکلی ہے یعنی کلام پاک۔
متعدد روایات سے یہ مضمون ثابت
ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کے دربار میں کلام پاک سے بڑھ کر تقرب کسی چیز سے حاصل نہیں
ہوتا امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میں نے حق تعالیٰ زانہ کی خواب میں زیارت کی
تو پوچھا کہ سب سے بہتر چیز جس سے آپ کے دربار میں تقرب ہو کیا چیز ہے ارشاد ہوا
کہ احمد میرا کلام ہے میں نے عرض کیا کہ سمجھ کر یا بلا سمجھے ارشاد ہوا کہ سمجھ
کر پڑھے یا بلا سمجھے دونوں طرح موجب تقرب ہے اس حدیث شریف کی تو ضیح اور تلاوت
کلام پاک کا سب سے بہتر طریقہ تقرب ہونے کی تشریح حضرت اقدس بقیۃ الف حجت الخلف
مولانا شاہ عبدالعیز صاحب دہلوی نور اﷲ مرقدہ کی تفسیر سے مستنبط ہوتی ہے جس کا
حاصل یہ ہے کہ سلوک الی اﷲ یعنی مرتبہ احسان حق سبجانہ و تقدس کی حضوری کا نام ہے
جو تین طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے اول تصور جس کو عرف شرع میں تفکر و تدبر سے
تعبیر کرتے ہین اور صوفیہ کے یہاں مراقبہ سے دوسرا زکر لسانی اور تیسرا تلاوت کلام
پاک سب سے اول طریقہ بھی چونکہ ذکر قلبی ہے اس لئے دراصل طریقے دو ہی ہیں اول زکر
عام ہے کہ زبانی ہو یا قلبی دوسرے تلاوت سو جس لفط کا اطلاق حق سبحانہ و تقدس پر
ہو گا اور اس کو بار بار دہرایا جاوے گا جو زکر کا حاصل ہے تو مدرکہ کے اس ذات کی طرف
توجہ اور التفات کاسبب ہو گا اور گویا وہ زات مستحضر ہو گی اور استحضار کے دوام کا
معیت ہے جس کو اس حدیث شریف میں ارشاد فرمایا ہے ’’ لَایَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِا
لنَّواَفِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ
وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُ بِہِ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا‘‘( حق سبحانہ و تقدس کا ارشاد
ہے کہ بندہ نفل عبادتوں کے ساتھ میرے ساتھ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں
بھی اس کو محبوب بنا لیتا ہوں حتیٰ کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے
اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ جس سے وہ کسی چیز پکڑتا ہے اور
پاؤں جس سے وہ چلتا ہے ) یعنی جب کہ بندہ کثرت عبادت سے حق تعالیٰ شانہ کا
مقرب بن جاتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کے اعصاء کے محافظ بن جاتے ہیں اور آنکھ کان
وغیرہ سب مرضی آقا کے تابع ہوجاتے ہیں اور نفل عبادات کی کثرت اس لئے ارشاد فرمائی
کہ فرائض متعین ہیں جن میں کثرت نہیں ہوتی اور اس کے لئے ضرورت ہے دوام استحضار کی
جیسا کہ پہلے معلوم ہو چکا لیکن تقرب کا یہ طریقہ صرف اسی محبوب کی پاک زات کے لئے
ہے اگر کوئی چاہے کہ کسی دوسرے کے نام کی تسبیح پڑھ کر اس سے تقرب حاصل کر لے تو
یہ ممکن نہیں اس وجہ سے کہ اس قسم کے تقرب میں جس کی طرف تقرب ہو اس میں دو بات کا
پایا جانا ضروری ہے اول یہ کہ اس کا علم محیط ہو ذاکرین کے قلبی اور زبانی اذکار
کو اگرچہ وہ مختلف زمانوں اور مختلف اوقات میں ذکر کریں دوسرے یہ کہ ذکر کرنے والے
مدرکہ میں تجلی اور اس کے پر کر دینے کی قدرت ہو جس کو عرف میں دنو اور تدلی تزول
اور قرب سے تعبیر کرتے ہیں یہ دونوں باتیں چونکہ اسی مطلوب میں پائی جاتی ہیں اس
لئے طریق بالا سے تقرب بھی اسی پاک ذات سے حاصل ہو سکتا ہے اور اسی کی طرف اس حدیث
قدسی میں اشارہ ہے جس میں ارشاد ہے ’’مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًاتَقَرَّبْتُ
اِلَیَہِ ذِرَاعًا۔
الحدیث‘‘ ( جو شخص میری طرف ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ
قریب ہوتا ہوں اورجو شخص میری طرف ایک ہاتھ اتا ہے میں اس کی طرف ایک باع آتا ہوں
یعنی دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے بقدر اور جو شخص میری طرف معمولی رفتار سے اتا ہے
میں اس کی طرف دوڑ کر چلتا ہوں ) یہ سب تشبیہات سمجھانے کے ليے ہیں ورنہ حق سبحانہ
و تقدس چلنا پھرنا وغیرہ سب سے مبرا ہیں مقصود یہ ہے کہ حق سبحانہ و تقدس اپنے یاد
کرنے اور ڈھونڈنے والوں کی طرف ان کی طلب اور سعی سے زیادہ توجہ اور نزول فرماتے
ہیں اور کیوں نہ فرماویں کہ کریم کے کرم کا مقتصی یہی ہے پس جب کہ یا کرنے والوں
کی طرف یاد کرنے میں دوام ہوتا ہے تو پاک آقا کی طرف سے توجہ اور نزول میں دوام
ہوتا ہے کلام الی چونکہ سرا سر زکر ہے اور اس کی کوئی آیت ذکر و توجہ الی اﷲ سے
خالی نہیں اس لئے یہی بات اس میں بھی پائی جاتی ہے مگر اس میں ایک خصوصیت زیادہ ہے
جو زیادتی تقرب کا سبب ہے وہ یہ ہر کلام متکلم کی صفات و اثرات اپنے اندر لئے ہوئے
ہوا کرتا ہے اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ فساق و فجار کے اشعار کا ورد رکھنے سے اس
کے اثرات پائے جاتے ہیں اور اتقیا کے اشعار سے ان کے ثمرات پیدا ہوتے ہیں اسی وجہ
سے منطق فلسفہ میں علو سے نخوت تکبر پیدا ہوتا ہے اور حدیث کی کثرت مزاولت سے
تواضع پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ فارسی اور انگریزی نفس زبان ہونے میں دونوں
برابر ہیں لیکن مصنفین جن کی کتب پڑھائی جاتی ہیں ان کے اختلاف اثرات سے ثمرات میں
بھی اختلاف ہوتا ہے بالجملہ چونکہ کلام میں ہمیشہ متکلم کے تاثرات پائے جاتے ہیں
اس لئے کلام الی کے تکرار ورد سے اس کے متکلم کے اثرات کا پیدا ہونا اور ان سے
طبعاً مناسبت پیدا ہو جاتا یقینی ہے نیز ہر مصنف کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص اس کی
تالیف کا اہتمام کیا کرتا ہے تو فطرۃٹ اس کی طرف التفات اور توجہ ہوا کرتی ہے اس
لئے حق تعالیٰ شانہ کے کلام کا ورد رکھنے والے کی طرف حق سبحانہ و تقدس کی زیادتی
توجہ بھی بدیہی اور یقینی ہے جو زیادتی قرب کا سبب ہوتی ہے آقائے کریم اپنے کرم سے
مجھے بھی اس لطف سے نوازیں اور تمہیں بھی۔
۲۴۔ عَنْ اَنسٍؓ قَالَ
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ للّٰہِ اَھْلِیْنَ مِنَ النَّاسِ قَالُوْا مَنْ
ھُمْ یَارَسُولَ اللّٰہِ قَالَ اَھْلُ الْقُرْاٰنِ، ھُمْ اَھْلُ اللّٰہِ
وَخَاصَّتُہٗ (رواہ االنسائی و ابن ماجۃ و الحاکم و احمد)
انس نے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نقل
کیا ہے حق تعالی شانہ کے لء لوگوں مین سے بعض لوگ خاص گھر کے لوگ ہیں صحابہ نہ عرض
کیا کہ وہ کون لوگ ہیں فرمایا کہ قرآن شریف والے کہ وہ اﷲ کے ایل ہیں اور خواص۔
قرآن والے وہ لوگ ہیں جو ہر وقت
کلام پاک میں مشغول رہتے ہوں اس کے ساتھ خصوصیت رکھتے ہوں ان کا اﷲ کے اہل
اور خواص ہونا ظاہر ہے اور گذشتہ مضمون سے واضح ہو گیا کہ جب یہ ہر وقت کلام پاک
میں مشغول رہتے ہیں تو الطاف باری بھی ہر وقت ان کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور جو لوگ
ہر وقت کے پاس رہنے والے ہوتے ہیں وہ اہل اور خوص ہوتے ہی ہیں کس قدر بڑی فضیلت ہے
کہ ذرا سی محنت و مشقت سے اﷲ والے بنتے ہیں اﷲ کے اہل شمار کئے جاتے ہیں اور اس کے خوص ہونے کا
شرف حاصل ہو جاتا ہے دنیوی دربار میں صرف داخلہ کی اجازت کے لئے ممبروں میں صرف
شمول کے لیے کس قدر جانی اور مالی قربانی کی جاتی ہے ووٹروں کے سامنے خوشمد کرنی
پڑتی ہے زلتین برداشت کرنی پڑتی ہیں اور اس سب کو کام شمجہا جاتا ہے لیکن قرآن
شریف کی محنت کو بے کار سمجھا جاتا ہے۔
ببین تفاوت رہ از کجا است تا بہ کجا
۲۵۔ عَنْ اَبِی
ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْٔ مَا اَذِنَ لِنَبِیٍّ
یّتَغَنَیّٰ بِا لْقُرْأنِ (رواہ البخاری و مسلم)
ابو ہریرہ ؓنے حضور اقدس ﷺ سے
نقل کیا کہ کہ حق سبحانہ اتنا کسی کی طرف توجہ نہیں فرماتے جتنا کہ اس نبی کی آواز
کو توجہ سے سنتے ہیں جو کلام الٰہی خوش الحانی سے پڑھتا ہو پہلے معلوم ہو چکا کہ حق تعالیٰ
شانہ اپنے کلام کی طرف خصوصیت سے توجہ فرماتے ہیں پڑھنے والوں میں انبیاء چونکہ
آداب تلاوت کو بکمالہ ادا کرتے ہیں اس لئے ان کی طرف اور زیادہ توجہ ہونا بھی ظاہر
ہے پھر جب کہ حسن آواز اس کے ساتھ مل جاوے تو سونے پر سہاگہ ہے جتنی بھی توجہ ہو
ظاہر ہے اور انبیاء کے بعد الافل فالافضل حسب حیثیت پڑھنے والے کی طرف توجہ ہوتی
ہے ۔
۲۶۔ عَنْ فُظَالَۃَ بْنِ
عُبَیْدٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اللّٰہُ اَشَدُّ اُذُنًا اِلٰی قَارِیِٔ الْقُرْاٰنِ
مِنْ صَاحِبِ الْقَیْنَۃِ اِلٰی قَیْنَتِہٖ۔(رواہ ابن ماجۃ وابن حبان والحاکم کذافی شرح الاحیاء قلت وقال الحاکم صحیح علی شر
طھا وقال الذھبی منقطع)
فضالۃ ابن عبید نے حضور اقدس ﷺ
سے نقل کیا ہے حق تعالیٰ شانہ قاری کی آواز کی طرف اس شخص سے زیادہ کان لگانے ہین
جو اپنی گانے والی باندی کا گانا سن رہا ہوں گانے کی آواز کی طرف فطرۃً اور
طبعاً توجہ ہوتی ہے مگر شرعی روک کی وجہ سے دیندار لوگ ادھر متوجہ نہیں ہوتے لیکن
گانے والی اپنی مملوکہ ہو تو اس کا گانا سننے میں کوئی شرعی نقص بھی نہیں اس لیے
اس طرف کم توجہ ہوتی ہے البتہ کلام پاک میں یہ ضروری ہے کہ گانے کی آواز میں نہ
پڑھا جائے احادیث میں اس کی ممانعت ائی ہے ایک حدیث میں ہے اِیَّاکُمْ وَ لُحُوْنَ اَھْلِ الْعِشْق(الحدیث) یعنی اس سے بچو کہ جس طرح عاشق
غزلوں کی آواز بنا بنا کر کوسیقی قوانین پر پڑھتے ہیں اس طرح مت پڑھو مشائخ نے لکھا ہے
کہ اس طرح کا پڑھنے والا فاق اور سننے والا گناہ گار ہے مگر گانے کے قواعد کی
رعایت کیے بغیر خوش آوازی مطلوب ہے حدیث میں متعدد جگہ اس کی ترغیب آئی ہے ایک جگہ
ارشاد ہے کہ اچھی آواز سے قرآن شریف کو مزین کو ایک جگہ ارشاد ہے کہ اھی آواز سے
کلام اﷲ شریف کا حسن دو بالا ہو جاتا ہے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ
اپنی کتاب غنیہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن مسعودؓ ایک مرتبہ کوگہ کے نواح
میں جارہے تھے کہ ایک جگہ فساق کا مجمع ایک گھر مین جمع تھا ایک گویا جس کا نام
زاذان تھا گا رہا تھا اور سارنگی بجا رہا تھا ابن مسعودؓ نے اس کی آواز سن کر
ارشاد فرمایا کیا ہی اچھی آواز تھی اگر قرآن شریف کی تلاوت میں ہوتی اور اپنے سر
پر کپڑا ڈال کر گذرے ہوئے چلے گئے زاذان نے ان کو بولتے ہوئے دیکھا لوگوں سے
پوچھنے پر معلوم ہوا عبداﷲ بن مسعود صحابی ہیں اور یہ ارشاد فرما گئے اس پر اس
مقولہ کی کچہ ایسی ہیبیت طاری ہوئی کہ حد نہیں اور قصہ مختصر کہ وہ اپنے سب آلات
توڑ کر ابن مسعود کے پیچھے لگ لئے اور علامہ وقت ہوئے غرض متعدد روایات میں اچھی آواز سے تلاوت کی مدح
آئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی گانے کی آواز میں پڑھنے کی ممانعت آئی ہے جیسا کہاوپر
گزر چکا خذیفہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قرآن شریف کو عرب کی آواز میں
پڑھو عشق بازوں اور یہود و نصاریٰ کی آواز میں مت پڑھو عنقریب ایک قوم آنے والی ہے
جو گانے اور نوحہ کرنے والوں کی طرح سے قرآن شریف کو بنا بنا کر پڑھے گی وہ تلاوت
ذرا بھی ان کے لئے نافع نہ ہو گی خود بھی وہ لوگ فتنے میں پڑیں گے اور جن کو وہ
پڑھنااچھا معلوم ہوگا ان کو بھی فتنہ میں ڈالیں گے طاؤس کہتے ہیں کہ کسی نے حضور
اقدس ﷺ سے پوچھا کہ اچھی آواز سے پڑھنے والا کون شخص ہے حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
وہ شخص کہ جب تو اس کو تلاوت کرتے دیکھے تو محسوس کرے کہ اس پر اﷲ کا خوف ہے یعنی
اس کی آواز سے مرعوب ہونا محسوس ہوتا ہو اس سب سے ساتہ اﷲ جل و علا کا بڑا انعام
یہ ہے کہ آدمی اپنی حیثیت و طاقت کے موافق اس کا مکلف ہے حدیث میں ہے حق سبحانہ و
تقدس کی طرف سے فرشتہ اس کام پر مقرر ہے کہ جو شخص کلام پاک پڑھے اور کما حقہ اس
کو درست نہ پڑھ سکے وہ فرشتہ اس کو درست کرنے بعد اوپر لے جاتا ہے ۔اَللّٰھُمَّ لَا اُحْصِیْ ثَنَا ء عَلَیْک۔
۲۷۔ عَنْ
عُبِیْدَۃَالْمُلَیْکیْؓقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ یَا اَھْلَ الْقُرْاٰنِ لَاتَتَوَسَّدُواالْقُرْاٰنَ وَاتْلُوْہُحَقَّ
تِلَاوَتِہٖ مِنْ ا نَآئِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِوَأَفْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ
وَتَدَبَّرُوْ امَافِیہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَلاَ تُعَجِّلُوْا ثَوَابَہٗ
فِاَنَّ لَہٗ ثَوَاَبًا۔ (رواہ البیھقی فی شعب الا یمان)
عبیدہ ملیکی نے حضور اکرم ﷺ سے
نقل کیا ہے قرآن والو قرآن شریف سے تکیہ نہ لگاؤ اور اس کی تلاوت شب و روز ایسی
کرو جیسا کہ اسکا حق ہے کلام پاک کی اشاعت کرو اور اس کو اچھی آواز سے پڑھو اور اس
کے معانی میں تدبر کر تا کہ تم فلاح کو پہنچو اور اس کا بدلہ ( دنیا میں ) طلب نہ
کرو کہ (آخرت میں ) اس کیلئے بڑا اجر و بدلہ ہے
حدیث بال میں چند امور ارشاد
فرمائے ہیں (۱) قرآن شریف سے تکیہ نہ لگاؤ قرآن
شریف سے تکیہ نہ لگانے کے دو مفہوم ہیں اول یہ کہ اس پر تکیہ نہ لگاؤ کہ یہ خلاف ادب
ہے ابن حجر نے لکھا ہے کہ قرآن پاک پر تکیہ لگانا اس کی طرف پاؤں پھیلانا اس کی
طرف پشت کرنا اس کو روندنا وغیرہ حرام ہے دوسرے یہ کہ کنایہ ہے غفلت سے کہ کلام
پاک برکت کے واسطے تکیہ ہی پر رکھا رہے جیسا کہ بعض مزارات پر دیکھا گیا کہ قبر کے
سرہانے برکت کے واسطے رحل پر رکھا رہتا ہے یہ کلام پاک کی حق تلفی ہے اس کا حق یہ
ہے کہ اس تلاوت کی جائے (۲) اور اس کی تلاوت کرو جیسا کہ اس
کا حق ہے یعنی کثرت سے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خود کلام پاک میں بھی اس کی طرف
متوجہ فرمایا گیا ارشاد ہےاَلَّذِیْنَ اٰ تَیْنَا ھُمُ الْکِتَاَبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تلِاَ
وَتِہ ( بقرہ آیہ ۱۲۱)جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہین جیسا کہ اس کی
تلاوت ک حق ہے ) یعنی جس عزت سے بادشاہ کا فرمان اور جس شوق سے محبوب کا کلام پڑھا
جاتا ہے اسی طرح پڑہنا چاہئے (۳) اور اس کی اشاعت کرو یعنی تقریر
سے تحریر سے ترعیب سے عملی شرکت سے جس طرح ہوسکے اس کی اشاعت جتنی ہو سکے کرو نبی
کریم ﷺ کلام پاک کی اشاعت اور اس کے پھیلانے کا حکم فرماتے ہیں لیکن ہمارے روشن
دماغ اس کے پڑھنے کو فضول بتلاتے ہیں اور ساٹہ ہی حب رسول اور حب اسلام کے لمبے
چوڑے دعوے بھی ً ہاتھ سے نہیں جاتے۔
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کی رہ کہ تومی روی بترکستان است
آقا کا حکم ہے کہ قرآن پاک کو
پھیلاؤ مگر ہمارا عمل ہے کہ جو کوشش اس کی رکاوٹ میں ہو سکے دریغ نہ کریں گے جبر
یہ تعلیم کے قوانین بنوائیں گے تا کہ بچے بجائے قرآن پاک کے پرائمری پڑھیں ہمیں اس
پر غصہ ہے کہ مکتب کے میاں جی بجوں کی عمر ضائع کر دیتے ہین اس لئے ہم وہاں نہیں
پڑھانا چاہتے مسلم وہ یقیناکوتاہی کرتے ہیں مگر ان کی کوتاہی سے آپ سبکدوش ہو جاتے
ہیں یا آپ پر س/spanے قرآن پاک کی اشاعت کا فریضہ ہٹ جاتا ہے اس صورت
میں تو یہ فریضہ آپ پر عائد ہوتا ہے وہ اپنی کوتاہیوں کے جواب دہ ہیں مگر ان کی
کوتاہی سے آپ بچوں کو جبراً قرآن پاک کے مکاتب سے ہٹا دیں اور ان کے والدین پر
نوٹس جاری کرائیں کہ وہ قرآن پاک حفظ یا ناظرہ پڑھانے سے مجبور ہوں اور اس کا وبال
آپ کی گردن پر رہے یہ حمی دق کا علاج سنکھیا سے نہیں تو اور کیا ہے عدالت عالیہ
میں اپنے اس جواب کو اس لئے جبرآً تعلیم قرآن سے ہٹا دیا کہ مکتب کے میاں جی بہت
بری طرح سے پڑھاتے تھے آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ کتنا وزن رکھتا ہے بنئے کی دکان پر
جانے کے واسطے یا انگریزوں کی چاکری کے واسطے۳ بٹا ۴ کی تعلیم اہمیت رکھتی ہو مگر اﷲ
کے یہاں تعلیم قرآن سب سے اہم ہے (۴) خوش آوازی سے پڑھو جیسا کہ اس سے
پہلی حدیث میں گزر چکا (۵) او اس کے معنی میں غور کرو تورات
سے احیاء میں نقل کیا ہے حق سبحانہ و تقدس ارشاد فرماتے ہیں اے میرے بندے تجھے مجھ
سے شرم نہیں آتی تیرے پاس راستے میں کسی دوست کا خط آ جاتا ہے تو چلتے چلتے راستے
میں ٹھہر جاتا ہے الگ کو بیٹھ کر عور سے پڑھتا ہے ایک ایک لفظ پر عور کرتا ہے میری
کتاب تجھ پر گذرتی ہے میں نے اس میں سب کچھ واضح کر دیا ہے بعض اہم امور کا بار
بار تکرار کیا ہے تا کہ تو اس پر عور کرے اور تو بے پرواہی سے اڑا دیتا ہے کیا میں
تیرے نزدیک تیرے دوستوں سے بھی ذلیل ہوں اے میرے بندے تیرے بعض دوست تیرے پاس بیٹھ
کر باتیں کرتے ہیں تو ہمہ تن ادھر متوجہ ہو جاتا ہے کان لگاتا ہے غور کرتا ہے کوئی
بیچ میں تجھ سے بات کرنے لگتا ہے تو تو اشارے سے اس کو روکتا ہے منع
کرتا ہے میں تجھ سے اپنے کلام کے ذریعے سے باتیں کرتا ہوں اور تو ذرا بھً متوجہ
نہیں ہوتا کیا میں تیرے نزدیک تیرے دوستوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں ا ھ تدبر اور غور
کرنے کے متعلق کچہ مقدمہ میں اور کجھ حدیث نمبر ۸ کے ذیل میں مذکور ہو چکا ہے (۶) اور اس کا بدلہ دنیا میں نہ چاہو
یعنی تلاوت پر کوئی معاوضہ نہ لو کہ آخرت میں اس کا بہت بڑا معاوضہ ملنے والا ہے
دنیا میں اگر اس کا معاوضہ لے لیا جاوے گا تو ایسا ہے جیسا کہ روپیوں کے بدلے کوئی
شخص کوڑیوں پر راضی ہو جاوے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب میری امت دینار و درہم
کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی اسلام کی ہیبت اس سے جاتی رہے گی اور جب امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر چھوڑ دے گی تو برکت وحی سے یعنی فہم قرآن سے محروم ہو جائے گی ۔کذا فی الیحاء اللھم احفظنا منہ۔
۲۸۔ عَنْ وَاثِلَۃَؓ
رَفَعَہٗ اُعْطِیْتُ مَکَانَ التَّوْرٰۃِ السَّبْعَ وَاُعْطِیْتُ مَکاَن
الزَّبُوْرِ الْمِئِیْنَ وَاُعْطِیْتُ مَکَانَ الاِنْجِیْلِ الْمَثَانِیَ
وَفُضِّلْتُ بِا لْمُفَصَّلِ۔ (لاحمد والکبیر کذانی جمع الفوائد)
واثلہ نے حضور اقدس ﷺ سے نقل کیا
ہے کہ مجھے تورات کے بدلہ میں سبع طول ملی ہیں اور زبور کے بدلہ میں مئین اور
انجیل کے بدلہ میں مثانی اور مفصل مخصوص ہیں میرے ساتھ ۔
کلام پاک کی اول سات سورتیں طول
کہلاتی ہیں اس کے بعد کی گیارہ سورتیں مئین کہلاتی ہیں اس کے بعد کی بیس سورتیں
مثانی اس کے بعد ختم قرآن تک مفصل یہ مشہور قول ہے بعض بعض سورتوں میں اختلاف بھی
ہے کہ یہ طول میں داخل ہیں یا مئین میں اسی طرح مثانی میں داخل ہیں یا
مفصل میں مگر حدیث شریف کے مطلب و مقصود میں اس اختلاف سے کوئی فرق نہیں آتا مقصد
یہ ہے کہ جس قدر کتب مشہورہ سماویہ پہلے نازل ہوئی ہیں ان سب کی نظیر قرآن شریف
میں موجود ہے اور ان کے علاوہ مفصل اس کلام پاک میں مخصوص ہے جس کی مثال پہلی
کتابوں میں نہیں ملتی۔
۲۹۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیدِؓنِ
الْخُدْرِیِّ قَالَ جَلَسْتُ فِیْ عِصَابَۃٍ مِّنْ ضُعَفَآئِ اْلُمَھَا جِرِیْنَ
وَاِنَّ بَعْضَھُمْ لَیَسْتَتِرُوْنَبِبَعْض،مِّنَ الْعُرْیِ وَقَارِیٌٔ یَّقْرَأُعَلَیْنَا، اِذْجَائَ رَسُوْلُ
اللّٰہِ ﷺ فَقَامَ عَلَیْنَا
فَلَمَّا قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ سَکَتَ الْقَارِیُٔ
فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ مَا کُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ قُلْنَا نَسْتَمِعُ اِلٰیِ
کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَقَالَ الْحَمْدُللّٰہِ الَّذِیْ جَعَل مِنْ اُمَّتِیْ
مَن اُمِرْتُ اَنْ اَصَبِرَ نَفْسِیْ مَعَھُمَ قَالَ
فَجَلَسَ وَسْطَنَا لِیَعْدِلَ بِنَفْسِہٖ فِیْنَا ثُمَّ قَالَ بِیَدِہٖ ھٰکَذَا
فَتَحَلَّقُواوَبَرَزَتْ وُجُوْھُھُمْ لَہٗ فَقَالَ اَبْشِرُوَ یَا
مَعْشَرَصَعَالِیْکِ الْمُھَا جِرِ یْنَ بِالنُّورِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
تَدْ خُلُوْن الْجَنَّۃَ قَبْلَ اَغْنِیَآئِ النَّاسِ بِنِصْفِ یَوْمٍ وَذٰلِکَ
خَمْسُ مِأَۃِ سَنَۃٍ۔ (رواہ ابوداؤد)
ابو سعید خدری ؓکہتے ہیں کہ میں
ضعفاء مہاجرین کی جماعت مین ایک مرتبہ بیٹھا ہوا تھا ان لوگوں کے پاس کپڑا بھی
اتنا نہ تھا کہ جس سے پورا بدن ڈھانپ لیں بعض لوگ بعض کی اوٹ کرتے تھے اور ایک شخص
قرآن شریف پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں حضور ﷺ تشریف فرما ہوئے اور بالکل ہمارے قریب
کھڑے ہو گئے حضورﷺ کے آنے پر قاری چپ ہو گیا تو حضورﷺ نے سلام کیا اور پھر دریافت
فرمایاکہ تم لوگ کیا کر رہے تھے ہم نے عرص کیا کہ کلا اﷲ سن رہے تھے حضور
ﷺنے فرمایا کہ تمام تعریف اس اﷲ کے لئے ہے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا
فرمائے کہ مجھے ان میں ٹھہرنے کا حکم کیا گیا اس کے بعد حضورﷺ ہمارے بیچ میں بیٹھ
گئے تا کہ سب کے برابر رہیں کسی کے قریب کسی سے دور نہ ہوں اس کے بعد سب کو حلقہ
کر کے بیٹھنے کا حکم فرمایا سب حضورﷺ کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے تو حضور ﷺنے ارشاد
فرمایا کہ اے فقراے مہاجرین تمہیں مژدہ قیامت کے دن نور کامل کا اور اس بات کا کہ
تم اغنیاء سے آدھے دن پہلے جنت مین داخل ہو گے اور یہ آدھا دن پانسو برس کے برابر
ہو گا۔
ننگے بدن سے بظاہر محل ستر کے
علاوہ مراد ہے مجمع میں ستر کے علاوہ اور بدن کے کھلنے سے بھی حجاب معلوم ہوا کرتا
ہے اس لئے ایک دوسرے کے پیچھے بیٹھ گئے تھے کہ بدن نظر نہ آوے حضور ﷺکے تشریف لانے
کی اول تو ان لوگوں کو اپنی مشغولی کی وجہ سے خبر نہ ہوئیلیکن جب حضور ﷺبالکل سر
پر تشریف لے آئے تو معلوم ہوا اور قاری ادب کی وجہ سے خاموش ہو گئے ۔
حضور ﷺکا دریافت فرمانا بظاہر
اظہار مسرت کے لئے تھا ورنہ حضورﷺ قاری کو پڑھتے ہوئے دیکھ ہی چکے تھے آخرت کا ایک
دن دنیا کے ہزار برس کے برابر ہوتا ہے وَاِنَّ یَوْ مًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَ لْفِ
سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ( حج آیہ ۴۷) اور اسی وجہ سے بظاہر جہاں قیامت
کا ذکر آتا ہے غداً کے ساتھ آتا ہے جس کے معنی کل آئندہ کے ہیں لیکن یہ سب باعتبار
اغلب اور عام مؤمنین کے ہے ورنہ کافرین کے لئے وارد ہوا ہے فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ
اَلْفَ سَنَۃٍ ایسا دن جو پچاس ہزار برس کا ہو گا اور خواص مؤمنین کیلئے حسب حیثیت
کم معلوم ہو گا چنانچہ وارد ہوا ہے کہ بعض مؤمنین کے لے بمنزلہ دو رکعت فجر کے ہو
گا قرآن شریف کے پڑھنے کے فضائل جیسا کہ بہت سے روایات میں وارد ہوئے ہیں بیحد ہیں
اس کے سننے کے فضائل بھی متعدد روایات میں آئے ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو
گی کہ سید المرسلین کو ایسی مجلس میں شرکت کا حکم ہوا ہے جیسا کہ اس روایت سے
معلوم ہوابعض علماء کا فتوی ہے کہ قرآن پاک کا سننا پڑھنے سے بھی زیادہ افضل ہے اس
لئے کہ قرآن پاک کا پڑھنا نفل ہے اور سننا فرض اور فرض کا درجہ نفل سے بڑھا ہوا
ہوتا ہے اس حدیث سے ایک اور مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے
کہ وہ نادار جو صبر کرنے والا ہو اپنے فقر و فاقہ کو کسی پر ظاہر نہ کرتا ہو وہ
افضل ہے یا وہ مالدار جو شکر کرنے والا ہو حقوق ادا کرنے والا ہو اس حدیث سے صابر
حاجت مند کی افضلیت پر استدلال کیا جاتا ہے ۔
۳۰۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَ
یْرۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنِ اسْتَمَعَ اِلٰی
اٰیَۃٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ کُتِبَتْ لَہٗ حَسَنَۃٌ مُّضَا عَفَۃٌ وَمَنْ تَلَا
ھَاَ کَانَتْ لَہٗ نُوْرًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ۔(رواہ احمد عن عبادۃ بن میسرۃ واختلف فی تو ثیقہ
عن الحسن عن ابی ھریرۃ الجمھور علی ان الحسن لم یسمع عن ابی ھریرۃ)
ابو ہریرۃ ؓنے حضور اقدس ﷺ سے
نقل کیا ہے کہ جو شخص ایک آیت کلام اﷲ کی سنے اس کیلئے دو چند نیکی لکھی جاتی ہے اور
جو تلاوت کرے اس کیلئے قیامت کے دن نور ہو گا۔
محدثین نے سند کے اعتبار سے
اگرچہ اس میں کلام کیا ہے مگر مضمون بہت سے روایات سے مؤید ہے کہ کلام پاک کا سننا
بھی بہت اجر رکھتا ہے حتیٰ کہ بعص لوگوں نے اس کو پڑھنے سے بھی افضل بتلایا ہے۔
ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ منبر پر تشریف فرما تھے ارشاد فرمایاکہ
مجھے قرآن شریف سنا میں نے عرض کیا کہ حضور ﷺپر تو خود نازل ہی ہوا حضورﷺ کو کیا
سناؤں ارشاد ہوا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ سنوں اس کے بعد انہوں نے سنایا تو حضورﷺ کی آنکھوں سے
آنسو جاری ہو گیے ایک مرتبہ سالم مولی حذیفہ کلام مجید پڑھ رہے تھے کہ حضور اکرم
ﷺدیر تک کھڑے ہوئے سنتے رہے ابو موسی اشعریؓ کا قرآن شریف سنا تو تعریف فرمائی ۔
۳۱۔ عَنْ عُقْبَۃَؓ بْنِ
عَامِرٍقَالَ قَال رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّیﷺ اَلْجَاھِرُ بِالْقُرْاٰنِ
کَا لْجَاھِرِ بِا الصَّدَقَۃِوَالْمُسِرُّ بِالْقُرْاٰنِ کَالْمُسِرِّ
بِالصَّدَقَۃِ۔ (رواہ الترمذی وابوداود والنسائی والحاکم وقال
علی شرط البخاری)
عقبہ بن عامر نے حضور اکرمﷺ سے
نقل کیا ہے کہ کلام اﷲ کا آواز سے پڑھنے والا علانیہ صدقہ کرنے والے کے مشابہ ہے
اور آہستہ پڑھنے والا خفیہ صدقہ کرنے والے کی مانند ہے ۔
صدقہ بعض اوقات علانیہ افضل ہوتا
ہے جس وقت دوسروں کی ترغیب کا سبب ہو یا اور کوئی مصلحت ہو اور بعض اوقات مخفی
افضل ہوتا ہے جہاں ریا کا شبہ ہو یا دوسرے تذلیل ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ اسی طرح کلام
اﷲ شریف کا بعض اوقات اواز سے پڑھنا افضل ہے جہاں دوسروں کی ترغیب کا سبب ہواور اس
میں دوسرے کے سننے کا ثواب بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات آہستہ پڑھنا افضل ہوتا ہے
جہاں دوسروں کو تکلیف ہو یا ریا کا احتمال ہو وغیرہ وغیرہ اسی وجہ سے زور سے اور
آہستہ دونوں طرح پڑھنے کی مستقل فضیلتیں بھی ائی ہیں کہ بعض اوقات یہ مناسب تھا
اور بص وقت وہ افضل تھا آہستہ پڑھنے کی فضیلت پر بہت سے لوگوں نے خود اس صدقہ والی
حدیث سے بھی استدلال کیا ہے بیہقی نے کتاب الشعب میں ( مگر یہ روایت بقواعد محدثین
ضعیف ہے ) حضرت عائشہ ؓسے نقل کیا ہے کہ آہستہ کا عمل اعلانیہ کے عمل سے ستر حصہ
زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جابرؓ نے حضور اقدس ﷺ سے نقل کیا ہے کہ پکار کر اس طرح مت پڑھو
کہ ایک کی آواز دوسرے کے ساٹہ خلط ہو جائے عمر بن عبدالعزیز نے مسجد نبوی میں ایک
شخص کو آواز سے تلاوت کرتے سنا تو اس کو منع کر دیا پڑھنے والے نے کچھ حجت کی تو
عمر بن عبدالعزیز نے فرمایاکہ اگر اﷲ کے واسطے پڑھتا ہے تو آہستہ پڑھ اور لوگوں کی
خاطر پڑھتا ہے تو پڑھنا بیکار ہے اسی طرح حضور ﷺسے پکار کر پڑھنے کا ارشاد بھی نقل
کیا گیا شرح احیاء میں دونوں طرح کی روایات و آثار ذکر کئے گئے۔
۳۲۔ عَنْ جَابِرٍؓ عَنِ
النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقُرْاَنُ شَافِعٌ مُّشَفَّعٌ وَ
مَاحِلٌ مُصَدَّقٌ مَن جَعَلَہ‘ اَمَامَہ قَادَہٗ اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَنْ
جَعَلَہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ سَاقَہٗ اِلَی
النَّارِ (رواہ بن حبان والحکم مطولاوصححہ)
جابر نے حضور اقدس ﷺ سے نقل کیا
کہ قرآن پاک ایسا شفیع ہے جسکی شفاعت قبول کی گئی اور ایسا جھگڑالو ہے کہ جسکا
جھگڑا تسلیم کر لیا گیا جو شخص اسکو اپنے آگے رکھے اسکو یہ جنت کی طرف کھینچتا ہے
اور جو اسکو پس پشت ڈال دے اسکو یہ جہنم میں گرا دیتا ہے
یعنی جس کی یہ شفاعت کرتا ہے اس
کی شفاعت حق تعالیٰ شانہ کے یہاں مقبول ہے اور جس کے بارے میں جھگڑا کرتا
ہے اور جھگڑے کی تفصیل حدیث نمبر ۸ کے ذیل میں گذر جکی ہے کہ اپنی
رعایت رکھنے والوں کے لیے درجات کے بڑھانے میں اﷲ کے دربار میں جھگڑتا ہے اور اپنی
حق تلفی کرنے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ میرا حق کیوں نہیں دادا کیا جو شخص اس کو
اپنے آگے رکھ لے یعنی اس کا اتباعاور اس کی پیروی اپنا دستور العمل بنا لے اس کو
جنت میں پہنچا دیتا ہے اور جو اس کو پشت کے پیچھے ڈال دے یعنی اس کا اتباع نہ کرے
اس جہنم میں گرنا ظاہر ہے بندہ کے نزدیک کلام پاک کے ساتھ لاپرواہی برتنا بھی اس
کے مفہوم میں داخل ہو سکتا ہے متعدد احادیث میں کلام اﷲ شریف کے ساتھ بے پروائی پر
وعیدیں وارد ہوئی ہیں بخاری شریف کی اس طویل حدیث میں جس میں نبی کریمﷺ کو بعض
سزاؤں کی سیر کرائی گئی ایک شخص کا حال دکھلایا گیا جس کے سر پر ایک پتھر اس زور
سے مارا جاتا تھا کہ اس کا سر کچل جاتا تھا حضور ﷺکے دریافت فرمانے پر بتلایا گیا
کہ اس شخص کو حق تعالیٰ شانہ نے اپنا کلام پاک سکھلایا تھا مگر اس نے نہ شب کو اس
کی تلاوت کی نہ دن میں اس پر عمل کیا لہٰذا قیامت تک اس کے ساتھ یہی معاملہ رہے گا
حق تعالیٰ شانہ اپنے لطف کے ساتھ اپنے عزاب سے محفوظ رکھیں کہ درحقیقت کلام اﷲ
شریف اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے ساتھ بے توجہی پر جو سزا دی جاوے مناسب ہے ۔
۳۳۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ
عَمْرٍوؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُﷺاَلصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ
یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یِقُوْلُ الصِّیَامْ رَبِّ اِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ
وَالشَّرَابَ فِی النَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ وَیَقُوْلُ الْقُرْاٰنُ رَبِّ
مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِا لَّلیَلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ۔ (رواہ احمد وابن ابی الدنیا
والطبرانی فی الکبیر والحاکم وقال صحیح علی ما شرط مسلم)
عبداﷲ بن عمرؓو حضور ﷺسے نقل
کرتے ہیں کہ روزہ اور قرآن شریف دونوں بندہ کے لء شفاعت کرتے ہیں روزہ عرض کرتا ہے
کہ یا اﷲ میں نے اس کو د ن میں کھانے پینے سے روکے رکھامیری شفاعت قبول کیجئے اور
قرآن شریف کہتا ہے کہ یا اﷲ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا میری شفاعت قبول
کیجئے پس دونوں کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔
ترغیب میں الطعام والشراب کا لفظ
ہے جس کا ترجمہ کیا گیا حاکم میں شراب کی جگہ شہوات کا لفظ ہے یعنی میں نے روزہ
دار کو دن میں کھا نے اور خواہشات نفسانیہ سے روکا اس میں اشارہ ہے کہ روزہ دار کو
خواہشات نفسانیہ سے جدا رہنا چاہیے اگرچہ وہ جائز ہوں جیسا کہ پیار کرنا لپٹنا بعض
روایات میں آیا ہے کہ قرآن مجید جوانمرد کی شکل میں آئے گا اور کہے گا کہ میں ہی
ہوں جس نے تجھے راتوں کو جگایا اور دن میں پیاسا رکھا نیز اس حدیث شریف میں شارہ
ہے اس طرف کہ کلام اﷲ شریف کے حفظ کا مقتضی یہ ہے کہ رات کو نوافل میں اس کی تلاوت
بھی کرے حدیث نمبر ۲۷ میں اس کی تصریح بھی گذر چکی خود کلام پاک میں
متعدد جگہ اس کی ترغیب نازل ہوئی ایک جگہ ارشاد ہے وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْبِہٖ نَافِلَۃ
لَّکَ (سورہ بنی اسرائیل آیہ۔۷۹) دوسری جگہ ارشاد ہے وَمِنَ الَّلیْلِ فَاسْجُدْلَہٗ وَسَبِّحْہُ
لَیْلاً طَوِیْلً (سورہ دہر آیہ۔۲۶) ایک جگہ ارشاد ہے یَتْلُوْنَ اٰیَاتِ اللّٰہِ اٰنَآئَ اللَّیْلِ
وَھُمْ یَسْجُدُوْن(سورہ آل عمران آیہ۔۱۱۳) ایک جگہ ارشاد ہے وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ
سُجَّدًاوَّقِیَامًا (سورہ فرقان آیہ ۶۴)چنانچہ نبی کریم ﷺ اور حضرات صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو بعض
مرتبہ تلاوت کرتے ہوئے تمام تمام رات گزر جاتی تھی حضرت عثمان ؓسے مروی ہے کہ بعض
مرتبہ وتر کی ایک رکعت میں وہ تمام قرآن شریف پورا فرما لیا کرتے تھے سعید بن جبیر
نے دو رکعت میں کعبہ کے اندر تمام قرآن شریف پڑھا ثابت بنانی دن رات میں ایک قرآن
شریف ختم کرتے تھے اور اسی طرح ابو حرۃ ابو شیخ ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات
میں دو قرآن مجید پورے اور تیسرے میں سے دس پارے پڑھے اگر چاہتا تو تیسرا بھی پورا
کر لیتا صالح بن کیسان جب حج کو گئے تو راستے میں اکثر ایک رات میں دو کلام مجید
پورے کرتے تھے منصور بن زاذان صلوۃ الضحیٰ میں ایک کلام مجید اور دوسرا ظہر سے
عصر تک پورا کرتے تھیاور تمام رات نوافل میں گذارتے تھے اور اتنا روتے تھے کہ
عمامہ کا شملہ تر ہو جاتا تھا اس طرح اور حضرات بھی جیسا کہ محمد بن نصر نے قیام
اللیل می تخریج کیا ہے شرح احیاء میں لکھا ہے کہ سلف کی عادات ختم قرآن مجید میں
مختلف رہی ہیں بعض حضرات کاایک ختم روزانہ کرتے تھے جیسا کہ امام شافعی صاحب کا
معمول رمضان المبارک میں تھا اور یہی معمول اسود اور صالح بن کیسان سعید بن جبیر
اور ایک جماعت کا تھا بعض کا معمول تین ختم روزانہ کا تھا چنانچہ سلیم بن عتر جو
بڑے تابعین میں شمار کئے جاتے تھے حضرت عمر کے زمانے میں فتح مصر میں شریک تھیاور
حضرت معاویہ نے قصص کا امیر ان کو بنایا تھا ان کا معمول تھا کہ ہر شب میں تین ختم
قرآن شریف کے کرتے تھے نووی کتاب الازکار میں نقل کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ
مقدار جو تلاوت کے باب میں ہم کو پہنچی ہے وہ ابن الکاتب کا معمول تھاکہ دن رات
میں آٹھ قرآن شریف روزانہ پڑھتے تھے ابن قدامہ نے امام احمد سے نقل کیا ہے کہ اس
کی کوئی تحدید نہیں پڑھنے والے کے نشاط پر موقوف ہے اہل تاریخ نے امام اعظم سے نقل
کیا ہے کہ رمضان شریف میں اکسٹھ قرآن شریف پڑھتے تھے ایک دن کا اور ایک رات کا اور
ایک تمام رمضان شریف میں تراویح کا مگر حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین دن سے
کم میں ختم کرنے والا تدبر نہیں کرسکتا اسی وجہ سے بن جزم وغیرہ نے تین دن سے کم میں ختم کو حرام بتلایا ہے بندہ
کے نزدیک یہ حدیث شریف باعتبار اکثر افراد کے ہے اس لئے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے
اس سے کم میں پڑھنا بھی ثابت ہے اسی طرح زیادتی میں بھی جمہور کے نزدیک تحدید نہیں
جتنے ایام میں بسہولت ہو سکے کلام مجید ختم کر لے مگر بعض علماء کا مذہب ہے کہ
چالیس دن سے زائد ایک قرآن شریف میں خرچ نہ ہوں جس کا حاصل یہ ہے کہ کم از کم تین
پاؤ روزانہ پڑھنا ضروری ہے اگر کسی وجہ سے کسی دن نہ پڑھ سکے تو دوسرے دن اس کی
قضا کر لے غرض چالیس دن کے اندر اندر ایک مرتبہ کلام مجید پورا ہو جاوے جمہور کے
نزدیک اگرچہ یہ ضروری نہیں مگر جب بعض علماء کامذہب ہے تو احتیاط اس میں ہے کہ اس
سے کم نہ ہو نیز بعض احادیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہےصاحب مجمع نے ایک حدیث نقل
کی ہے من قراء القران فی اربعین لیلۃ فقد عزب جس شخص نے قرآن شریف چالیس رات میں
ختم کیا اس نے بہت دیر کی بعض علماء کا فتوی ہے کہ ہر مہینہ میں ایک ختم کرنا
چاہئے اور بہتر یہ ہے کہ سات روز میں ایک کلام مجید ختم کر لے کہ صحابہ کا معمول
عامۃً یہی نقل کیا جاتا ہے جمعہ کیروز شروع کرے اور سات روز میں ایک منزل روزانہ
کر کے پنجشنبہ کے روز ختم کر لے امام صاحب کا مقولہ پہلے گذر چکا کہ سا میں دو
مرتبہ ختم کرنا قرآن شریف کا حق ہے لہٰذا اس سے کم کسی طرح نہ ہونا چاہئے ایک حدیث
میں وارد ہے کہ کلام پاک کا ختم اگر دن کے شروع میں ہو تو تمام دن اور رات کے شروع
میں ہو تو تمام رات ملائکہ اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اس سے بعض مشائخ نے
استنباط فرمایا ہے کہ گرمی کے ایام میں دن کے ابتدا میں ختم کرے اور موسم سرما میں
ابتدائی شب میں تا کہ بہت سا وقت ملائکہ کی دعا کی میسر ہو۔
۳۴۔عَنْ سَعِیْدِ بْنِ
سُلَیْمٍ مُرْسلَاً قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺمَا مِنْ شَفِیْعٍ
اَفْضَلُ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنَ الْقُرْاٰنِ لَا
نَبِیٌّ وَلَا مَلَکٌ وَلَاغَیْرُہٗ۔(قال العراقی رواہ عبدالملک بن حبیب کذافی شرح الاحیائ)
سعید بن سلیم حضور اکرم ﷺ کا
ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اﷲ کے جزدیک کلام پاک سے بڑھ کر کوئی سفارش
کرنیوالانہ ہو گا نہ کوئی نبی ؑنہ فرشتہ وغیرہ۔
کلام اﷲ شریف کا شفیع اور اس
درجہ کا شفیع ہوناجس کی شفاعت مقبول ہے اور بھی متعدد روایات سے معلوم ہو چکا حق
تعالیٰ شانہ اپنے فضل سے میرے اور تمہارے لئے اس کو شفیع بنا دے نہ کہ فریق مخالف
اور مدعی لالی مصنوعہ ( نام کتاب) میں بزار کی روایت سے نقل کیا ہے اور وضع کا حکم
بھی اس پر نہیں لگایا کہ جب آدمی مرتا ہے تو اس کے گھر کے لوگ تجہیز و تکفین میں
مشغول ہوتے ہیں اور اس کے سرہانے نہایت حسین و جمیل صورت میں ایک شخص ہوتا ہے جب
کفن دیا جاتا ہے تو وہ شخص کفن کے اور سینہ کے درمیان ہوتا ہے جب دفن کرنے کے بعد
لوگ لوٹتے ہیں اور منکر نکیر آتے ہیں تو وہ اس شخص کو علیحدہ کرنا چاہتے ہیں کہ
سوال یکسوئی میں کریں مگر یہ کہتا ہے یہ میرا ساتھی ہے میرا دوست ہے میں کسی حال
میں بھی اسکو تنہا نہیں چھوڑ سکتا تم سوالات کے اگر مامور ہو تو اپنا کام کرو میں
اس وقت تک اس سے جدا نہیں ہو سکتا کہ جنت میں داخل کراؤں اس کے بعد وہ
اپنے ساتھی کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے کہ میں ہی وہ قرآن ہوں جسکو تو کبھی بلند پڑھتا تھا اور کبھی آہستہ
تو بے فکر رہ منکر نکیر کے سوالات کے بعد تجھے کوئی غم نہیں ہے اس کے بعد جب وہ
اپنے سوالات سے فارغ ہو جاتے ہیں تو یہ ملا اعلی سے بستر وغیرہ کا انتظام کرتا ہے
جو ریشم کا ہوتا ہے اور اس کے درمیان مشک بھرا ہوا ہوتا ہے حق تعالیٰ اپنے فضل سے
مجھے بھیً نصیب فرماویں اور تمہیں بھی یہ حدیث بڑے فضائل پر شامل ہے جس کو تطویل
کے خوف سے مختصر کر دیا ہے ۔
۳۵۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍؓو اَنَّ
رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَرَأَ
الْقُرْاٰنَ فَقَدِ اسْتَدْرَجَ النُّبُوُّۃَ بَیْنَ جَنْبَیْہِ غَیَر اَنَّہٗ
لَا یُوْحٰی اِلَیْہِ لَایَنْبَغِیْ لِصَاحِبِ الْقُرْاٰنِ اَنْ یَّجِدَ مَعَ مَنْ
وَّجَدَ وَلَا یَجْھَلَ مَعَ مَنْ جَھِلَ وَ فِیْ جَوْ فِہٖ کَلَامُ اللّٰہِ۔
(رواہ الحاکم وقال صحیح الاسناد)
عبداﷲ بن عمرو نے حضور اقدس ﷺ کا
ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کلام اﷲ شریف پڑھا اس نے علوم نبوت کو اپنی پسلیوں
کے درمیان لے لیا گو اسکی طرف وحی نہیں بھیجی جاتی حامل قرآن کیلئے مناسب نہیں کہ
غصہ والوں کیساتھ غصہ کرے یا جاہلوں کیساتھ جہالت کرے حالانکہ اسکے پیٹ میں اﷲ کا
کلام ہے ۔
چونکہ وحی کا سلسلہ نبی کریم ﷺ
کے بعد ختم ہو گیا اس لئے وحی تو اب آ نہیں سکتی لیکن چونکہ یہ حق سبحانہ و تقدس
کا پاک کلام ہے اس لئے علم نبوت ہونے میں کیا تامل ہے اور جب کوئی شخص علوم نبوت
سے نوازا جاوئے تو نہایت ہی ضروری ہے کہ اس کے مناسب اخلاق پیدا کرے اور برے اخلاق
سے احتراز کرے فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ حافظ قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والا ہے
اس کیلئے مناسب نہیں کہ لہو و لعب میں لگنے والوں میں لگ جاوے یا عافلین میں شریک
ہو جاوے یا بے کار لوگوں میں داخل ہو جاوے ۔
۳۶۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃ لَا یَھُوْ لُھُمْ الْفَزَعُ الْا کْبَرُ وَ
لَا یَنَا لُھُمُ الْحِسَابُ ھُمْ عَلٰیَ کَثِیْبٍ مِّنْ مِّسْکٍ حَتّٰی یُفْرَغَ
مِنْ حِسَابِ الْخَلَآئِقِ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ اِبْتِغَآئَ وَجْہِ
اللّٰہِ وَاَمَّ بٖہ قَوْمًا وَھُمْ بِہٖ رَاضُوْنَ وَدَاعٍ یَّدْ عُوْاِلَی
الصَّلٰواتِ ابْتِغَأَ وَجْہِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ اَحْسَنَ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَ
بَیْنَ رَبِّہٖ وَفِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ مَوَالِیْہِ۔ (رواہ الطبرانی فی المعا
جم الثلا ثۃ)
ابن عمرؓ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد
نقل کرتے ہیں کہ تین آدمی ایسے ہیں جنکو قیامت کا خوف دامن گیر نہ ہو گا نہ انکو
حساب کتاب دینا پڑیگا اتنے مخلوق اپنے حساب کتاب سے فارغ ہو وہ مشک کے ٹیلوں پر
تفریح کرین گے ایک وہ شخص جس نے اﷲ کے واسطے قرآن شریف پڑھا اور امامت کی اس طرح
پر کہ مقتدی اس سے راضی رہے دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز کیلئے بلاتا ہو صرف اﷲ
کے واسطے تیسرا وہ شخص جو اپنے مالک سے بھی اچھا معاملہ رکھے اور اپنے ماتحتوں سے
بھی قیامت کی سختی اس کی دہشت اس کا خوف اس کی مصیبتیں اور تکالیف ایسی
نہیں کہ کسی مسلمان کا دل اس سے خالی ہو یا بے خبر ہو اس دن میںکسی بات کی وجہ سے
بے فکری نصیب ہو جاوے یہ بھی لاکھوں نعمتوں سے بڑھ کر اور کروڑوں راحتوں سے مغتنم
ہے پھر اس کے ساتھ اگر تفریح و تنعم بھی نصیب ہو جاوے تو خوش نصیب اس شخص کے جس کو
یہ میسر ہو اور بربادی و خسران ہے ان بے حسوں کے لئے جو اس کو لغو بیکار اور اضاعت
وقت سمجھتے ہیں معجم کبیر میں اس حدیث شریف کے شروع میں روایت کرنے والے صحابی
عبداﷲ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ اگر میں نیاس حدیث کو حضور اقدس ﷺ سے ایک مرتبہ اور
ایک مرتبہ اور ایک مرتبہ غرض سات دفعہ یہ لفظ کہا یعنی اگر سات مرتبہ نہ سنا ہوتا
کبھی نقل نہ کرتا ۔
۳۷۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَآ اَبَاذَرٍّ لَاَنْ
تَغْدُ وَ فَتَعَلَّمَ آٰیَۃً مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ خَیْرٌلَّکَ مِنْ اَنْ
تُصَلِّیَ مِا ئَۃَ رَکْعَۃٍ وَلَاَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَا بًا مِّنَ
الْعِلْمِ عُمِلَ بِہٖ اَوْ لَمْ یُعْمَلْ بِہٖ خَیْرٌ
مِّنْ اَنْ تُصَلِّیَ اَلْفَ رَکْعَۃٍ۔ (رواہ ابن ماجۃ با سنادحسن)
ابوذر کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ے ارشاد فرمایا کہ اے ابو ذر اگر
تو صبح کو جا کر ایک آیت کلام اﷲ شریف کی سیکھ لے تو نوافل کی سو رکعات سے افضل ہے
اور اگر ایک باب علم کا سیکھ لے خواہ اس وقت وہ معمول بہ ہو یا نہ ہو تو ہزار
رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے ۔
بہت سے احادیث اس مضمون میں وارد
ہیں کہ علم کا سیکھنا عبادت سے افصل ہے فضائل علم میں جس قدر روایات وارد ہوئی ہیں
ان کا احاطہ بالخصوص اس مختصر رسالہ میں دشوار ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ عالم کی
عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسا کہ میری فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر ایک جگہ ارشاد ہے
کہ شیطان پر ایک فقیہہ ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔
۳۸۔ عَنَ اَبِیْ
ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ
عَشْرَاٰیَاتٍ فِیْ لَیْلَۃٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ۔ (رواہ الحاکم
وقال صحیح علی شرط مسلم)
ابو ہریرہ نے حضور اکرم ﷺ سے نقل
کیا ہے کہ جو شخص دس آیتوں کی تلاوت کسی رات میں کرے وہ اس رات میں غافلین سے شمار
نہیں ہو گا ۔
دس آیات کی تلاوت سے جس کے پڑھنے
میں چند منٹ صرف ہوتے ہیں تمام رات کی غفلت سے نکل جاتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا
فضیلت ہو گی ۔
۳۹۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَ
یْرَۃؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺمَنْ حَافَظَ عَلٰی ھٰؤُ
لَاْئِ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ لَمٌ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَمَنْ
قَرَأَفِیْ لَیْلَۃٍ مِائَۃَ اٰیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِیْنَ۔ (رواہ ابن خزیمۃ
فی صحیحہ والحاکم وقال صحیح علی شرطھما)
ابو ہریرہ ؓنے حضور اکرم ﷺ کا
ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص ان پانچوں فرض نمازوں پر مداومت کرے وہ غافلین سے نہیں
لکھا جاوے گا جو شخص سو آیات کی تلاوت کسی رات میں کرے وہ اس رات میں قانتین سے
لکھا جاوے گا ۔
حسن بصری نے حضور اکرم ﷺ سے نقل
کیا ہے کہ جو شخص سو آیتیں رات کو پڑھے کلام اﷲ شریف کے مطالبے سے بچ جاوے گا جو
دو سو پڑھ لے اس کیلئے ایک قنطار ہے صحابہ نے پوچھا کہ قنطار کیا ہوتاہے حضور نے
ارشاد فرمایا کہ بارہ ہزار کے برابر ( درہم مراد ہوں یا دینار)
۴۰۔ عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍؓ
قَالَ نَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَام عَلٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَاَ خْبَرَہٗ اَنَّہٗ
سَتَکُوْنُ فِتَنٌ قَالَ فَمَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا جِبْرَئِیْل قَالَ کِتَابُ
اللّٰہِ۔ (رواہ زین کذافی الرحمۃ المھداۃ)
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت
جبرئیلں نے حضور اقدس ﷺ کو اطلاع دی کہ بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے حضور نے دریافت
فرمایا کہ انسے خلاصی کی کیا صورت ہے انہوں نے کہا کہ قرآن شریف ۔
کتاب اﷲ پر عمل بھی فتنوں سے
بچنے کا کفیل ہے اور اس کی تلاوت کی برکت بھی فتنوں سے خلاصی کا سبب ہے حدیث نمبر ۲۲ میں گذر چکا کہ جس گھر میں کلام
پاک کی تلاو ت کی جاتی ہے سکینہ اور رحمت اس گھر میں نازل ہوتی ہے اور شیاطین اس
گھر سے نکل جاتے ہیں فتنوں سے مر ا د خروج دجال فتنہ تاتار وغیرہ علماء نے بتلائے
ہیں حضرت علیؓ سے بھی ایک طویل روایت میں حدیث بالا کا مضمون وارد ہوا ہے کہ حضرت
علیؓ کی روایت میں وارد ہے کہ حضرت یحییٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ حق
تعالیٰ شانہ تم کو اپنے کلام کے پڑھنے کا حکم فرماتا ہے اور اسکی مثال ایسی ہے کہ
جیسے کوئی قوم اپنے قلعہ میں محفوظ ہو اور اسکی طرف کوئی دشمن متوجہ ہو کہ جس جانب
سے بھی وہ حملہ کرنا چاہے اسی جانب میں اﷲ کے کلام کو اسکا محافظ پاوے گا اور وہ
اس دشمن کو دفع کر د یگا ۔
خٰاتِمَہ
فی غدۃ روایات زائدۃ علی الاربعنۃ لا بد منذکرھا
لاغراض تناسب المقام
۱۔ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ
بْنِ عُمَیْرٍ مُرْ سَلًا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِیْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ شِفَآئٌ مِّنْ کُلِّ
دَائٍ۔ (رواہ الدارمی والبیھقی فی شعب الا یمان)
عبدالملک بن عمیر حضور اکرم ﷺ کا
ارشاد نقل کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ میں ہر بیماری سے شفاء ہے ۔
خاتمہ میں بعض ایسی سورتوں کے
فضائل ہیں جو پڑھنے میں بہت مختصر لیکن فضائل میں بہت بڑھی ہوئی ہیں اور اسی طرح
دو ایک ایسے خاص امر ہیں جن پر تنبیہہ قرآن پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے ۔
سورہ فاتحہ کے فضائل بہت سے
روایات میں وارد ہوء ہیں ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابی نماز پڑھتے تھے حضورﷺ
نے ان کو بلایا وہ نماز کی وجہ سے جواب نہ دے دکے جب فارغ ہو کر حاضر ہوئے تو
حضورﷺ نے فرمایا کہ قرآن شریف کی آیت میں نہیں پڑھا { یٰاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُم } (سورہ انفال آیہ ۲۴) ( اے ایمان والوں اﷲ اور اس کے
رسول کی پکار کا جواب دو جب بھی وہ تم کو بلاویں ) پھر حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
تجھے قرآن شریف کی سب سے بڑی سورت یعنی سب سے افضل بتلاؤں پھر حضورﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ وہ الحمد کی سات آیتیں ہیں یہ سبع مثانی ہیں اور قرآن عظیم بعض صوفیاء
سے منقول ہے کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں آ گیا اور جو کلام
پاک میں وہ سب سورہ فاتحہ میں آ گیا اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ بسم اﷲ میں آ گیا
اور جو بسم اﷲ میں ہے وہ اس کی ب میں آ گیا اس کی شرح بتلاتے ہیں کہ ب کے معنی اس
جگہ ملانے کے ہیں اور مقصود سب چیز سے بندہ کا اﷲ جل شانہ کے ساتھ ملا دینا ہے بعض
نے اس کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ ب میں جو کچھ ہے وہ اس کے نقطہ میں آ گیا یعنی
وحدانیت کہ نقطہ اصطلاح میں کہتے ہیں اس چیز کو جس کی تقسیم نہ ہو سکتی ہو بعض
مشائخ سے منقول ہیکہ ایاک نعبد و ایک نستعین میں تمام مقاصد دینی و دنیوی آ گئے
ایک دوسری روایت میں حضور ﷺکا ارشاد وارد ہوتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں
میری جان ہے کہ اس جیسی سورت نازل نہیں ہو ئی نہ توراۃ میں نہ انجیل میں نہ زبور
نہ بقیہ قرآن پاک میں مشائخ نے لکھا ہے کہ اگرسورہ فاتحہ کو ایمان و یقین کے ساتھ
پڑھے تو ہر بیماری سے شفاء ہوتی ہے دینی ہو یا دنیوی ظاہری ہو یا باطنی لکھ کر
لٹکانا اور چاٹنا بھی امراض کے لئے نافع ہے صحاح کی کتابوں میں وارد ہے کہ صحابہ
نے سانپ بچھو کے کاٹے ہوؤں پر اور مرگی والوں پر اور دیوانوں پر سورہ فاتحہ پڑھ کر
دم کیا اور حضورﷺ نے اس کو جائز بھی رکھا نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ سائب بن
یزید پر حضورﷺ نے اس سورت کو دم فرمایا اور یہ سورت پڑھ کر لعاب دہن درد کی جگہ
لگایا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سونے کے ارادہ سے لیٹے اور سورہ فاتحہ
اور قل ہو اﷲ احد پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لے موت کے سوا ہر بلا سے امن پاوے ایک
روایت میں آیا ہے کہ سورہ فاتحہ ثواب میں دو تہائی قرآن کے برابر ہے ایک روایت میں
آیا ہے کہ عرش کے خاص خزانہ سے مجھ کو چار چیزیں ملی ہیں کہ اور کوئی چیز اس خزانہ
سے کسی کو نہیں ملی (۱) سورہ فاتحہ(۲) آیتہ الکرسی (۳) سورہ بقرہ کی آخری آیات اور (۴) سور کوثر ایک روایت میں آیا ہے
کہ حسن بصری حضور ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ جس نے سورہ فاتحہ کو پڑھا اس نے تویا توراۃ
انجیل زبور اور قرآن شریف کو پڑھا ایک روایت میں آیا ہے کہ ابلیس کو اپنے اوپر نوحہ
اور زاری اور سر پر خاک ڈالنے کی چار مرتبہ نوبت آئی اول جب کہ اس پر لعنت ہوئی
دوسرے جب کہ اس کو آسمان سے زمین پر ڈالا گیا تیسرے جب کہ حضور اکرمﷺ کو نبوت ملی
چوتھے جب کہ سورہ فاتحہ نازل ہوئی شعبی سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور
درد گردہ کی شکایت کی شعبی نے کہا کہ اساس القرآن پڑھ کر درد کی جگہ دم کر اس نے
پوجھا کہ اساس القرآن کیا شعبی نے کہا سورہ فاتحہ مشائخ کے اعمال مجرب میں لکھا ہے
کہ سرہ فاتحہ اسم اعظم ہے ہر مطلب کے لئے پڑھنی چاہئے اوراس کے دو طریقے ہیں ایک
یہ کہ عبح کی سنت اور فرض کے درمیان بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے میم کے ساتھ الحمد ﷲ
کا لام ملا کر اکتالیس بار چالیس دن تک پڑھے جو مطلب ہو گا انشا ء اﷲ تعالی حاصل
ہو گا اور اگر کسی مریض یا جادو کئے ہوئے کے لئے ضرورت ہو تو پانی پر دم کر کے اس
کو پلاوے دوسرے یہ کہ نو چندی اتوار کو صبح کی سنت اور فرض کے درمیان بلا قید میم
ملانے کے ستربار پڑھے اور اس کے بعد ہر روز اسی وقت پڑھے اور دس دس بار کم کرتا
جاوے یہاں تک کہ ہفتہ ختم ہوجاوے اول مہینے میں اگر مطلب پورا ہو جاوے تبہا ورنہ
دوسرے تیسرے مہینے میں اسی طرح کرے نیز اس سورت کا چینی کے برتن پر گلاب اور مشک و
زعفران سے لکھ کر اور دھو کر پلانا چالیس روز تک امراض مزمنہ کے لئے مجرب ہے نیز دانتوں کے درد اور سر کے درد پیٹ کے درد
کے لئے سات بار پڑھ کر دم کرنا مجرب ہے ( یہ سب مضمون مظاہر حق سے مختصر طور پر نقل کیا گیا)
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ابن
عباس ؓسے روایت ہے کہ حضورﷺ ایک مرتبہ تشریف فرما تھے حضور ﷺنے فرمایا کہ آسمان کا
ایک دروازہ آج کھلا ہے جو آج سے قبل کبھی نہیں کھلا تھا پھر اس میں سے ایک فرشتہ
نازل ہوا حضورﷺ نے نے فرمایا کہ یہ ایک فرشتہ نازل ہوا جو آج سے قبل کبھی نازل
نہیں ہوا تھا پھر اس فرشتہ نے عرض کیا کہ دو نوروں کی بشارت لیجئے جو آپ سے قبل
کسی کو نہیں دیئے گئے ایک سورہ فاتحہ دوسرا خاتمہ سورہ بقرہ یعنی سورہ بقرہ کا اخیر رکوع ان
کو نور اس لئے فرمایا کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے آگے آگے چلیں گے ۔
۲۔ عَنْ عَطَآئِ بْنِ
اَبِیْ رَبَاحٍؒ قَالَ بَلَغَنِیْ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْْ قَرَأَ یٰسٓ فِیْ صَدْرِ النَّھَارِ قُضِیَتْ حَوَآئِجُہ‘۔
(رواہ الدارمی)
عطا بن ابی رباح کہتے ہیں کہ
مجھے حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد پہنچا ہے کہ جو شخص سورہ یسین کو شروع دن مین پڑھے اس
کی تمام دن کی حوائج پوری ہو جائیں ۔
احادیث میں سورہ یس کے بھی بہت
سے فضائل وارد ہوئے ہیں ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک دل ہوا
کرتا ہے قرآن شریف کا دل سورہ یس ہے جو شخص سورہ یس پڑھتا ہے حق تعالیٰ شانہ اس کے
لء دس قرآنوں کا ثواب لکھتا ہے ایک روایت میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے سورہ طہ
اور سورہ یس کو آسمان و زمیں کے پیدا کرنے سے ہزار برس پہلے پڑھا جب فرشتوں نے سنا
تو کہنے لگے کہ خوشحالی ہے اس امت کے لئے جن پر یہ قرآن اتارا جائے گا اور
خوشحالی ہے ان دلوں کے لئے جو اس کو اٹھائیں گے یعنی یاد کریں گے اور خوشحالی ہے
ان زبانوں کے لئے جو اس کو تلاوت کریں گی ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ یس کو
صرف اﷲ کی رضا کے واسطے پڑھے اس کے پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں پس اس سورۃ کو
اپنے مردوں پر پڑھا کرو ایک روایت مین آیا ہے کہ سورہ یس کا نام توراۃ میںمنعمہ ہے
کہ اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائیوں پر مشتمل ہے ا ور یہ دنیا و
آخرت کی مصیبت کو دور کرتی ہے اور آخرت کی ہول کو دور کرتی ہے اس سورۃ کا
نام رافعہ خافضہ بھی ہے یعنی مومنوں کے رتبے بلند کرنے والی اور کافروں
کو پست کرنے والی ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا
دل چاہتا ہے کہ سورہ یس میرے ہر امتی کے دل میں ہو ایک روایت میں ہے کہ جس نے سورہ
یس کو ہر رات مین پڑھا پھر مر گیا تو شہید مرا ایک روایت میں ہے کہ جو یس کو پڑھتا
ہے اس کی مغفرت کی جاتی ہے اور جو بھوک کی حالت میں پڑھتا ہے وہ سیر ہو جاتا ہے
اور جو راستہ گم ہوجانے کی وجہ سے پڑھتا ہے وہ راستہ پا لیتا ہے اور جو شخص
جانور کے گم ہوجانے کی وجہ سے پڑھے وہ پالیتا ہے اور جو ایسی حالت میں پڑھے کہ
کھانا کم ہوجانیکا خوف ہو تو وہ کھانا کافی ہو جاتا ہے اورجو ایسے شخص کے پاس پڑھے
جو نزع مین ہو تو اس پر نزع میں اسانی ہو جاتی ہے اور جوایسی عورت پر پڑھے جس کے
بچہ ہونے میں دشواریہو رہی ہو اس کے لئے بچہ جننے میں سہولت ہوتی ہے مقری کہتے ہیں
کہ جب بادشاہ یا دشمن کا کوف ہو اور اس کے لئے سورہ یس پڑھے تو وہ خوف جاتا رہتا
ہے ایک روایت مین آتا ہے کہ جس نیسورہ یس اور والصفت جمعہ کے دن پڑھی اور پھر اﷲ
سے دعا کی اس کی دعا پوری ہوتی ہے( اس کا بھی اکثر مظاہر حق سے منقول ہے مگر مشائخ
حدیث کو بعض روایات کی صحت میں کلام ہے )۔
۳۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ سُوْرَۃَ
الْوَاقِعَۃِ فِیْ کُلِّ لَیْلَۃٍ لَّمْ تُصِبْہُ فَاقَۃٌ اَبَدًا وَّکَانَ ابْنُ
مَسْعُوْدٍ یَاْمُرُ بَنَاتِہٖ یَقْرَأْنَ بِھَا کُلَّ لَیْلَۃٍ۔ (رواہ البیھقی
فی الشعب)
ابن مسعود ؓنے حضور ﷺکا یہ ارشاد
نقل کیا ہے کہ جو شخص ہر رات کو سورہ واقعہ پڑھے اس کو کبھی فاقہ نہیں ہوگااور ابن
مسعودؓ اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہر شب میں اس سورۃ کو پڑھیں۔
سورہ واقعہ کے فصائل بھی متعدد
روایات میں وارد ہوئے ہیں ایک روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سورہ حدید اور سورہ
واقعہ اور سورہ رحمن پڑھتا ہے وہ جنت الفردوس کے رہنے والوں میں پکارا جاتا ہے ایک
روایت میں ہے کہ سورہ واقعہ سورۃ الغنی ہے اس کو پڑھو اور اپنی اولاد کو سکھاؤ ایک
روایت میں ہے کہ اس کو اپنی بیبیوں کو سکھاؤ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بھی اس
کے پڑھنے کی/span تاکید
منقول ہے مگر بہت ہی پست خیالی ہے کہ چار پیسے کے لئے اس کو پڑھا جاوے البتہ اگر
غنائے قلب اور آخرت کی نیت سے پڑھے تو دنیا خود بخود ہاتھ جوڑ کر حاضر ہو گی۔
۴۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃؓ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ سُوْرَۃً فِی
الْقُرْاٰنِ ثَلَثُوْنَ آٰیَۃً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتّٰی غُفِرَلَہ‘ وَھِیَ
تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ۔ (رواہ ابوداود واحمد
والنسائی وابن ماجۃ والحاکم و صححہ و ابن حبان فی صحیحہ(
ابو ہریرہ نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد
نقل کیا ہے کہ قرآن شریف میں ایک سورت تیس آیات کی ایسی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے
کی شفاعت کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی مغفرت کرا دے وہ سورت تبارک الذی ہے ۔
سورہ تبارک الذی کے متعلق بھی
ایک روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد آیا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ سورۃہر مومن کے
دل میں ہو ایک روایت میں ہے کہ جس نے تبارک الذی اور الم سجدہ کو مغرب اور عشاء کے
درمیان پڑھا تویا اس نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایک روایت میں ہے کہ جس نے ان
دونوں سورتوں کو پڑھا اس کے لئے ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ستر برائیاں دور کی جاتی ہیں
ایک روایت میں ہے کہ جس نے ان دونوں سورتوں کو پڑھااس کے لئے عبادت لیلۃ القدر کے
برابر ثواب لکھا جاتا ہے
( کذافی المظاہر(
ترمزی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے
کہ بعض صحابہ نے ایک جگہ خیمہ لگایا ان کو علم نہ تھا کہ وہاں قبر ہے اچانک ان
خیمہ لگانے والوں نیاس جگہ کسی کو سورہ تبارک الذی پڑھتے ہوئے سنا تو حضور سے آکر
عرض کیا حضور ﷺنے فرمایا کہ یہ سورۃ اﷲ کے عذاب سے روکنے والی ہے اور نجات دینے
والی ہے حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ اس وقت تک نہ سوتے تھے جب تک الم سجدہ اور
سورہ تبارک الذی نہ پڑھ لیتے تھے خالد بن معدا ن کہتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے
کہ ایک شخص بڑا گناہ گار تھا اور سورہ سجدہ پڑھا کرتا تھا اس کے علاوہ اور کچھ
نہیں پڑھتا تھا اس سورت نے اپنے پر اس شخص پر پھیلا دیئے کہ اے رب یہ شخص میری بہت
تلاوت کرتا تھا اس کی شفاعت قبول کی گئی اور حکم ہو گیا کہ ہر خطا کے بدلے ایک
نیکی دی جائے خالد بن معدان یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی طرف سے
قبر میں جھگڑتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر میں تیری کتاب میں سے ہوں تو میری شفاعت
قبول ورنہ مجھے اپنی کتاب سے مٹا دے اور بمنزلہ پرندہ کے بن جاتی ہے اور اپنے پر میت پر پھیلا یتی ہے اور اس پر عذاب قبر ہونے سے
مانع ہوتی ہے اور یہی سارا مضمون وہ تبارک الذی کے بارے میں بھی کہتے ہیں خالد بن
معدان اس وقت تک نہ سوتے تھے جب تک دونوں سورتیں نہ پڑھ لیتے طاؤس کہتے ہیں کہ یہ
دونوں سورتیں تمام قرآن کی ہر سورۃ پر ساٹھ نیکیاں زیادہ رکھتی ہیں عذاب قبر کوئی
معمولی چیز نہیں ہر شخص کو مرنے کے بعد سب سے پہلے قبر سے سابقہ پڑتا ہے حضرت
عثمان جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ ریش مبارک تر ہو جاتی کسی نے
پوچھا کہ آپ جنت و جہنم کے تذکرہ سے بھی اتنا نہیں روتے جتنا کہ قبر سے آپ نے
فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ قبر منازل آخرت میں سب سے پہلی منزل ہے
جو شخص اس کے عزاب سے نجات پا لے آئندہ کے واقعات اس کیلئے سہل ہوتے ہیں اور اگر
اس سے نجات نہ پائے تو آنے والے حوادث اس سے سکت ہوتے ہیں نیز میں نے یہ بھی سنا
ہے کہ قبر سے زیادہ متوحش کوئی منظر نہیں ( جمع الفوائد)۔اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ بِفَضْلِکَ وَ
مَنِّک۔
۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ
اَنِّ رَجُلًا قَالَ یاَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَیُّ
الْاَعْمَالِ اَفْضَلُ قَالَ الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ
مَا الحَالُّ الْمُرْتَحِلُ قَالَ صَاحِبُ الْقُرْاٰنِ یَضْرِبُ مِنْ اَوَّلِہٖ
حَتّٰی یَبْلُغَ آٰخِرَہٗ وَمِنْ آخِرِہٖ حَتَّی یَبْلُغَ اَوَّلَہٗ کُلَّمَا
حَلَّ اِرْتَحَلَ۔ (رواہ الترمذی کمافی الرحمۃ والحاکم وقال تفردبہ صالح المری
وھومن زھاد اھل البصرۃ الا ان الشیخین لم یخرجاہ وقال الذھبی صالح متروک قلت ھو من
رواۃابی داؤدوالترمذی(
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضور اقدس
ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ بہترین اعمال میں سے کونسا عمل ہے آپﷺ نے رشاد
فرمایا کہ حال مرتحل لوگوں نے پوجھا کہ حال مرتحل کیا چیز ہے حضورﷺ نے ارشاد
فرمایاکہ وہ صاحب القرآن ہے جو اول سے چلے حتیٰ کہ آخیر تک پہنچے اور اخیر کے بعد
پھر اول پر پہنچے جہاں ٹھہرے پھر آ گے چل دے ۔
حال کہتے ہیں منزل پر آنیوالے کو
اور مرتحل کوچ کرنے والیکو یعنی یہ کہ جب کلام پاک ختم ہو جایے تو پھر از سر نو
شروع کر لے یہ نہیں کہ بس اب ختم ہو گیا دوبارہ پھر دیکھآ جائے گا کنز العمال کی
ایک روایت میں اس کی شرح وارد ہوئی ہے الخاتم المفتح ختم کرنے والا اور
ساتھ ہی شروع کرنے والا یعنی ایک قرآن ختم کرنے کے بعد ساتھ ہی دوسرا شروع کر لے
اسی سے غالباً وہ عادت ماخوز ہے جو ہمارے صیار میں متعارف ہے کہ ختم قرآن شریف کے
بعد مفلحون تک پڑھا جاتا ہے مگر اب لوگ اسی کو مستقل ادب سمجھتے ہیں اور پھر پورا کرنے
کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ ایسا نہیں بلکہ دراصل معاً دوسرا قرآن شریف شروع کرنا
بظاہر مقصود ہے جس کو پورا بھی کرنا چا ہئے شرح احیاء میں اور علامہ سیوطی نے
اتقان میں بروایت دارمی نقل کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب قل اعوذ برب الناس پڑھا کرتے
تو سورہ بقرہ سے مفلحون تک ساتھ ہی پڑھتے اور اس کے بعد ختم قرآن کی دعا فرماتے
تھے ۔
۶۔ عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی
الْاَشْعَرِیّؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعَا ھَدُوا الْقُرْاٰنَ فَوَ الَّذِیْ
نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَھُوَ اَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الاِبِلِ فِیْ عُقُلِھَا۔(رواہ
البخاری و مسلم(
ابو موسی اشعری نے حضور اکرم ﷺ
سے نقل کیا ہے کہ قرآن شریف کی خبر گیری کیا کرو قسم ہے اس ذات پاک کی کہ جسکے
قبضہ میں میری جان ہے کہ قرآن پاک جلد نکل جانے والا ہے سینوں سے بہ نسبت اونٹ کے
اپنی رسیوں سے ۔
یعنی آدمی اگر جانور کی حفاظت سے
غافل ہو جاوے اور وہ رسی سے نکل جاوے تو بھاگ جاوے گا اسی طرح کلام پاک کی اگر
حفاظت نہ کی جاوے تو وہ بھی یاد نہیں رہے گا اور بھول جاوے گا اور اصل بات یہ ہے
کہ کلام اﷲ شریف کا حفظ یاد ہو جانا در حقیقت یہ خود قرآن شریف کا ایک کھلا ہوا معجزہ
ہے ورنہ اس سے آدھی تہائی مقدار کی کتاب بھی یاد ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ قریب یہ
محال ہے اسی وجہ سے حق تعالیٰ شانہ نے اس کے یاد ہو جانے کو سورہ قمر میں بطور
احسان کے ذکر فرمایا اور بار بار اس پر تنبیہہ فرمائی وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ
مِنْ مُّدَّکِرٍ ( سورہ قمر آیہ ۴۰)کہ ہم نے قرآن پاک کو حفظ کرنے کے لئے سہل کر رکھا ہے کوئی ہے حفظ
کرنے والا صاحب جلالین نے لکھا ہے کہ استفہام اس آیت میں امر کے معنی میں ہے تو جس
چیز کو حق تعالیٰ شانہ بار بار تاکید سے فرما رہے ہوں اس کو ہم مسلمان لغو اور
حماقت اور بیکار اضاعت وقت سے تعبیر کرتے ہوں اس حماقت کے بعد پھر بھی ہماری تباہی
کے لئے کسی اور چیز کے انتظار کی ضرورت باقی ہے تعجب کی بات ہے کہ حضرت عزیر ؑاگر
اپنی یاد سے تورات لکھا دیں تو اس کی وجہ سے اﷲ کے بیٹے پکارے جاویں اور مسلمانوں
کے لئے اﷲ جل شانہ نے اس لطف و احسان کو عام فرما رکھا ہے تو اس کی یہ قدر دانی کی
جاوے فَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآاَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ بالجملہ یہ محض حق تعالیٰ شانہ
کا لطف و انعام ہے کہ یہ یاد ہو جاتا ہے اس کے بعد اگر کسی شخص کی طرف سے بے توجہی
پائی جاتی ہے تو اس سے بھلا دیا جاتا ہے قرآن شریف پڑھ کر بھلا دینے میں بڑی سخت
وعیدیں آئی ہیں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھ پر امت کے گناہ پیش کئے گئے میں نیاس سے بڑھ کر
کوئی گناہ نہیں پایا کہ کوئی شخص قرآن شریف پڑھ کر بھلا دے دوسری جگہ ارشاد ہے کہ
جو شخص قرآن شریف پڑھ کر بھلا دے قیامت کے دن اﷲ کے دربار میں کوڑھیحاضر ہو گا جمع
الفوائد میں رَزِین کی روایت سے آیت ذیل کو دلیل بنایا ہے قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْ تَنِیْ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا جو شخص ہمارے ذکر سے اعراض کرتا
ہے اس کی زندگی تنگ کر دیتے ہیں اور قیامت کے روز اس کو اندھا اٹھائیں گے وہ عرض
کرے گا کہ یا اﷲ میں تو آنکھوں والا تھامجھے اندھا کیوں کر دیا ارشاد ہو گا اس لئے
کہ تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں اور تو نے ان کو بھلادیا پس آج تو بھی اسی طرح بھلا
دیا جائے گا یعنی تیری کوئی اعانت نہیں ۔
۷۔ عَنْ بُرَؓیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ یَتَاَ کَّلُ بِہِ النَّاسَ
جَآئَ یَومَالْقِیَامَۃِ وَوَجْھُہٗ عَظْمٌ لَیْسَ عَلَیْہِ لَحْمٌ۔ (رواہ
البیھقی فی شعب الایمان(
بریدہ نے حضور اقدس ﷺ کا یہ
ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے تا کہ اس کی وجہ سے کھاوے لوگوں سے قیامت کے
دن وہ ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کاچہرہ محض ہڈی ہو گا جس پر گوشت نہ ہوگا ۔
یعنی جو لوگ قرآن شریف کو طلب دنیا کی غرض سے پڑھتے ہیں ان
کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہم قرآن شریف پڑھتے ہیں اور
ہم میں عجمی و عربی ہر طرح کے لوگ ہیں جس طرح پڑھتے ہو پڑھتے رہو عنقریب ایک جماعت
آنیوالی ہے جو قرآن شریف کے حروف کو اس طرح سیدھاکریں گے جس طرح تیر سیدھا کیا
جاتا ہے یعنی خوب سنواریں گے ایک ایک حرف کو گھنٹوں درست کریں گے اور مخارج کی
رعایت میں خوب تکلف کریں گے اور یہ سب دنیا کے واسطے ہو گا آخرت سے ان لوگوں کو
کچھ بھی سرو کار نہ ہوگا مقصد یہ ہے کہ محض خوش آوازی بیکار ہے جب کہ اس میں اخلاص
نہ ہو محض دنیا کمانے کے واسطے کیا جاوے چہرہ پر گوشت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب
اس نیاشرف الاشیاء کو ذلیل چیز کمانے کا ذریعہ کیا تو اشرف الاعضاء چہرہ کو رونق
سے محروم کر دیا جائے گا عمران بن حصین کا ایک واعظ پر گذر ہوا جو تلاوت کے بعد
لوگوں سے کچھ طلب کر رہا تھا یہ دیکھ کر انہوں نے انا ﷲ پڑھی اور فرمایا کہ میں نے
حضور اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص تلاوت کرے اس کو جو مانگنا ہو اﷲ سے مانگے عنقریب
ایسے لوگ آئیں گے جو پڑھنے کے بعد لوگوں سے بھیک مانگیں گے مشائخ سے منقول ہے کہ
جو شخص علم کے ذریعے سے دنیا کماوے اس کی مثال ایسی ہے کہ جوتے کو اپنے رخسار سے
صاف کرے اس میں شک نہیں کہ جوتا تو صاف ہو جاوے گا مگر چہرہ سے صاف کرنا حماقت کی
منتہا ہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوا ہے{ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُالضَّلَالَۃَ
بِالْھُدَیٰ۔۔۔۔۔}(سورہ بقرہ آیہ ۔۱۶) (یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے
بدلہ میں گمراہی خریدی ہے پس نہ ان کی تجارت کجھ نفع والی ہے اور نہ یہ لوگ ہدایت
یافتہ ہیں ) ابی بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن شریف کی ایک سورت
پڑھائی تھی اس نے ایک کمان مجھے ہدیہ کے طور سے دی میں نے حضور سے اس کا تذکرہ کیا
تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جہنم کی ایک کمان تو نے لے لی اس طرح کا واقعہ عبادۃ
بن الضامت نے اپنے متعلق نقل کیا اور حضورﷺ کا جواب یہ نقل کیا کہ جہنم کی ایک
چنگاری اپنے مونڈھوں کے درمیان لٹکا دی دوسری روایت مین ہے کہ اگر تو چاہے کہ جہنم
کا ایک طوق گلہ میں دالے تو اس کو قبول کر لے ۔
یہاں پہنچ کر میں ان حفاظ کی
خدمت میں جن کا مقصود قران شریف کے مکتبوں سے فقط پیسہ ہی کمانا ہے بڑے ادب سے عرض
کروں گا کہ ﷲ اپنے منصب اور اپنی ذمہ داری کا لحاظ کیجئے جو لوگ آپ کی بدنیتیوں کی
وجہ سے کلام مجید پڑھانا یا حفظ کرنا بند کرتے ہیں اس کے وبال میں وہ تنہا گرفتار
نہیں خود آپ لوگ بھی اس کے جواب دہ اور قرآن پاک کے بند کرنے والوں میں شریک ہیں
آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اشاعت کرنے والے ہیں لیکن درحقیقت اس اشاعت کے روکنے والے
ہم ہی لوگ ہیں جن کی بد اطواریان اور بد نیتیاں دنیا کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ
قرآن پاک ہی کو چھور بیٹھیں علماء نے تعلیم کی تنخواہ کو اس لئے جائز نہیں فرمایا
کہ ہم لوگ اسی کو مقصود بنا لیں بلکہ حقیقتاً مدرسین کی اصل غرض صرف تعلیم اور
اشاعت علم و قرآن شریف ہونے کی ضرورت ہے اور تنخواہ اس کا معاوضہ نہیں بلکہ رفع صرورت
کی ایک صورت ہے جس کو مجبوراً اور اضطرار کی وجہ سے اختیار کیا گیا۔
تتمہ
قرآن پاک کے ان سب فضائل اور
خوبیاوں کے ذکر کرنے سے مقصود اس کے ساتھ محبت پیدا کرنا ہے اس لئے کلام اﷲ شریف
کی محبت حق تعالی شانہ کی محبت کے لئے لازم و ملزوم ہے اور ایک کی محبت دوسرے کی
محبت کا سبب ہوتی ہے دنیا میں آدمی کی خلقت صرف اﷲ جل شانہ کی معرفت کیلئے ہوئی ہے
اور آدمی کے علاوہ سب چیز کی خلقت آدمی کیلئے
اباد ومہ و خورشید و فلک در کارند
تاتونا نے بکف آری و بغفلت نخوری
ہمہ از بہر تو سگشتہ و فرماں بردار
شرط انصاف نہ باشد کہ تو فرماں نبری
کہتے ہیں بادل و ہوا چاند سورج
آسمان و زمین غرض ہر چیز تیری خاطر کام میں مشغول ہے تا کہ تو اپنی حوائج ان کے
زریعے سے پوریکرے اور عبرت کی نگاہ سے دیکھے کہ آدمی کی ضروریات کے لئے یہ سب
چیزیں کس قدر فرماں بردار و مطیع اور وقت پر کام کرنے والی ہیں اور تنبیہہ کے لئے
کبھی کبھی ان میں تکلف بھی تھوری دیر کیلئے کر دیا جاتا ہے بارش کے وقت بارش نہ ہونا ہوا کے وقت ہوا نہ چلنا اسی
طرح گرہن کے ذریعے سے چاند سورج عرض ہر چیز کو ئی تغیر بھی پیدا کیا جاتا ہے تا کہ
ایک غافل کیلئے تنبیہہ کا تازیانہ بھی لگے اس سب کے بعد کس قدر جیرت کی بات ہے کہ
تیری وجہ سے یہ سب چیزیں تیری ضروریات کے تابع کی جاویں اور ان کی فرمان برداری
بھی تیری اطاعت اور فرمانبرداری کا سبب نہ بنے اور اطاعت و فرمانبرداری کے لیے
بہتریں معین محبت ہے’’اِنَّ
الْمُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعٌ‘‘ جب کسی شخص سے محبت ہو جاتی ہے عشق و فریفتگی
پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی اطاعت و فرمان برداری طبیعت اور عادت بن جاتی ہے اور اس
کی نافرمانی ایسی ہی گراں اور شاق ہوتی ہی جیسے کہ بغیر محبت کے کسی کی
اطاعت ظلاف عادت و طبع ہونے کی وجہ سے بار ہوتی ہے کسی چیز سے محبت پیدا کرنے کی صورت
اس کے کمالات و جمال کامشاہدہ ہے حواس ظاہرہ سے ہو یا حواس باطنہ میں استحضار
سے اگر کسی کے چہرے کو دیکھ کر بے اختیار اس سے وابستگی ہو جاتی ہے تو کسی کی دل
آویز آواز بھی بسا اوقات مقناطیس کا اثر رکھتی ہے۔
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بسا کیں دولت از گفتار خیزد
عشق ہمیشہ صورت ہی سے پیدا نہیں
ہوتا بسا اوقات یہ مبارک دولت بات سے بھی پیدا ہو جاتی ہے کان میں آواز پڑ جانا
اگر کسی کی طرف بے اختیار کھینچتا ہے تو کسی کے کلام کی خوبیاں اس کے جوہر اس کے
ساتھ الفت کا سبب بن جاتی ہیں کسی کے ساتھ عشق پیدا کرنے کی تدبیر اہل فن نے یہ
بھی لکھی ہے کہ اس کی خوبیوں کا استحضار کیا جاوے اس کے غیر کو دل میں جگہ نہ دی
جاوے جیسا کہ عشق طبعی میں یہ سب باتیں بے اختیار ہوتی ہیں کسی کا حسین چہرہ یا
ہاتھ نظر پڑ جاتا ہے تو آدمی سعی کرتا ہے کوشش کرنا ہے کہ بقیہ اعضاے کو دیکھے تا
کہ محبت میںاضافہ قلب کو تسکین ہو حالانکہ تسکین ہوتی نہیں مرص بڑھتا گیا جوں جوں
دوا کی کسی کھیت میں بیج ڈالنے کے بعد اگر اس کی آبپاشی کی خبر نہ لی گئی
توپیداوار نہیں ہوتی اگر کسی کی محبت دل میں بے اختیار آ جانے بعد اس کی طرف
التفات نہ کیا جاوے تو آج نہیں تو کل دل سے محو ہو جاویگی لیکن اس کے خط و خل
سراپا اور رفتار و گفتار کے تصور سے اس قلبی بیج کو سینچتا رہے تو اس میں ہر لمحہ
اضافہ ہو گا ۔
مکتب عشق کے انداز نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
اس سبق کو بھلا دو گے فوراً چھٹی
مل جاوے گی جتنا جتنا یاد کرو گے اتنا ہی جکڑے جاؤ گے اسی طرح کسی قابل عشق سے
محبت پیدا کرنی ہو تو اس کے کمالات اس کی دل آویزیوں کا تتبع کرے جوہروں کو تلاش
کرے اور جس قدر معلوم ہو جاویں اس پر بس نہ کرے بلکہ اس سے زائد کا متلاشی ہو کہ
فنا ہونے والے محبوب کے کسی ایک عضو کو دیکھنے پر قناعت نہیں کی جاتی اس سے زیادہ
کی ہوس جہان تک کہ امکان میں ہو باقی رہتی ہے حق سبحانہ و تقدس جو حقیقتاً ہر جمال
و حسن کا منبع ہیں اور حقیقتاً دنیا میں کوئی بھی جمال ان کے علاوہ نہیں ہے یقیناً
ایسے محبوب ہیں کہ جن کے کسی جمال و کمال پر بس نہیں نہ اس کی کوئی غایت ان ہی بے
نہایت کمالات میں سے ان کاکلام بھیہے جس کے متعلق میں پہلے اجمالاً کہہ چکا ہوں کہ
اس انتساب کے بعد پھر کسی کمال کی ضرورت نہیں عشاق کیلئے اس انتساب کے برابر اور
کون سے چیز ہو گی ۔
اے گل بتو کر سندم تو بوئے کسے داری
قطع نظر اس سے کہ اس انتساب کو
اگر چھوڑ بھی دیا جاویء کہ اس کا موجد کون ہے اور وہ کس کی صفت ہے تو پھر حضور
اقدس ﷺ کے ساتھ اس کو جو جو نسبتیں ہیں ایک مسلمان کی فریفتگی کے لئے وہ کیا کم
ہیں اگر اس سے بھی قطع نظر کی جائے تو خود کلام پاک ہی میں عور کیجئے کہ کون سے
خوبی دنیا میں ایسی ہے جو کسی چیز میں پائی جاتی ہے اور کلام پاک میں نہ ؎
دامان نگہ تنگ و تل حسن تو بسیار
گل چیں بہار تو زداماں گلہدارد
فدا ہو آپ کی کس کس ادا پر
ادائیں لاکھ اور بیتاب دل ایک
احادیث سابقہ کو غور سے پڑھنے
والوں پر مخفی نہیں کہ کوئی بھی چیز دنیا میں ایسی نہیں جس کی طرف احادیث بالا میں
متوجہ نہ کر دیا ہو اور انواع محبت و افتخار میں سے کسی نوع کا دلدادہ بھی ایسا نہ
ہوگا کہ اسی رنگ میں کلام اﷲ شریف کی افضلیت و برتری ۔اس نوع میں کمال درجہ کی نہ
بتلا دی گئی ہو مثلاً کلی اوراجمالی بہترائی جو دنیا بھر کی چزیوں کو شامل ہے ہر
جمال و کمال اس میں داخل ہے سب ے پہلی حدیث (۱) نے کلی طپور پر ہر چیز سے اس کی
افصلیت اور برتری بتلادی محبت کی کوئی سے نوع لے لیجئے کسی شخص کو اسباب غیر
متناہیہ میں سے کسی وجہ سے کوئی پسند آئے قرآن شریف اسی کلی افضلیت میں اس سے افضل
ہے اس کے بعد بالعموم جو اسباب تعلق و محبت ہوتے ہین جزئیات و تمثیل کے طور سے ان
سب پر قرآن شریف کی افضلیت بتلادی گئی حدیث(۲) اگر کسی کو ثمرات اور منافع کی
وجہ سے کسی سے محبت ہوتی ہے تو اﷲ جل شانہ کاوعدہ ہے کہ ہر مانگنے والے سے زیادہ
عطا کروں اگر کسی کو ذاتی فضیلت ذاتی جوہر زاتی کمال سے کوئی بھاتا ہے تو اﷲ جل
شانہ نے بتلا دیا کہ دنیا کی ہر بات پر قرآن شریف کی اتنی فضیلت ہے جتنی خالق کو
مخلوق پر آقا کو بندوں پر مالک کو مملوک پر حدیث (۳)اگر کوئی مال و متاع حشم و خدم
اور جانوروں کا گرویدہ ہے اور کسی نوع کے جانور پالنے پر دل کھوئے ہوئے ہے تو
جانوروں کے بے مشقت حاصل کرنے سے تحصیل کلام پاک کی افضلیت پر متنبہ کر دیا حدیث (۴)اگر کو ئی صوفی منش تقدس و تقوی
کا بھوکا ہے اس کے لئے سرگرداں ہے تو حضور نے بتلا دیا کہ قرآن کے ماہر کا ملائکہ
کے ساتھ شمار ہے جن کے برابر تقوی کا ہونا مشکل ہے کہ ایک آن بھی خلاف اطاعت نہیں
گزار سکتے مزید یہ فضلیت ہے کہ اگر کوئی شخص دوہرا حصہ ملنے سے افتخار کرتا ہے یا
اپنی بڑائی اسی میں سمجھتا ہے کہ اس کی رائے دو رائیوں کے برابر شمار کی جاوے تو
اٹکنے والے کے دوہرا اجر ہے حدیث(۵) اگر کوئی حاسد بد اخلاقیوں کا
متوالا ہے دنیا میں حسد ہی کا خوگر ہو گیا ہو اس کی زندگی حسد سے نہیں ہٹ سکتی تو
حصور نے بتلا دیا کہ اس قابل جس کے کمال پر واقعی حسد ہو سکتا ہے وہ حافظ قرآن ہے
حدیث (۶) اگر کو فواکہ کا متوالا ہے اس پر
جان دیتا ہے پھل بغیر اس کو چین نہیں پڑتا تو قرآن شریف ترنج کی مشابہت رکھتا ہے
اگر کوئی میٹھے کاعاشق ہے مٹھائی بغیر اس کا گذر نہیں تو قرآن شریف کھجور سے زیادہ
میٹھا ہے حدیث (۷) اگر کوئی شخص عزت و وقار
کادلدادہ ہے ممبری اورکونسل بغیر اس سے نہیں رہاجاتا تو قرآن شریف دنیا اور آخرت
میں رفع درجات کا ذریعہ ہے حدیث(۸) اگر کوئی شخص معین و مدد گار چاہتا
ہے ایسا جان نثارچاہتا ہے کہ ہر جھگڑے میں اپنے ساتھی کی طرف سے لڑنے کو تیار ہے
تو قرآن شریف سلطان السلاطین ملک الملوک شہنشاہ سے اپنے ساتھی کی طرف سے جھگڑنے کو
تیار ہے مزید یہ فضیلت ہے کہ اگر کوئی نکتہ رس باریک بینیوں میں عمر خرچ کرنا
چاہتا ہے اس کے نزدیک ایک باریک نکتہ حاصل کرلینا دنیا بھر کی لزات سے اعراض کو
کافی ہے تو بطن قرآن شریف دقائق کا خزانہ ہے مزید برآناسی طرح اگر کوئی شخص مخفی
رازوں کا پتہ لگانا کمال سمجھتا ہے محکمہ سی آئی ڈی میں تجربہ کو ہنر سمجھتا ہے
عمر کھپاتا ہے تو بطن قرآن شریف ان اسرار مخفیہ پر متنبہ کرتا ہے جن کی انتہا نہیں (۹) اگر کوئی شخص اونچے مکان بنانے
پر مر رہا ہے ساتویں منزل پر اپنا خاص کمرہ بنانا چاہتا ہے تو قرآن شریف ساتوین
ہزار منزل پر پہنچاتا ہے حدیث (۱۰) اگر کو ئی اس کا گرویدہ ہے کہ
ایسی سہل تجارت کروں جس میں محنت کچھ نہ ہو اور نفع بہت سا ہو جاوے تو قرآن شریف
ایک حرف پر دس نیکیں دلاتا ہے حدیث (۱۱) اگر کوئی تاج و تخت کا بھوکا ہے
اس کا خاطر دنیا سے لڑتا ہے تو قرآن شریف اپنے فریق کے والدین کو بھی وہ تاج دیتا
ہے جس کی چمک دمک کی دنیا میں کوئی نظیر ہی نہیں حدیث (۱۲) اگر کوئی شعبدہ بازی میں کمال
پیدا کرتا ہے آگ ہاتھ پر رکھتا ہے جلتی دیا سلائی منہ میں رکھ لیتا ہے تو قرآن
شریف جہنم تک کی آگ کو اثر کرنے سے مانع ہے حدیث (۱۳) اگر کوئی حکام رسی پر مرتا ہیاس
پر ناز ہے کہ ہمارے ایک خط سے فلاں حاکم نے اس ملزم کو چھور دیا ہم نے فلاں شخص کو
سزا نہیں ہونے دی اتنی سے بات حاصل کرنے کے لئے جج و کلکڑ کی دعوتوں اور خوشامدوں
میں جان و مال صائع کرتا ہے ہر روز کسی نہ کسی حاکم کی دعوت میں سرگرداں رہتا ہے
تو قرآن شریف اپنے ہر رفیق کے ذریعے ایسے دس شخصوں کو خلاصی دلاتا ہے جن کو جہنم
کا حکم مل چکا ہے حدیث(۱۴) اگر کوئی خوشبوؤں پر مرتا ہے چمن
اورپھولوں کا دلدادہ ہے تو قرآن شریف بالچھڑ ہے مزید فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی عطور
کا فرفتہ ہے حنائے مشکی میں غسل چاہتا ہو تو کلام مجید سرا پا مشک ہے اور غور کرو
گے تو معلوم ہو جاوے گا کہ اس مشک سے اس مشک کو کچھ بھی نسبت نہیں چہ نسبت خاک را
بہ عالم پاک
کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں
مصلحت را تہمتے بر آ ہوء چین بستہ اند
حدیث (۱۵) اگر کوئی جوتہ کا آشنا ڈر سے
کوئی کام کر سکتا ہے ترغیب اس کے لئے کار آمد نہیں تو قرآن شریف سے خالی ہوناگھر
کی بربادی کے برابر ہے حدیث (۱۶) اگر کو ئی عابد افضل العبادات کی
تحقیق میں رہتا ہے اور ہر کام میں اس کا متمنی ہے کہ جس چیز میں زیادہ ثواب ہو اسی
میں مشغول رہوں تو قرات قرآن افصل العبادات ہے اور تصریح سے بتالا دیا کہ نفل نماز
روزہ تسبیح و تہلیل وغیرہ سب سے افضل ہے حدیث(۱۷۔ ۱۸) بہت سے لوگوں کو حاملہ جانوروں
سے دلچسپی ہوتی ہے حاملہ جانور قیمتی داموں میں خریدے جاتے ہیں حضورﷺ نے متنبہ فرما دیا اور خصوصیت سے
اس جزو کو بھی مثال میں ذکر فرمایا کہ قرآن شریف اس سے بھی افضل ہے حدیث
(۱۹) اکثر لوگوںکی صحت کی فکر دامنگیر
رہتی ہے ورزش کرتے ہیں روزانہ غسل کرتے ہیں د وڑتے ہیں علی الصبح تفریح کرتے
ہیںاسی طرح سے بعض لوگوں کو رنج و غم فکر و تشویش دامن گیر رہتی ہے حضور ﷺ نے
فرما دیا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کی شفا ہے اور قرآن شریف دلوں کی بیماری کو دور
کرنے والا ہے حدیث (۲۰) لوگوں کو افتخار کے اسباب کزشتہ
افتخارات کے علاوہ اور بھی بہت سے ہوتے ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے اکثر اپنے نسب پر
افتخار ہوتا ہے کسی کو اپنی عادتوں پر کسی کو اپنی ہر دلغزیزی پر کسی کو اپنے حسن
تدبیر پر حضور نے فر ما دیا کہ حقیقتاً قابل افتخار جو چیز ہے وہ قرآن شریف ہے اور
کیوں نہ ہو کہ در حقیقت ہر جمال و کمال کو جامع ہے ۔
آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری
حدیث (۲۱) اکثر لوگوں کو خزانہ جمع کرنے کا
شوق ہوتا ہے کھانیاور پہننے میںتنگی کرتے ہیں تکالیف برداشت کرتے ہیں اور ننانوے
کے پھیر میں ایسے پھنس جاتے ہین جس سے نکلنا دشوار ہوتا ہے حضورﷺ نے ارشاد فرما دیا کہ ذخیرہ کے
قابل کلام پاک ہے جتنا دل چاہے آدمی جمع کرے کہ اس سے بہتر کوئی خزینہ نہیں حدیث (۲۲) اسی اگر برقی روشنیوں کا آ پکو شوق ہے آپ اپنے کمرے میں دس
قمقمے بجلی کے اس لئے نصب کرتے ہیں کہ کمرہ جگمگا اٹھے تو قرآن شریف سے بڑھ کر
نورانیت کس چیز میںہو سکتی ہے مزید برآن یہ کہ اگر آپ اس پر جان دیتے ہیں کہ آپ کے
پاس ہدایا آیا کریں دوست روزانہ کچھ نہ کچھ بھیجتے رہا کریں تو آپ توسیع تعلقات
اسی کی خاطر کرتے ہیں جو دوست آشنا اپنے باغ کے پھلوں میں آپ کا حصہ نہ لگائے تو
آپ اس کی شکایت کرتے ہیں تو قرآن شریف سے بہتر تحائف دینے والا کون ہے کہ سکینہ اس
کے پاس بھیجی جاتی ہے پس آپ کے کسی پر مرنے کی گر یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کے پاس
روزانہ کجھ نذرانہ لاتا ہے تو قرآن شریف میں اس کا بھی بدل ہے اگر آپ خواہاں ہیں
اور آپ کسی وزیر کے اس لئے ہر وقت قدم چومتے ہیں کہ وہ دربار میں آپ کا ذکر کر دے
گا کسی پیش کار کی اس لئے خوشامد کرتے ہیں کہ وہ کلکٹر کے یہاں آپ کی کچھ تعریف کر
دے گا یا کسی کی آپ اس لئے چاپلوسی کرتے ہیں کہ محبوب کی مجلس میں آپ کا ذکر کر دے
تو قران شریف احکم الحاکمین محبوب حقیقی کے دربار میں آپ کا ذکر کود محبوب و آقا
کی زبان سے کراتا ہے حدیث(۲۳) اگر آپ اس کے جویاں رہتے ہیں کہ
محبوب کو سب سے زیادہ مرغوب چیز کیا ہے کہ اس کے مہیا کرنے میں پہاڑوں سے دودھ کی
نہر نکالی جائے تو قرآن شریف کے برابر آقا کو کوئی چیز بھی مرغوب نہیں حدیث (۲۴) اگر آپ درباری بننے میں عمر
کھپارے ہیں سلطان کے مصاحب بنے کے لئے ہزار تدبیر اختیار کرتے ہیں تو کلام اﷲ شریف
کے ذریعے آپ اس بادشاہ کے مصاحب شمار ہوتے ہیںجس کے سامنے کسی بڑے سے بڑے کی
بادشاہت کچھ حقیقت نہیں رکھتی مزید برآں کتنے تعجب کی بات ہے کہ لوگ کونسل کی
ممبری کے لئے اور اتنی سے بات کے لئے کہ کلکٹر صاحب شکار مین جاویں تو آپ کو بھی
ساتھ لے لیں آپ کس قدر سربانیاں کرتے راحت و ارام جان و مال نثار کرتے ہین لوگوں
سے کوشش کراتے ہیں دین اور دنیا دونوں کو برباد کرتے ہیں صرف اس لئے کہ آپ کی نگاہ
میں اس سے آپ کا اعزاز ہوتا ہے تو پھر کیا حقیقی اعزاز کے لئے حقیقی حاکم و بادشاہ
کی مصاحبت کے لئے واقعی درباری بننے کیلئے آپ کو ذرا سی توجہ کی بھی ضرورت نہیں آپ
اس نمائشی اعزاز پر عمر خرچ کیجئے مگر خدارا اس عمر کا تھوڑا سا حصہ عمر دینے
والے کی خوشنودی کیلئے بھی تو خرچ کیجئے (۲۵)اسی طرح اگر آپ میں چشتیت پھونک دی گئی ہے اور ان مجالس بغیر آپ کو
قرار نہیں تو مجالس تلاوت اس سے کہین زیادہ دل کو پکڑنے والی ہیں اور بڑے سے بڑے
مستغنی کے کان اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں حدیث (۲۶) اسی طرح اگر آپ آقا کو اپنی طرف
متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو تلاوت کیجئے حدیث (۲۷) اورآپ اسلام کے مدعی ہیں مسلم
ہونے کا دعوی ہے تو حکم ہے نبی کریمﷺ کا کہ قرآن شریف کیایسی تلاوت کرو جیسا کہ اس
کا حق ہے اگر آپ کے نزدیک اسلام صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہے اور اﷲ اور اس کے رسول
کی فرماں برداری سے بھی آپ کے اسلام کو کوئی سروکار ہے تو یہ اﷲ کا فرمان ہے اور
اس کے رسسول کی طرف سے اس کا تلاوت کا حکم ہے مزید برآں اگر آپ میں قومی جوش بہت
زور کرتا ہے ترکی ٹوپی کے آپ صرف اس لئے دلدادہ ہیں کہ وہ آپ کے نزدیک خالص اسلام
لباس ہے قومی شعار میں آپ بہت خاص دلچسپی رکھتے ہیں ہر طرح اس کے پگھلانے کی آپ
تدبیریں اختیار کرتے ہیں اخبارات میں مضامین شائع کرتے ہیں جلسوں میں ریزولیوشن
پاس کرتے ہیں تو اﷲ کا رسول آپ کو حکم دیتا ہے کہ جس قدر ممکن ہو قرآن شریف کو
پھیلاؤ۔
بے جا نہ ہو گا اگر میں یہاں
پہنچ کر سر بر آوردگان قوم کی شکایت کروں کہ قرآن پاک کی اشاعت میں آپ کی طرف سے
کیا اعانت ہوتا ہے اور یہی نہیں بلکہ خدا را ذرا عور سے جواب دیجئے کہ اس کے سلسلہ
کو بند کرنے میں آپ کا کس قدر حصہ ہے آج اس کی تعلیم کو بیکار بتلایا جاتا ہے
اضاعت عمر سمجھا جاتا ہیاس کو بیکار دماغ سوزی اور بے نتیجہ عرض ریزی کہا جاتا ہے
ممکن ہے کہ آپ اس کے موافق نہ ہوں لیکن ایک جماعت جب ہمہ تن اس میں کوشاں ہے تو
کیا آپ کا سکوت اس کی اعانت نہیں ہے مانا کہ آپ اس خیال سے بیزار ہیں مگر آپ کی اس
بیزاری نے کیا فائدہ دیا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
آج اس کی تعلیم پر بڑء زور سے اس
لئے انکار کیا جاتا ہے کہ مسجد کے ملانوں نے اپنے ٹکڑوں کے لئے دھندا کر رکھا ہے
گو یہ عامۃً نیتوں پر حملہ ہے جو بڑی سخت ذمہ داری ہے اور اپنے وقت پر اس کا ثبوت
دینا ہوگا مگر میں نہایت ہی ادب سے پوچھتا ہوں کہ خدارا ذرا اس کو تو غور کیجئے کہ
ان خود غرض ملانوں کی ان خود غرضیوں کے ثمرات آپ دنیا میں کیا دیکھ رہے ہیں اور آپ
کی ان بے غرصانہ تجاویز کے ثمرات کیا ہون گے اور نزر و اشاعت کلام پاک میں آپ کی
ان مفید تجاویز سے کس قدر مدد ملے گی بہر حال حضورﷺ کا ارشاد آپ کے لئے قرآن شریف
کے پھیلانے کا ہے اس میں آپ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ اس ارشاد نبوی کا کس درجہ
امتثال آپ کی زات سے ہوا اور ہو رہا ہے دیکھئے ایک دوسری بات کا بھی خیال رکھیں
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم اس خیال میں شریک نہیں تو ہم کو کیا مگر اس
سے آپ اﷲ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے صحابہ نے حضور اکرمﷺ سے پوچھا تھا اَنُھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ قَالَ
نَعَمْ اِذَا کَثُرَ الْخُبْث ( کیا ہم ایسی حالت میں ہلاک ہو جاویں گے کہ ہم
میں صلحاء موجود ہوں حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ہاں جب خباثت غالب ہو جاوے) اسی طرح
ایک روایت میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے ایک گاؤں کے الٹ دینے کا حکم فرمایا
حضرت جبریئل ں نے عرض کیا کہ اس میں فلاں بندہ ایسا ہے کہ جس نے کبھی گناہ نہیں
کیا ارشاد ہوا کہ صحیح ہے مگر یہ میری نافرمانی ہوتے ہوء دیکھتا رہ اور کبھی اس کی
پیشانی پر بل نہین پرا در حقیقت علماء کو یہی امور مجبور کرتے ہیں کہ وہ ناجایز
امور کو دیکھ کر ناگواری کا اظہار کریں جس کو ہمارے روشن خیل تنگ نظری سے تعبیر
کرتے ہین آپ حضرات اپنی اس وسعت کیالی اور وسعت اخلاق پر مطمئن نہ رہیں کہ یہ
فریضہ صرف علماء ہی کے ذمہ نہیں ہر اس شخص کے ذمہ ہے جو کسی ناجایز بات کا وقوع
دیکھے اور اس پر ٹوکنے کی قدرت رکھتا ہو پھر نہ ٹوکے بلال بن سعد سے مروی ہے کہ
معصیت جب مخفی طور سے کی جاتی ہے تو اس کا وبال صرف کرنے والے پر ہوتا ہے لیکن جب
کھلم کھلا کی جاوی اور اس پر انکار نہ کیا جاوے تو اس کا وبال عام ہوتا ہے (۲۸) اسی طرح اگر آپ تاریخ کے دلدادہ
ہیں جہاں کہیں معتبر تاریخ آپ کو ملتی ہے آپ اس کے لئے سفر کرتے ہیں تو قرآن شریف
مین تمام ایسی کتب کا بدل موجود ہے جو قرون سابقہ میں حجت و معتبر مانی گئی ہیں
حدیث (۲۹) اگر آپ اس قدر کاہل ہیں کہ کجھ کر ہی نہیں سکتے تو بے محنت
بے مشقت اکرام بھی آپ کو صرف کلام اﷲ شریف مین ملے گا کہ چپ چاپ کسی مکتب میں بیٹھے
بچوں کا کلام مجید سنے جائے اور مفت کا ثواب لیجئے حدیث(۳۱) اگر آپ مختلف الوان کے گرویدہ
ہیں ایک نوع سے اکتا جاتے ہیں تو قرآن شریف کے معنی میں مختلف الوان مختلف مضامین
حاصل کیجئے کہیں رحمت کہیں عذاب کہیں قصے کہیں احکام اور کیفیت تلاوت میں کبھی
پکار کر پڑھیں اور کبھی آہستہ حدیث (۳۲) اگر آپ کی سیہ کاریاں حد سے
متجاوز ہیں اور مرنے کا آپ کو یقین بھی ہے تو پھر تلاوت کلام پاک میں ذرا بھی
کوتاہی نہ کیجئے کہ اس درجہ کا سفارشی نہ ملے گا اور پھر ایسا کہ جس کی شفارش کے
قبول ہونے کا یقین بھی ہو حدیث (۳۳) اسی طرح اگر آپ اس قدر باوقار
واقع ہوئے ہیں کہ جھگڑالو سے گھبراتے ہیں لوگوں کے جھگڑے کے ڈر سے آپ بہت سے
قربانیاں کر جاتے ہیں تو قرآن شریف کے مطالبہ سے ڈریئے کہ اس جیسا جھگڑا لو آپ کو
نہ ملے گا فریقین کے جھگڑے میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی طرفدار ہوتا ہے مگر اس کے
جھگڑنے میں اس کی تصدیق کی جاتی ہے اور ہر شخص اسی کو سچا بتلائے گا اور آپ کا
کوئی طرف دار نہ ہوگا حدیث (۳۴) اگر آپ کو ایسا رہبر درکار ہے
اوراس پر آپ قربان ہیں جو محبوب کے گھر تک پہنچادے تو تلاوت کیجئے اور اگر آپ اس
سے ڈرتے ہیں کہ کہیں جیل خانہ نہ ہو جایے تو ہر حالت میں قرآن شریف کی تلاوت بغیر
چارہ نہیں حدیث(۳۵) اگر آپ علوم انبیاء حاصل کرنا
چاہتے ہیں اور اس کے گرویدہ اور شیدائی ہیں تو قرآن شریف پڑھ اور جتنا چاہے کمال
پیدا کیجئے اسی طرح اگر آپ بہترین اخلاق پر جان دینے کو تیار ہیں تو بھی تلاوت کی
کثرت کیجئے حدیث(۳۶) اگر اپ کا مچلا ہوا دل ہمیشہ
شملہ اور منصوری کی چوٹیوں ہی پر تفریح میں بہلتا ہے اور سو جان سے آپ ایک پہاڑ کے
سفر پر قربان ہیں تو قرآن پاک مشک کے پہاڑوں پر ایسے وقت میں تفریح کراتا ہے کہ
تمام عالم نفسا نفسی کا زور ہو حدیث (۳۷ ۔۳۸ ۔۳۹) اگر آپ زاہدوں کی اعلی فہرست میں
شمار چاہتے ہیں اور رات دن نوافل سے آپ کو فرصت نہیں تو کلام پاک سیکھنا سکھانا اس
سے پیش پیش ہے حدیث نمبر (۴۰) اگر دنیا کے ہر جھگڑے سے آپ نجات
چاہتے ہیں ہر مخمصہ سے آپ علیحدہ رہنے کے دلدادہ ہیں تو صرف قرآن پاک ہی میں ان سے
مخلصی ہے ۔
حدیث خاتمہ
(1)اگر آپ کسی طبیب کے ساتھ
وابستگی چاہتے ہیں تو سورہ فاتحہ میں ہر بیماری کی شفا ہے (۲) اگر آپ کی بے نہایت غرصیں پوری
نہیں ہوتیں تو کیوں روزانہ سورہ یس کی تلاوت آپ نہیں کرتے حدیث (۳) اگر آپ کو پیسہ کی محبت ایسی ہے
کہ اس کے بغیر آپ کسی کے بھی نہیں تو کیوں روزانہ سورہ واقعہ کی تلاوت نہیں کرتے
حدیث(۴) اگر آپ کو عذاب قبر کا خوف دامن
گیر ہے اور آپ اس کے متحمل نہیں تو اس کے لئے بھی کلام پاک میں نجات ہے حدیث (۵) اگر اگر آپ کو کوئی دائمی مشعلہ
درکار ہے کہ جس میں آپ کے مبارکاوقات ہمیشہ مصروفر رہیں تو قرآن پاک سے بڑھ کر نہ
ملے گا حدیث( ۶ ۷ ) مگر ایسا نہ ہو کہ یہ دولت حاصل
ہونے کے بعد چھن جاوے کہ سلطنت ہاتھ آنے کے بعد پھر ہاتھ سے نکل جانا زیادہ حسرت و
خسران کا سبب ہوتا ہے اور کوئی حرکت ایسی بھی نہ کر جائے کہ نیکی برباد گناہ لازم
۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَلَاغُ
مجھ سا ناکارہ قرآن پاک کی
خوبیوں پر کیا متنبہ ہوسکتا ہے ناقص سمجھ کے موافق جو ظاہری طور پر سمجھ میں آیا
ظاہر کر دیا مگر اہل فہم کے لئے غور کا راستہ ضرور کھل گیا اس لئے کہ اسباب محبت
جن کو اہل فن نے کسی کے ساتھ محبت کا ذریعہ بتلایا ہے پانچ چیز مین منحصر ہے اول
اپنا وجود کہ طبعاً آدمی اس کو محبوب رکھتا ہے قرآن شریف میں حوادث سے امن ہے اس
لئے وہ اپنی حیات و بقا کا سبب ہے دوسرے طبعی مناسبت جس کے متعلق اس سے زیادہ
وضاحت کیا کر سکتا ہوں کہ کلام صفت الٰہی ہے اور مالک اور مملوک آقا اور بندہ میں
جو مناسبت ہے وہ واقفوں سے مخفی نہیں۔
ہست رب الناس رابا جان ناس
اتصال بے تکیف و بے قیاس
سب سے ربط آشنائی ہے اسے
دل میں ہر اک کے رسائی ہے اسے
تیسرے جمال چوتھے کمال پانچویں
احسان ان ہر سہ امور کے متعلق احادیث بالا میں اگر عور فرمائیں گے تو نہ صرف اس
جمال و کمال پر جس کی طرف ایک ناقص الفہم نے اشارہ کیا ہے اقتصار کریں گے بلکہ وہ
خود بے تردد اس امر تک پہنچیں گے کہ عزت افتخار شوق و سکون جمال و کمال اکرام و
احسان لذت و راحت مال و متاع غرض کوئی بھی ایسی چیز نہ پاویں گے جو محبت کے اسباب
میں ہو سکتی ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس پر تنبیہہ فرما کر قرآن شریف کو اسی نوع میں
اس سے افضل ارشاد نہ فرمایا ہو البتہ حجاب میں مستور ہونا دنیا کے لوازمات میں سے
ہے لیکن عقلمند شخص اس وجہ سے کہ لیچی کا چھلکا خاردار ہے اس کے گودہ سے اعرص نہیں
کرتا اور کوئی دل کھویا ہوا اپنی محبوبہ سے اس لئے نفرت نہیں کر تا کہ وہ اس وقت
برقعہ میں ہے پردہ کے ہٹانیکی ہر ممکن سے ممکن کوشش کرے گا اور کامیاب نہ بھی ہو
سکا تو اس پردہ کے اوپر ہی سے آنکھیں ٹھنڈی کرے گا اس کا یقین ہو جاوئے کہ جس کی
خاطر برسوں سے سرگرداں ہوں وہ اسی چادر میں ہے ممکن نہیں کہ پھراس چادر سے نگاہ ہٹ
سکے اسی طرح قرآن پاک کے ان فضائل و مناقب اور کمالات کے بعد اگر وہ کسی حجاب کی
وجہ سے محسوس نہیں ہوتے تو عاقل کا کام نہین کہ اس سے بے توجہی اور لا پرواہی کرے
بلکہ اپنی تقصیر اور نقصان پر افسوس کرے اور کمالات میں غور حضرت عثمانؓ اور حضرت
حذیفہؓ سے مروی ہے کہ اگر قلوب نجاست سے پاک ہو جاویں تو تلاوت کلام اﷲ سے
کبھی بھی سیری نہ ہو ثابت بنانی کہتے ہیں کہ بیس برس میں نے کلام پاک کو مشقت سے پڑہا
اور بیس برس سے مجھے اس کی ٹھنڈک پہنچ رہی ہے پس جو شخص بھی معاصی سے توبہ کے بعد
غور کرے گا کلام پاک کو آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہاداری کا مصداق پائے گا اے کاش
کہ ان الفاظ کے معنی مجھ پر بھی صادق آتے میں ناظرین سے یہ بھی درخواست کروں گا کہ
کہنے والے کی طرف التفات نہ فرمائیں کہ میری ناکارگی آپ کو اہم مقصود سے نہ روکے
بلکہ بات کی طرف توجہ فرمائیں اور جہاں سے یہ امور ماخوز ہیں اس کی طرف التفات
کیجئے کہ میں درمیان میں صرف نقل کا واسطہ ہوں یہاں تک پہنچنے کے بعد اﷲ کی ذات سے
بعد نہیں کہ وہ کسی دل میں حفظ قرآن پاک کا ولولہ پیدا کر دے پس اگر بچہ کو حفظ
کرانا ہے تو اس کے لئے کسی عمل کی ضرورت نہیں کہ بچپن کی عمر خود حفظ کے لئے معین
و مجرب ہے البتہ اگر کوئی شخص بڑی عمر مین حفظ کا ارادہ کرے تو اس کیلئے حضور اقدس
ﷺ کا ارشاد فرمایا ہوا ایک مجرب عمل لکھتا ہوں جس کو ترمذی حاکم وغیرہ نے روایت
کیا ہے حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت
علی ؓحاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جاویں قرآن
پاک میرے سینے سے نکل جاتا ہے جو یاد کرتا ہوں وہ محفوظ نہیں رہتا حضور ﷺنے ارشاد
فرمایا کہ مین تجھے ایسی ترکیب بتلاؤں کہ جو تجھے بھی نفع دے اور جس کو تو بتلاوے
اس کے لئے بھی نافع ہو اور جو کچھ تو سیکھے وہ محفوظ رہے حضرت علی ؓکے دریافت کرنے
پر حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب جمعہ کی شب آوے تو اگر یہ ہوسکتا ہو کہ رات
کے اخیر تہائی حصہ میں اٹھے تو یہ بہت ہی اچھا ہے کہ یہ وقت ملائکہ کے نازل ہونے
کا اگر آپ مختلف الوان کے گرویدہ ہیں ایک نوع سے اکتا جاتے ہیں تو قرآن شریف کے
معنی میں مختلف الوان مختلف مضامین حاصل کیجئے کہیں رحمت کہیں عذاب کہیں قصے کہیں
احکام اور کیفیت تلاوت میں کبھی پکار کر پڑھیں اور کبھی آہستہ حدیثہے اور دعا اس
وقت میں خاص طور سے قبول ہو تی ہے اسی وقت کے انتظار میں حضرت یعقوب ںنے اپنے
بیٹوں سے کہا تھا سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیعنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے معفرت طلب
کرونگا ( یعنی جمہ کی رات کے آخری حصہ میں ) پس اگر اس وقت میں جاگنا دشوار
ہو تو آدھی رات کے وقت اور یہ بھی نہ ہو سکے تو پھر شروع ہی رات میں کھڑا ہو اور
چار رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ یس شریف پڑھے
اور دوسری رکعت مین سورہ فاتحہ کے بعد سورہ دخان اور تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد
سورہ الم سجدہ اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد سوہ ملک پڑھے اور جب التحیات سے
فارغ ہو جاوے تو اول حق تعالیٰ شانہ کی خوب حمد و ثنا کر اس کے بعد مجھ پر درود
اور سلام بھیج اس کے بعد تمام انبیاء پر درود بھیج اس کے بعد تمام مؤمنین کے لئے
اور ان تمام مسلمان بھائیوں کے لئے جو تجھ سے پہلے مر چکے ہیں استعفار کر اور اس
کے بعد یہ دعا پڑھ۔
ف: دعا آگے آ رہی ہے اس کے ذکر
سے قبل مناسب ہے کہ حمد وثنا وغیرہ جن کا حضورﷺ نے حکم فرمایا ہے دوسری روایات سے جن کو شروح
حصن اورمناجات مقبول وغیرہ میں نقل کیا ہے مختصر طور پر ایک ایک دعا نقل کر دی
جاوے تا کہ جو لوگ اپنے طور پر نہیں پڑھ سکتے وہ اس کو پڑھیں اورجو حضرات خود پڑھ
سکتے ہوں وہ اس پر قناعت نہ کریں بلکہ حمو صلوۃ کو بہت اچھی طرح سے مبالغہ سے
پڑھیں۔ دعا یہ ہے۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ عَدَدَ
خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْ شِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَتِہٖ اَللّٰھُمَّ
لَااُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلًی نَفْسِکَ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمدِّالنَّبِیِّ
الْاُمِّیِّ الْھَا شِمِیِّ وَعَلٰی اَلِہٖ وَ اَصْحَابِہِ اْلبَرَرَۃِ الْکِرَامِ
وَعَلٰی سَائِرِ الْاَنْبَیآئِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَالْمَلَائِکَۃِ
الْمُقَرَّبِیْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَاوَلِاِاخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا
بِا لْاِ یْمَانِ وَلَاتَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْرَبَّنَا اِنَّکَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ اَلّٰلُھَّم اغْفِرْلِیْ
وَلِوَالِدَیَّ وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسَلِمَاتِ اِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبُ الدَّعْوَاتِ ط
تمام تعریف جہانوں کے پر وردگار
کے لئے ہے ایسی تعریف جو اس کی مخلوقات کے اعداد کے برابر ہو اس کی مرضی کے موافق
ہو اس کے عرش کے وزن کے برابر ہو اس کے کلمات کی سیاہیوں کے برابر ہو اے اﷲ میں
تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی تعریف خود
بیان کی اے اﷲ ہمارے سردار نبی امی اور ہاشمی پر درود و سلام اور برکات نازل فرما
اور تمام نبیوں اور رسولوں اور ملائکہ مقربین پر بھی اے ہمارے رب ہماری اور ہم سے
پہلے مسلمانون کی مغفرت فرما اور ہمارے دلوں میں مؤمنین کی طرف سے کینہ پیدا نہ کر
اے ہمارے رب تو مہربان اور رحیم ہے اے الہ العالمین میری اور میری والدین کی اور
تمام مؤمنین اور مسلمانوں کی مغفرت فرما بیشک تو دعاؤں کو سننے والا اور قبول کرنے
والا ہے اس کے بعد وہ دعا پڑھے جو حضور اقدس ﷺ نے حدیث بالا میں حضرت علی رضی
اﷲ عنہ کو تعلیم فرمائی اور وہ یہ ہے ۔
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ
اَبَدًا مَّا اَبْقَیْتَنِیْ وَارْحَمْنِیْ اَنْ اَتَکَلَّفَ مَا لَایَعْنِیْنِیْ
وَارْزُقْنِیْ حُسْنَ النَّظْرِ فِیْمَا یُرْ ضِیْکَ عَنِیْ اَللّٰھُمَّ بَدِ یْعَ
السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِ کْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِیْ
لَا تُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللّٰہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ
اَنْ تُلْزِمَ قَلْبِیْ حِفْظَ کِتَا بِکَ کَمَا عَلَّمْتَنِیْ وَارْزُقْنِیْ اَنْ
اَقْرَأَہ‘ عَلَی النَّحْوِ الَّذِیْ یُرْ ضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ
السّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِیْ
لَاتُرَامُ اَسْئَلُکَ یَا اَللّٰہُ یَا رَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَ نُوْرِ وَجْھِکَ
اَنْ تُنَوِّرَ بِکِتَابِکَ بَصَرِیْ وَاَنْ تُطْلِقَ بِہٖ لِسَانِیْ وَ اَنْ
تُفَرِّجَ بِہٖ عَنْ قَلْبِیْ وَ اَنْ تَشْرَحَ بِہٖ صَدْرِیْ وَاَنْ تَغْسِلَ بِہٖ
بَدَنِیْ فَاِنَّہ‘ لَا یُعِیْنُنِیْ عَلَی الْحَقِّ غَیْرُکَ وَ لَا یُؤْتِیْہِ اِلَّآ اَنْتَ وَلَاحَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ط
اے الہ العلمین مجھ پر رحم فرما
کہ جب تک میں زندہ رہوں گناہوں سے بچتا رہوں اور مجھ پر رحم فرما کہ میں بیکار
چیزوں میں کلفت نہ اٹھاؤں اور اپنی مرضیات میں خوش نظری مرحمت فرما اے اﷲ زمین اور
آسمان کے بے نمونہ پیدا کرنے والے اے عظمت اور بزرگی والے اور اس غلبہ یا عزت کے
مالک جسکے حصول کا ارادہ بھی نا ممکن ہے اے اﷲ اے رحمن میں تیری بزرگی اور تیری
زات کے نور کے طفیل تجھ سے مانگتا ہوں کہ جس طرح تو نے اپنی کلام پاک مجھے سکھادی
اسی طرح اس کی یاد بھی میرے دل سے چسپاں کر دے اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں
اسکو اس طرح پڑھوں جس سے تو راصی ہو جاوے اے اﷲ زمین اور آسمانوں کے بے نمونہ پیدا
کرنے والے اے عظمت اور بذرگی والے اور اس غلبہ یا عزت کے مالک جسکے حصول کا ارادہ
بھی ناممکن اے اﷲ اے رحمن میں تیری بزرگی اور تیری ذات کے نور کے طفیل تجھ سے
مانگتا ہوں
کہ تو میری نظر کو اپنی کتاب کے
نور سے منور کر دے اور میری زبان کو اس پر جاری کردے اور اس کی برکت سے میرے دل کی
تنگی کو دور کر دے اور میرے سینے کو کھول دے اور اس کی برکت سے میرے جسم کے گناہوں
کا میل دھو دے کہ حق پر تیرے سوا میرا کوئی مدد گار نہیں اور تیرے سوا میری یہ
آرزو کوئی پوری نہین کر سکتا اور گناہوں سے بچنا یا عبادت پر قدرت نہیں ہو سکتی
مگر اﷲ بر تر و بزرگی والے کی مدد سے۔
پھر حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ اے علی اس عمل کو تین جمعہ یا پانچ جمعہ یا سات جمعہ کر انشاء اﷲ دعا ضرور قبول
کی جائے گی قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے کسی مومن سے بھی
قبولیت دعا نہ چوکے گی ابن عباسؓ کہتے ہیں علی کو پانچ یا سات ہی جمعہ گزرے ہو نگے
کہ وہ حضورﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲﷺ میں تقریباً چار آیتیں پڑھتا تھا
اور وہ بھی مجھے یاد نہ ہوتی تھیں اور اب تقریاًچالیس آیتیں پڑھتا ہوں اور ایسی
ازبر ہو جاتی ہیں کہ گویا قرآن شریف میرے سامنے کھلا ہوا رکھا ہے اور پہلے میں
حدیث سنتا تھا اور جب اس کو دوبارہ کہتا تھا تو ذہن میں نہیں رہتی تھی اور اب
احادیث سنتا ہوں اور جب دوسروں سے نقل کرتا ہوں تو ایک لفظ بھی نہیں چھوٹتا۔
حق تعالیٰ شانہ اپنے نبی کی رحمت
کے طفیل مجھے بھی قرآن و حدیث کے حفظ کی توفیق عطا فرماویں اور تمہیں بھی۔وَصَلَّی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَلٰی
خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِ نَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ
وَسَلَّمَ بِرَ حْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔
تکملہ
اوپرجو چہل حدیث لکھی گئی ہے وہ
ایک خاص مضمون کے ساتھ مخصوص ہونے کی وجہ سے اس میں اختصار کی رعایت نہیں ہو سکی
اس زمانے میں چونکہ ہمتیں نہایت پست ہو گئی ہیں دین کے لئے کسی معمولی سی مشقت
کا بھی برداشت کرنا گراں ہے اس لئے اس جگہ ایک دوسری چہل حدیث نقل کرتا ہوں جو
نہایت ہی مختصر ہے اور نبی کریم ﷺ سے ایک ہی جگہ منقول ہے اس کے ساتھ ہی بڑی خوبی
اس میں یہ ہے کہ مہمات دینیہ کو ایسی جامع ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے کنز
العمال میںقدمائے محدثین کی ایک جماعت کی طرف اس کا انتساب کیا ہے اور متاخرین مین
سے مولانا قطب الدین صاحب مہاجر مکی نے بھی اس کو ذکر فرمایا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ
دین کے ساتھ وابستگی رکھنے والے حضرات کم از کم اس کو ضرور حفظ کر لیں کہ کوڑیوں
میں لعل ملتے ہیں وہ حدیث یہ ہے :
عَنْ سَلْمَانَؓ قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْاَ رْبَعِیْنَ حَدِیْثَاً الَّتِیْ
قَالَ مَنْ حَفِظَھَا مِنْ اُمَّتِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ وَمَاھِیَ یَا
رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَالْمَلَا
ئِکَۃِ وَالْکُتُبِ وَالنّبِیِّیْنَ وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ
وَالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاَنْ تَشْھَدَ اَنْ لَّا
اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمَ
الصَّلٰوۃَ بِوُضُوْئٍ سَابِغٍ کَامِلٍ لِوَقْتِھَا وَتُؤْتِیَ الزَّکٰوۃَ
وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنّ کَانَ لَکَ مَالٌ وَتُصَلِّیَ
اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ وَالْوِتْرَ لَا
تَتْرُکْہُ فِی کُلِّ لَیْلَۃٍ وَّلَا تُشْرِکْ بِا للّٰہ شَیْأً وَلَا تَعُقَّ
وَالِدَیْکَ وَلَا تَاْکُلْ مَالَ الْیَتِیْمَ ظُلْمًا وَّلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ
وَلَا تَزْنِ وَلَا تَحْلِفْ بِا للّٰہِ کَاذِبًا وَّلَا تَشْھَدْشَھَا دَۃَ
زُوْرٍوَّلَا تَعْمَلْ بِالْھَوٰی وَلَا تَغْتَبْ اَخَاکَ الْمُسْلِمَ وَلَا
تَقْذِفِ الْمُحْصَنَۃَ وَلَا تَغُلَّ اَخَاکَ الْمُسْلِمَ وَلَاتَلْعَبْ وَلَا
تَلْہَ مَعَ اللَّا ھِیْنَ وَلَا تَقُلْ لِلْقَصِیْرِیَاقَصِیْرُتُرِیْدُ بِذٰلِکَ
عَیْبَہٗ وَلَا تَسْخَرْ بِاَحَدٍ مِّنَ النَّاسِ وَلَا تَمْشِ بِا لنَّمِیْمَۃِ
بَیْنَ الْاَ خْوَیْنِ وَاشْکُرِ اللّٰہَ تَعَالٰی عَلٰی نِعَمِہٖ وَاصْبِرْ عَلَی
الْبَلَائِ وَالْمُصِیبَۃِ وَلَا تَامَنْ مِنْ عِقَابِ اللّٰہِ وَلَا تَقْطَعْ
اَقْرِبَائَکَ وَصِلْھُمْ وْلَا تَلْعَنْ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِ اللّٰہِ وَاَکْثِرْ
مِّنَ التَّسْبِیْحِ وَالتَّکْبِیْرِ وَ التَّھْلِیْلِ وَلَا تَدَعْ حَضُوْرَ
الْجُمْعَۃِ وَالْعِیْدَیْنِ وَاعْلَمْ اَنَّ مَااَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ
لِیُخْطِئَکَ وَمَا اَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَلَا تَدَعْ قِرَأئَ
ۃَ الْقُرْاٰنِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ۔ (رواہ الحفظ ابو القاسم بن عبدالرحمن بن محمد
بن اسحاق بن مندۃ والحافظ ابوالحسن علی بن ابی القاسم بن بابویہ الرازی فی الا
ربعین وابن عساکر والرافعی عن سلمان(
ترجمہ :سلمان کہتے ہیں کہ میں نے
حضور اقدس ﷺ سے پوچھا کہ وہ چالیس حدیثیں جن کے بارے میں یہ کہا ہے کہ جو
ان کو یاد کر لے جنت میں داخل ہو گا وہ کیا ہیں حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ۔)۱(اﷲ پرایمان لاوے یعنی اس کی دات
وصفات پر (۲) اور آخرت کے دن پر(۳) اور فرشتوں کے وجود پر (۴) اورکتابوں پر (۵) اور تمام انبیاء ؑپر (۶)اورمرنے کے بعد دوبارہ زندگی پر(۷)اور تقدیر پر کہ بھلا اور برا جو
کچھ ہوتا ہے سب اﷲ ہی کی طرف سے ہے (۸) اور گواہی دے تو اس امر کی کہ اﷲ
کے سواکوئی معبود نہیں اور حضور اکرم ﷺ اس کے سچے رسول ہیں(۹)ہر نماز کے وقت کامل وضو کرکے
نماز قائم کرے کامل وضو وہ کہلاتا ہے جس میں اداب ومستحبات کی رعایت رکھی گئی ہو
اور ہر نماز کے وقت اشارہ ہے اس با کی طرف کہ نیا وضو ہر نماز کیلئے کرے۔ اگرچہ
پہلے وضو ہو کہ یہ مستحب ہے اور نماز کے قائم کرنے سے اس کے تمام سنن و مستحبات کا
اہتمام کرنا مردا ہے۔چنانچہ دوسری روایت میں وارد ہے ان تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلوۃ یعنی جماعت میں صفوں کا ہموار
کرنا کہ کسی قسم کی کجی یادرمیان میں خلانہ رہے، یہ بھی نماز قائم کرنے کے مفہوم
میں داخل ہے۔(۱۰)زکوۃ ادا کرے (۱۱) اوررمضان کے روزے رکھے(۱۲)اگر مال ہو تو حج کرے یعنی اگر
جانے کی قدرت رکھتا ہو تو حج بھی کرے۔ چونکہ اکثر مانع مال ہی ہوتا ہے اس لئے اسی
کو ذکر فرمادیا ورنہ مقصود یہ ہے کہ حج کے شرائط پائے جاتے ہوں تو حج کرے(۱۳) بارہ رکعات سنت موکدہ روزانہ ادا
کرے(اس کی تفصیل دوسری روایات میں اس طرح آتی ہے کہ صبح سے پہلے دو رکعت، ظہر سے
قبل چار رکعت، ظہر کے بعد دورکعت،مغرب کے بعد دو رکعت،عشاء کے بعد دورکعت(۱۴)اور وتر کو کسی رات میں نہ
چھوڑے(چونکہ وہ وجب ہے اوراس کااہتمام سنتوں سے زیادہ ہے اس لئے اس کو تاکیدی لفظ
سے ذک فرمایا(۱۵) اوراﷲ کے ساتھ کسی چیز کو شریک
نہ کرے(۱۶)اور والدین کی نافرمانی نہ کرے(۱۷) اور ظلم سے یتیم کا مال نہ
کھاوے( یعنی اگر کسی وجہ سے یتیم کا مال کھانا جائز ہو جیسا کہ بعض صورتوں میں
ہوتا ہے تو مضائقہ نہیں(۱۸)اور شراب نہ پئے(۱۹)زنا نہ کرے(۲۰)جھوٹی قسم نہ کھاوے (۲۱)جھوٹی گواہی نہ دے(۲۲)خواہشات نفسانیہ پر عمل نہ کرے(۲۳) مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرے(۲۴)عفیفہ عورت کو تہمت نہ لگائے(اسی
طرح عفیف مردکو (۲۵)اپنے مسلمان بھائی سے کینہ نہ
رکھے (۲۶)لہوولعب میں مشغول نہ ہو (۲۷)تماشائیوں میں شریک نہ ہو (۲۸)کسی پستہ قد کو عیب کی نیت سے
ٹھنگنا مت کہو( یعنی اگر کوئی عیب دار لفظ اسیا مشہور ہوگیا ہو کہ اس کے کہنے سے
نہ عیب سمجھاجاتاہو نہ عیب کی نیت سے کہا جاتا ہو جیسا کہ کسی کانام بدھو پڑجاوے
تو مضائقہ نہیں لیکن طعن کی غرض سے کسی کو ایسا کہنا جائز نہیں (۲۹)کسی کا مذاق مت اڑا (۳۰)نہ مسلمانوں کے درمیان چغل خوری
کر (۳۱) اور ہر حال میں اﷲ جل شانہ کی
نعمتوں پر اس کا شکر کر (۳۲) بلااورمصیبت پر صبر کر (۳۳) اور اﷲ کے عذاب سے بے خوف مت ہو
(۳۴) اعزہ سے قطع تعلق مت کر (۳۵)بلکہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کر (۳۶)اﷲ کی کسی مخلوق کو لعنت مت کر (۳۷)سحان اﷲ الحمد ﷲ لا الہ الااﷲ اﷲ
اکبر ان الفاظ کا اکثر وردر کھا کر(۳۸)جمعہ اور عیدین میں حاضری مت چھوڑ(۳۹) اوراس بات کا یقین رکھ کہ جو
تکلیف وراحت تجھے پہنچی وہ مقدر میں تھی جو ٹلنے والی نہ تھی اورجو کچھ نہیں پہنچا
وہ کسی طرح بھی پہنچنے والا نہ تھا (۴۰)اورکلام اﷲ شریف کی تلاوت کسی حال میں بھی مت چھوڑ۔
سلمانؓ کہتے ہیں میں نے حضور ﷺ
سے پوچھا کہ جو شخص اسکو یاد کر لے اسکو کیا اجر ملے گا۔ حضو رﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ حق سبحانہ وتقدس اسکا انبیاء ں اورعلماء کیساتھ حشر فرما ویں گا۔
حق سبحانہ و تقدس ہماری سیئات سے
در گزر فرما کر اپنے نیک بندوں میں محض اپنے لطف سے شامل فرمائیں تو اس کی کریمی
شان سے کچھ بھی بعید نہیں پڑھنے والے حضرات سے بڑی ہی لجاجت کے ساتھ استدعا ہے کہ
دعائے خیر سے اس سیہ کار کی بھی دستگیری فرماویں ۔وَ مَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّابِاللّٰہِ عَلَیْہِ
تَوَ کَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنِیْب۔
محمد زکریا کاندھلوی عفی عنہ
مقیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور ،۲۹ ذی الحجہ ۱۳۳۴۸ ھ پنجشنبہ
No comments:
Post a Comment