Fazail e Amaal in Urdu:Fazail e Namaaz Hadith of virtues of Salat


Assalam o Alaikum Wa Rahmatullahi Wa Barakatuhu,
Bahut se Bhai Aise Hain Jo Internet par Fazail e Amaal ke Khilaf likhte/Bolte Hain Unhone Fazaile Amaal Khud Nahin Padha Hai .Baaz to yeh bhi nahin jante ki ismein kaun si kitabein hai. Sirf kuch group ya Munkiren e Hadith ki baat  sunkar Fazail e Amaal ko bura Bhala kahtte hain.Aur iske Khilaf bolte hain.
Kuch log Scan karke ek page dikha kar ya Page No quote karke  fazail e Amaal par tanqeed Karte hai ....Un Tamam Hazrat se Guzarish Hai ki Ap Faisla karne se Pahle Zara Dekh bhi Lein ki Fazail e Amaal mein kya Hain.....Baqi Apka Faisla Hai Ap Malik Hain...........Isliye Puri Fazail e Amaal ko Word Format mein Apke Samne kiya Ja raha .
Hai.........Fazaile Amaal mein Kai Kitabon ka majmua hai usmein se ek yeh h


مولف
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نوراﷲ مرقدہ
خطبہ و تمہید
بسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، نَحْمَدُہٗ وَنَشْکُرُہٗ وَنُصَلِّیْ وَ نُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ وَعَلٰٓی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَاَتْبَاعِہٖ الْحُمَاۃِ لِلدِّیْنِ الْقَوِیْمِ وَبَعْدُ فَھٰذِہٖ اَرْبَعُوْنَۃٌ فِیْ فَضَائِلِ الصَّلٰوۃِ جَمَعْتُھَا اِمْتِثَالًا لِاَمْرِعَمِّیْ وَصِنْوِاَبِیْ رَقَاہُ اللّٰہُ اِلَی الْمَرَاتِبِ الْعُلْیَا وَوَفَّقَنِیْ وَ اِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی۔
اَمَّابَعْد:اس زمانہ میں دین کی طرف سے جتنی بے توجہی اور بے التفاتی کی جا رہی ہے وہ محتاج بیان نہیں حتیٰ کہ اہم ترین عبادت نماز جو بالاتفاق سب کے نزدیک ایمان کے بعد تمام فرائض پر مقدم ہے اور قیامت میں سب سے اوّل اسی کا مطالبہ ہوگا اس سے بھی نہایت غفلت اور لا پروائی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دین کی طرف متوجہ کرنے والی کوئی آواز کانوں تک نہیں پہنچتی۔ تبلیغ کی کوئی صورت بارآورنہیں ہوتی۔ تجربہ سے یہ بات خیال میں آئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاک ارشادات لوگوں تک پہنچانے کی سعی کی جائے۔ اگر چہ اس میں بھی جو مزاحمتیں حائل ہیں وہ بھی مجھ سے بے بضاعت کیلئے کافی ہیں تاہم اُمید یہ ہے کہ جو لوگ خالی الذہن ہیں اور دین کا مقابلہ نہیں کرتے ہیں یہ پاک الفاظ انشا اللہ تعالیٰ اُن پر ضرور اثر کریں گے اور کلام و صاحب کلام کی برکت سے نفع کی توقع ہے نیز دوسرے دوستوں کو اس میں کامیابی کی اُمیدیں زیادہ ہیں جن کی وجہ سے مخلصین کا اصرار بھی ہے اس لئے اس رسالہ میں صرف نماز کے متعلق چند احادیث کا ترجمہ پیش کرتا ہوں چونکہ نفس تبلیغ کے متعلق بندئہ ناچیز کا ایک مضمون رسالہ فضائل تبلیغ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس وجہ سے ا س کو سلسلہ تبلیغ کا نمبر۲ قرار دیکر فضائل نماز کے نام سے موسوم کرتا ہوں۔ وَمَا تَوْ فِیْقِیْ اِلَّا بِاللہ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔
نماز کے بارے میں تین قسم کے حضرات عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ ایک جماعت وہ ہے جو سرے سے نماز ہی کی پرواہ نہیں کرتی، دوسرا گروہ وہ ہے جو نماز بھی پڑھتے ہیں اور جماعت کا اہتمام بھی کرتے ہیں مگر لا پروائی اور بری طرح سے پڑھتے ہیں اسلئے اس رسالہ مین تینوں مضامین کی مناسبت سے تین باب ذکر کئے گئے ہیں اور ہر باب میں نبی اکرمﷺ کے پاک ارشادات اور انکا ترجمہ پیش کر دیا ہے۔ مگر ترجمہ میں وضاحت اور سہولت کا لحاظ کیا ہے، لفظی ترجمہ کی زیادہ رعایت نہیں کی۔ چونکہ نماز کی تبلیغ کرنے والے اکثر اہل علم بھی ہوتے ہیں اسلئے حدیث کا حوالہ اور اس کے متعلق جو مضامین اہل علم سے تعلق تھے وہ عربی میں لکھ دیئے گئے ہیں کہ عوام کو اُن سے کچھ فائدہ نہیں ہے اور تبلیغ کرنے والے حضرات کو بسا اوقات ضرورت پڑ جاتی ہے اور ترجمہ و فوائد وغیرہ اردو میں لکھ دیئے گئے ہیں۔
باب اول
نماز کی اہمیت کے بیان میں
اس باب میں دو فصلیں ہیں۔ فصل اوّل میں نماز کی فضیلت کا بیان ہے اور دوسری فصل میں نماز کے چھوڑنے پر جو وعید اور عتاب حدیث میں آیا ہے اس کا بیان ہے۔
فصل اول
نماز کی فضیلت کے بیان میں
۱۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰي خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ ْٗہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقامِ الصَّلوٰۃِ وَاِیْتاَئِ الذَّکَوٰۃِ وَالَحجِّ وَصَوْمِ رَمضَانَ۔(متفق علیہ) (وقال المنذری فی الترغیب رواہ البخاری و مسلم ر غیر ھما عن غیر واحد م الصحابۃ )
حضرت عبد بن عمر رضی اﷲ عنہ ، نبی کریمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے سب سے اول لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی گواہی دینا یعنی اس بات کا اقرار کرنا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اسکے بعد بماز کاقائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا، رمضان المبارکے روزے رکھنا۔
ف: یہ پانچوں چیزیں ایمان کے بڑے اصول اہم ارکان ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس پاک حدیث میں بطورِ مثال کے اسلام کو ایک خیمہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو پانچ ستونوں پر قائم ہوتا ہے پس کلمہ شہادت خیمہ کی درمیانی لکڑی کی طرح ہے اور بقیہ چاروں ارکان بمنزلہ ان چار ستونوں کے ہیں جو چاروں کونوں پر ہوں۔ اگر درمیانی لکڑی نہ ہو تو خیمہ کھڑا ہو ہی نہیں سکتا اور اگر یہ لکڑی موجود ہو اور چاروں طرف کے کونوں میں کوئی سی لکڑی نہ ہو تو خیمہ قائم تو ہو جائے گا لیکن جونسے کونے کی لکڑی نہیں ہوگی وہ جانب ناقص اور گری ہوئی ہوگی۔ اس پاک ارشاد کے بعد اب ہم لوگوں کو اپنی حالت پر خود ہی غور کر لینا چاہیے کہ اسلام کے اس خیمہ کو ہم نے کس درجہ تک قائم کر رکھا ہے۔ اور اسلام کا کونسا رکن ایسا ہے جس کو ہم نے پورے طور پر سنبھال رکھا ہے۔ اسلام کے یہ پانچوں ارکان نہایت اہم ہیں حتی کہ اسلام کی بنیاد انہی کو قرار دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کیلئے بحیثیت مسلمان ہونے کے ان سب کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ مگر ایمان کے بعد سب سے اہم چیز نماز ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺسے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ شانہ‘ کے یہاں سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ نماز۔ میں نے عرض کیا اس کے بعد کیا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ میں عرض کیا اس کے بعد کونسا ہے۔ ارشاد فرمایا جہاد۔ ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں علماء کے اس قول کی دلیل ہے کہ ایمان کے بعد سب سے مقدم نماز ہے۔ اس کی تائید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے جس میں اِرشاد ہے اَلصَّلوٰۃُ خَیْرُ مَو ضُوْعِ یعنی بہترین عمل جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کیلئے مقرر فرمایا وہ نماز ہے ۔آھ ۔ اور احادیث میں کثرت سے یہ مضمون صاف اور صحیح حدیثوں میں نقل کی گیا ہے کہ تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے۔ چنانچہ جامِع صغیر میں حضرت ثوبانؔؓ ، ابن عمروؔؓ ، سلمہؔ ، ابو امامہؔ ، عبادۃؔ رضی اﷲ عنہم پانچ صحابہؓ سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے اور حضرت ابن مسعودؓ سے اپنے وقت پر نماز کا پڑھنا افضل ترین عمل نقل کیا گیا ہے حضرت ابن عمرؓ اور ام فروَہؓ سے اول وقت نماز پڑھنا نقل کیا گیا ہے۔ مقصد سب کا قریب قریب ایک ہی ہے۔
۲۔ عَنْ اَبِیْ ذَرِ اَنَّ النَّبِیَّ خَرَجَ فِی الشِّتَائِ وَالْوَرَقُ یَتَہاَفَتُ فَاَخَذَبِغُصْنِ مِّنْ شَجَرَۃِ قَالَ فَجَعَلَ ذٰلِکَ الْوَرَقُ یَتَہاَفَتُ فَقَالَ یَآاَباَذَرِ قُلْتُ لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِنَّ الْعَبْدَالْمُسْلِمَ لَیُصَلِّی الصَّلوٰۃَ یُرِیْدُ بِہاَ وَجْہَااللّٰہِ فَتَہاَفَتُ عَنْہ‘ ذُنُوْبَہ‘ کَماَ تَہاَفَتَ ھٰذَاالْوَرَقُ عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ۔
(رواہ احمدباسنادحسن کذا فی الترغیب)
حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ سردی کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پَتے درختوں پر سے گر رہے تھے آپؐ نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتّے اور بھی گرنے لگے آپﷺنے فرمایا اے ابوذر مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس سے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گر رہے ہیں۔
ف: سردی کے موسم میں درختوں کے پتے ایسی کثرت سے گرتے ہیں کہ بعضے درختوں پر ایک بھی پتہ نہیں رہتانبی اکرم ﷺ کا پاک اِرشاد ہے کہ اخلاص سے نماز پڑھنے کا اثر بھی یہی ہے کہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ایک بھی نہیں رہتا۔ مگر ایک بات قابل لحاظ ہے عُلماء کی تحقیق آیات قرآنیّہ اور احادیث نبویہ کی وجہ سے یہ ہے کہ نماز وغیرہ عبادات سے صرف گناہِ صغیرہ معاف ہوتے ہیں، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا اس لئے نماز کے ساتھ توبہ و اِسْتِغْفَار کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ البتہ حق تعالیٰ شانہ‘ اپنے فضل سے کسی کے گناہ کبیرہ بھی معاف فرمادیں تو دوسری بات ہے۔(جامع صغیر)
۳۔ عَنْ اَبِیْ عُثْمَاؓنَ قَالَ کُنْتُ مَعْ سلْمَانَؓ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَاَ خَذَ غُصْنًا مِّنْہَا یَا بِسًا فَہَزَّہٗ حَتّٰی تَحَاتَّ وَرَقُہٗ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَا عُثْمَانَ اَلاَ تَسْئَلُنِیْ لِمَ اَفْعَلُ ھٰذَ قُلْتُ وَلِمَ تَفْعَلُہْ قَالَ ھٰکَذَافَعَلَ بِی رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اَنَامَعَہٗ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ وَاَخَذَ َمنْھَاغُصْنًا یَا بِسًا فَھَزَّہ‘ حَتّٰی تَحَاتَّ وَرَقُہ‘ فَقَالَ یَا سَلْمَانُ الاَ تَسْئَالُنِیْ لِمَ اَفْعَلُ ھٰذَاقُلْتُ وَلِمَ تَفْعَلُہ‘ قَالَ اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا تَوَضَّائَفَاَحْسَنَ الْوُ ضُوْئَ ثُمَّ صَلَّی الصَّلٰوت الْخَمْسَ تَحَاتَّتْ خَطَایَاہِکَمَا تَحَاتَّ ھَذَا الْوَرَقُ وَقَالَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفِیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَیِّئَاتِط ذَالِکَ ذِ کْریٰ لِلذَّاکِرِیْنَ ط (رواہ احمد وا لنسائی والطبرانی ورواہ احمد محتج بھم فی الصحیح الا علی بن ذیدکذافی الترغیب)
ابوعثمان رضی اﷲعنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا اُنہوں نے اس درخت کی ایک خشک ٹہنی پکڑ کر اس کو حرکت دی جس سے اُس کے پتے گر گئے پھر مجھ سے کہنے لگے کہ ابو عثمان تم نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ میں نے یہ کیوں کیا۔ میں نے کہا بتا دیجئے کیوں کیا اُنہوں نے کہامیں کہا بتا دیجئے کیوں کیا اُنہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھاآپﷺ نے بھی درخت کی ٹہنی پکڑ کر اسی طرح کیا تھا جس سے اس ٹہنی کے پتّے جھڑ گئے تھے پھر حضورﷺ نے ارشا د فرمایا تھا کہ سَلمان پوچھتے نہیں کہ میں نے اس طرح کیوں کیا میں نے عرض کیا کہ بتادیجئے کیوں کیا آپﷺے ارشاد فرمایا تھا کہ جب مسلمان اچھی طرح سے وضو کرتا ہے پھر پانچوں نمازیں پڑھتا ہے اس کی خطائیں اس سے ایسی ہی گر جاتی ہیں جیسے یہپتے گرتے ہیں
پھر آپﷺنے قرآن کی آیت اَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِتلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ قائم کر نماز کو دن کے دونوں میں اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں دور کردیتی ہیں گناہوں کو ،یہ نصیحت ہے ،نصیحت ماننے والوں کے لئے۔
ف: حضرت سلمانؓ نے جو عمل کرکے دکھلایا یہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے تعشق کی ادنیٰ مثال ہے۔ جب کسی شخص کو کسی سے عشق ہوتا ہے اس کی ہر ادا بھاتی ہے اور اسی طرح ہر کام کے کرنے کو جی چاہا کرتا ہے جس طرح محبوب کو کرتے دیکھتا ہے۔ جو لوگ محبت کا ذائقہ چکھ چکے ہیں وہ اُسکی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ،نبی اکرم ﷺکے ارشادات نقل کرنے میں اکثر ان افعال کی بھی نقل کرتے تھے جو اس ارشاد کے وقت حضورﷺنے کیے تھے۔ نماز کا اہتمام اور اس کی وجہ سے گناہوں کا معاف ہونا جس کثرت روایات میں ذکر کیا گیا ہے اس کا اِحاطہ کرنا دُشوار ہے۔ پہلے بھی متعدد روایات میں یہ مضمون گزر چکاہے علما نے اس کو صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا پہلے معلوم ہو چکا۔ مگر احادیث میں صغیرہ کبیرہ کی کوئی قید نہیں ہے مُطلق گناہوں کا ذکر ہے۔ میرے والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے تعلیم کے وقت اس کی دو وجہیں اِرشاد فرمائی تھیں۔ ایک یہ کہ مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ اُس کے ذمّہ کوئی کبیرہ ہو۔ اولاً تو اس سے گناہ کبیرہ کا صادر ہونا ہی مشکل ہے اور اگر ہو بھی گیا تو بغیر توبہ کے اس کو چین آنا مشکل ہے۔ مسلمان کی مسلمانی شان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جب اس سے کبیرہ صادر ہو جائے تو اتنے رو پیٹ کر اس کو دھو نہ لے اس کو چین نہ آئے۔ البتہ صغیرہ گناہ ایسے ہیں کہ ان کی طرف بسا اوقات التفات نہیں ہوتا ہے اور ذمہ پررہ جاتے ہیں۔جو نماز وغیرہ سے معاف ہو جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص اخلاص سے نماز پڑھے گا اور آداب و مستحبات کی رعایت رکھے گا، وہ خود ہی نہ معلوم کتنی مرتبہ توبہ و استغفار کرے گا۔ اور نماز میں التحیات کی اخیر دعا اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ الخ میں تو توبہ و استغفار خود ہی موجود ہے۔ ان روایا ت میں وضو کو بھی اچھی طرح سے کرنے کا حکم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے آداب و مستحبات کی تحقیق کرکے ان کا اِہتمام کرے مثلاًایک سنت اس کی مسواک ہی ہے۔ جس کی طرف عام طور پر بے توجہی ہے حالانکہ حدیث میں وارد ہے کہ جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے وہ اس نماز سے جو بلا مسواک پڑھی جائے ستر درجہ افضل ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ مسواک کا اِہتمام کیا کرو۔ اس میں دس فائدے ہیں۔ منہ کو صاف کرتی ہے۔ اللہ کی رضا کا سبب ہے، شیطان کو غصہ دلاتی ہے، مسواک کرنے والے کو اللہ محبوب رکھتے ہیں اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں، مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے،بلغم کو قطع کرتی ہے، منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے، صفراء کو دور کرتی ہے، نگاہ کو تیز کرتی ہے ، منہ کی بدبو کو زائل کرتی ہے اور اس سب کے علاوہ یہ ہے کہ سنت ہے(منہبات ابن حجر)علماء نے لکھا ہے کہ مسواک کے اہتمام میں ستر فائدے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل افیون کھانے میں سترمضرتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ یاد نہیں آتا ۔ اچھی طرح وضو کرنے کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے آئے ہیں۔ وضو کے اَعضاء قیامت کے دن روشن اور چمک دار ہونگے اورحضورﷺ فوراًاپنے امتی کو پہچان جائیں گے۔
۴۔ الف: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ سَمَعْتُ رسول اللّٰہ  یَقُوْلُ اَرَأَیْتُمْ لَوْاَنَّ نَھْرًا بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ھَلْ بَقِیَ مِنْ دَرَنِہٖ شَیْئٌ قَالُوالَایَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَیْء قَالَ فَکَذٰلِکَ مَثَلُ  الصَّلَوٰتِ الْخَمْسِ یَمْحُوااﷲُ بِھِنَّ الْخَطَایَا (رواہ البخاری ومسلم والترمذے والنسایٔ ورواہ ابن مجہ من حدیث عثمان کذافی الترغیب)
حضرت ابوہریرہؓ، نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا بتائو اگر کسی شخص کے دروازہ پر نہر جاری ہو جس میں وہ پانچ مرتبہ روزانہ غسل کرتا ہو کیا اُس کے بدن پر کچھ میل باقی رہے گا۔ صحابہ ؓنے عرض کیا کہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا حضورﷺنے فرمایا کہ یہی حال پانچوں نمازوں کا ہے کہ اللہ جل شانہ‘ ان کی وجہ سے گناہوں کو زائل کردیتے ہیں۔
۴۔ ب : عَنْ جَابِر قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ مثَلُ الصَّلٰوتِ الخَمْسِ کَمَثَلِ نَھْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلٰی بَابِاَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مَنْہ‘ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ۔(رواہ مسلم کذافی الترغیب)
حضرت جابر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ کا اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس کا پانی جاری ہو اور بہت گہرا ہو۔ اس میں روزانہ پانچ دفعہ غسل کرے۔
ف: جاری پانی گندگی وغیرہ سے پاک ہوتا ہے اور پانی جتنا بھی گہرا ہوگا اتنا ہی پاک اور شفاف ہوگا اسی لئے اس حدیث میں اس کا جاری ہونا اور گہرا ہونا فرمایا گیا ہے اور جتنے صاف پانی سے آدمی غسل کرے گا اتنی ہی صفائی بدن پر آئے گی۔ اسی طرح نمازوں کی وجہ سے اگر آداب کی رعایت رکھتے ہوئے پڑھی جائیں، تو گناہوں سے صفائی حاصل ہوتی ہے۔ جس قسم کا مضمون اِن دو حدیثوںمیں اِرشاد ہوا ہے اس قسم کا مضمون کئی حدیثوں میں مختلف صحابہؓ سے مختلف الفاظ میں نقل کیا گیا ہے۔ ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضوراقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ پانچوں نمازیں درمیانی اوقات کیلئے کفارہ ہیں یعنی ایک نماز سے دوسری نماز تک جو صغیرہ گناہ ہوتے ہیں ہو نماز کی برکت سے مُعاف ہوجاتے ہیں۔ اُس کے بعد حضورﷺنے ارشاد فرمایا مثلاًایک شخص کا کوئی کارخانہ ہے جس میں وہ کچھ کاروبار کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بد ن پر کچھ گردوغبار میل کچیل لگ جاتا ہے اور اس کے کارخانے اور مکان کے درمیان میں پانچ نہریں پڑتی ہیں۔ جب وہ کارخانہ سے گھر جاتا ہے تو ہر نہر پر غسل کرتا ہے۔ اسی طرح سے پانچوں نمازوں کا حال ہے کہ جب کبھی درمیانی اوقات میں کچھ خطا اور لغزش وغیرہ ہوجاتی ہے تو نمازوں دُعا اِسْتِغْفار کرنے سے اللہ جل شانہ‘ بالکل اس کو مُعاف فرمادیتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کا مقصود اس قسم کی مثالوں سے اس امْر کا سمجھا دینا ہے کہ اللہ جل شانہ‘ نے نمازوں کو گناہوں کی معافی میں بہت قوی تاثیر عطا فرمائی ہے اور چونکہ مثال سے بات ذرا اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے اس لئے مختلف مثالوں سے حضورﷺنے اس مضمون کو واضح فرمادیا ہے۔ اللہ جل شانہ‘ کی اس رحمت اور وسعت مغفرت اور لطف و انعام اور کرم سے ہم لوگ فائدہ نہ اٹھائیں تو کسی کا کیا نقصان ہے اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں۔ ہم لوگ گناہ کرتے ہیں، نافرمانیاں کرتے ہیں، حکم عدولیاں کرتے ہیں تعمیل اِرشاد میں کوتاہیاں کرتے ہیں اس کا مقتضی یہ تھا کہ قادر عادل بادشاہ کے یہاں ضرور سزا ہوتی اور اپنے کئے کو بھگتتے، مگر اللہ کے کرم کے قربان کہ جس نے اپنی نافرمانیاں اور حکم عدولیاں کرنے کی تلافی کا طریقہ بھی بتا دیا اگر ہم اس سے نفع حاصل نہ کریں تو ہماری حماقت ہے۔ حق تعالیٰ شانہ‘ کی رحمت اور لطف تو عطا کے واسطے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ ایک حدیث میں اِرشاد ہے کہ جو شخص سوتے ہوئے یہ ارادہ کرے کہ تہجد پڑھونگا اور پھر آنکھ نہ کھلے تو اس کا ثواب اس کو ملے گا اور سونا مفت میں رہا۔ کیا تھکانا ہے اللہ کی دین اور عطا کا، اور جو کریم اس طرح عطائیں کرتا ہو اُس سے نہ لینا کتنی محرومی اور کتنا زبردست نقصان ہے۔
۵۔ عَنْ حُذَیْفَۃَؓ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ اِذَاحَزَبَہ‘ اَمْرٌفَزَعَ اِلَی الصَّلٰوۃِ۔(اخرجہ احمد وابوداودوابن جریرکذافی الدرالمنثور)
حضرت خذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی سخت امْر پیش آتا تھا تو نماز کی طرف فوراََ متوجہ ہوتے تھے۔
ف: نماز اللہ کی بڑی رحمت ہے اس لئے ہر پریشانی کے وقت میں ادھر متوجہ ہوجانا گویا اللہ کی رحمت کی طرف متوجّہ ہے اور جب رحمت الٰہی مساعد و مددگار ہو تو پھر کیا مجال ہے کسی پریشانی کی کہ باقی رہے۔ بہت سی روایتوں ميں مختلف طور سے یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین جو ہر قدم پر حضورﷺکا اتباع فرمانے والے ہیں ان کے حالات میں بھی یہ چیز نقل کی گئی ہے۔ حضرت ابو دردائؓ فرماتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تو حضور اقدسﷺ فوراًمسجد میں تشریف لے جاتے تھے اور جب تک آندھی بند ہو جاتی مسجد سے نہ نکلتے۔ اس طرح جب سورج یا چاند گرہن ہوجاتاتو حضورﷺ تو حضورﷺفوراًنماز کی طرف متوجہ ہو جاتے ۔ حضرت صہیبؓ، حضوراقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ پہلے اَنبیاں کا بھی یہی معمول تھا کہ ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ یک مرتبہ سفر میں تھے راستہ میں اطلا ع ملی کہ بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ اونٹ سے اُترے دو رکعت نماز پڑھی پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور پھر فرمایا کہ ہم نے وہ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور قرآن پاک کی آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَالصَّلوٰۃِتلاوت کی۔ ایک اور قصہ اسی قسم کا نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں اُن کے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملی۔ راستہ سے ایک طرف ہوکر اُونٹ سے اُترے، دو رکعت نماز پڑھی اور التحیات میں بہت دیر تک دعائیں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد اُٹھے اور اُونٹ پر سوار ہوئے اور قرآن پاک آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِا الصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃ’‘ اِلَّاعَلیَ الْخَاشِعِیْنَ تلاوت فرمائی۔
ترجمہ :اور مدد حاصل کرو صبر کے ساتھ اور نماز کے ساتھ اور بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے، اُن پر دشوار نہیں ۔ خشوع کا بیان تیسرے باب میں مفصل آرہا ہے۔ انہیں کا ایک اور قصّہ ہے کہ اَزواجِ مطہرات ؓ میں سے کسی کے انتقال کی خبر ملی تو سجدہ میں گر گئے۔ کسی نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات تھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ حضورﷺکا ہم کو یہی ارشاد ہے کہ جب کوئی حادثہ دیکھو تو سجدہ میں (یعنی نماز میں) مشغول ہوجائو اس سے بڑا حادثہ اور کیا ہوگا کہ ام المومنین ؓ کا انتقال ہو گیا۔حضرت عبادہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے انتقال کا وقت جب قریب آیاتو جو لوگ وہاں موجود تھے اُن سے فرمایا کہ میں ہر شخص کو اس سے روکتا ہوں کہ وہ مجھے روئے اور جب میری روح نکل جائے تو ہر شخص وضو کرے اور اچھی طرح سے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے وضو کرے اور پھر مسجد میں جائے اور نماز پڑھ کر میرے واسطے استغفار کرے۔ اس لئے کہ اللہ جل شانہ‘ نے وَاسْتَعِیْنُوْ بالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِکا حکم فرمایا ہے ۔ اس کے بعد مجھے قبر کے گڑھے میں پہنچا دینا حضرت ام کلثومؓ کے خاوند حضرت عبدالرحمن بیمار تھے اور ایک دفعہ ایسی سکتہ کی سی حالت ہو گئی کہ سب نے انتقال ہو جانا تجویز کر لیا۔ حضرت ام کلثومؓ اُنہیں اور نماز کی باندھ لی۔ نماز سے فارغ ہوئیں تو حضرت عبدالرحمن کو بھی افاقہ ہوا۔ لوگوں سے پوچھاکیا میری حالت موت کی سی ہوگئی تھی لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ چلو احکم الحکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے وہ مجھے لے جانے لگے تو ایک تیسرے فرشتے آئے اور اُن دونوں سے کہا کہ تم چلے جائو یہ ان لوگوں میں ہیں جن کی قسمت میں سعادت اسی وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے اور ابھی ان کی اولاد کو ان سے اور فوائد حاصل کرنے ہیں۔ اس کے بعد ایک مہینہ تک حضرت عبدالرحمن زندہ رہے پھر انتقال ہوا۔
حضرت نضرؓ کہتے ہیں کہ دن میں ایک مرتبہ سخت اندھیرا ہوگیا ۔ میں دوڑا ہوا حضرت انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دریافت کیا کہ حضورﷺکے زمانہ میں بھی کبھی ایسی نوبت آئی ہے۔ انہوں نے فرمایا خدا کی پناہ ، حضورﷺکے زمانہ میں تو ذرا بھی ہوا تیز چلتی تھی تو ہم سب مسجدوں کو دوڑ جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی۔ عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی پیش آتی، تو اُن کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے۔ وَائْ مُرْ اَھْلَکَ بِا لصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقاَ الآیۃ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیٔ اور خود بھی اس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی کموانا نہیں چاہتے روزی تو آپ کو ہم دیں گے۔ایک حدیث میں اِرشا د کہ جس شخص کوئی بھی ضرورت پیش آئے دینی ہو یا دنیو ی ا س کاتعلق مالک الملک سے ہو یا کسی آدمی سے، اس کو چاہیے کہ بہت اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ جل شانہ ٗکی حمدوثنا کرے اور پھر درود شریف پڑھے اس کے بعد یہ دُعا پڑھے تو انشاء اللہ اس کی حاجت ضرور پوری ہوگی۔دعا یہ ہے:۔
{ لاَ اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرِّ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدَعْ لِی ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ یَآ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ وَلَا ہَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَا حَاجَۃً ہِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَہَا یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ }
وہبؒ بن منبہؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نماز کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو جب کوئی حادثہ پیش آتا تھا وہ نماز ہی کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ جس پر بھی کوئی حادثہ گذرتا وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ کہتے ہیں کوفہ میں ایک قلی تھا جس پر لوگوں کو بہت اِعتماد تھا امین ہونے کی وجہ سے تاجروں کا سامان روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا۔ ایک مرتبہ وہ سفر میں جارہا تھا۔ راستہ میں ایک شخص اس کو ملا۔ پوچھا کہاں کا ارادہ ہے۔ قلی نے کہا فلاں شہر کو۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی وہاں جانا ہے۔ میں پائوں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پر سوار کرلے۔ قلی نے اس کو منظور کر لیا وہ سوار ہوگیا۔ راستہ میں ایک دو راہہ ملا۔ سوار نے پوچھا کدھر کو چلنا چاہیے۔ قلی نے شارع عام کا راستہ بتایا۔ سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے اور جانور کے لئے بھی سہولت کا ہے کہ سبزہ اس پر خوب ہے۔ قلی نے کہا میں نے یہ راستہ دیکھا نہیں۔ سوار نے کہا میں بارہا اس راستہ پر چلا ہوں۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے اسی راستہ کو چلے۔ تھوڑی دور چل کر وہ راستہ ایک وحشت ناک جنگل پر ختم ہوگیا۔ جہاں بہت سے مردے پڑے تھے۔ وہ شخص سواری سے اُترااور کمر سے خنجر نکال کر قلی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ قلی نے کہا، ایسا نہ کر۔ یہ خچر اور سامان سب کچھ لے لے یہی تیرا مقصود ہے مجھے قتل نہ کر۔ اس نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے مارونگا پھر یہ سب کچھ لونگا۔ اس نے بہت عاجزی کی مگر اُس ظالم نے ایک بھی نہ مانی۔ قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت آخری نماز پڑھنے دے۔ اُس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا۔ جلدی سے پڑھ لے ان مردوں نے بھی یہی درخواست کی تھی مگر اُن کی نمازنے کچھ بھی کام نہ دیا۔ اس قلی نے نماز شروع کی۔ الحمد شریف پڑھ کر سورت بھی یاد نہ آئی۔ اُدھر وہ ظالم کھڑا تقاضا کر رہا تھاکہ جلدی ختم کر۔ بے اختیار اُسکی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی{ اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ } یہ پڑھ رہاتھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہواجس کے سر پر چمکتا ہوا خَود (لوہے کی ٹوپی) تھا اُس نے نیزہ مار کر اُس ظالم کو ہلاک کردیا ۔ جس جگہ وہ ظالم گرا ، آگ کے شعلے اس جگہ سے اُٹھنے لگے۔ یہ نمازی بے اختیا ر سجدہ میں گر گیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نماز کے بعد اُس سوار کی طرف دوڑا۔ اُس سے پوچھاکہ خدا کے واسطے اتنا بتادو کہ تم کون ہو کیسے آئے۔ اُس نے کہا کہ میں { اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ }کا غلام ہوں اب تم مامون ہو جہاں چاہے جائو۔ یہ کہ کر چلاگیا۔ درحقیقت نماز ایسی یہ بڑی دولت ہے کہ اللہ کی رضا کے علاوہ دنیا کے مصائب سے بھی اکثر نجات کا سبب ہوتی ہے، اور سکونِ قلب تو حاصل ہوتا ہی ہے۔ ابن سیر ؒ کہتے ہیں کہ اگر مجھے جنت کے جانے میں اور دو رکعت نماز پڑھنے میں اختیار دے دیا جائے تو میں دو رکعت ہی کو اختیا ر کروںگا۔ اس لئے کہ جنت میں جانا میری اپنی خوشی کے واسطے ہے اور دو رکعت نماز میں میرے مالک کی رضا ہے۔ حضورﷺکا ارشاد ہے۔ بڑا قابل رشک ہے وہ مسلمان جو ہلکا پھلکا ہو(یعنی اہل و عیال کا بوجھ نہ ہو) نماز سے وافر حصہ اس کو ملا ہو۔ روزی صرف گزارے کے قابل ہو جس پر صبر کرکے عمر گزار دے۔اللہ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو۔ گمنامی میں پڑا ہو۔ جلدی سے مرجاوے۔ نہ میراث زیادہ ہو نہ رونے والے زیادہ ہوں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنے گھر میں نماز کثرت سے پڑھا کرو، گھر کی خیر میں اضافہ ہوگا۔
۶۔ عَنْ اَبِیْ مُسْلِمٍ نِ التَّغْلَبِیِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ اُمَامَۃَوَھُوَفِی الْمَسْجَدِ فَقُلْتُ یَااَبَااُمَامَۃَاِنَّ وَاُذْنَیْہِ ثُمَّ قَامَ اِلَی صَلٰوۃٍمَّفْرُوْضَۃٍ غَفَرَاﷲُ لَہ‘ فِیْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مَا مَشَتْ اِلَیْہِ رِجْلَاہُ وَقَبَضَتْ عَلَیْہِ یَدَاہُ وَسَمِعَتْ اِلَیْہِ اُذُنَاہُ وَنَظَرَتْ اِلَیْہِ عَیْنَاہ‘ وَحَدَّثَ بِہٖ نَفْسُہ‘ مِنْ سُوْئٍ فَقَالَ وَاﷲِ لَقَدْ سَمِعْتُہ‘ مِنَ النَّبِیِّ  مِرَارًا۔(رواہ احمدوالغالب علی سند ہ الحسن وتقدم لہ شواھدفی الوضوء کذافی الترغیب قلت وقدروی معنی الحدیث عن ابی امامۃ بطرق فی مجمع الزوائد)
ابو مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپکی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ جل شانہ، اس دن وہ گناہ جوچلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اسکے ہاتھوںنے کیا ہو اور وہ گناہ جو اسکے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوںسے کیاہواوروہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں ۔سب کو معاف فرما دیتے ہیں حضرت ابو امامہ نے فرمایا کہ میں نے یہ مضمون نبی اکرم ﷺ سے کئی دفعہ سنا ہے
ف : یہ مضمون بھی کئی صحابہؓ سے نقل کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت عبداللہ صنابحیؓ، حضرت عمروؓ بن عبسہ وغیرہ حضرات سے مختلف اَلفاظ کے ساتھ متعدد روایات میں ذکر کیا گیا ہے اور جو اہل کشف ہوتے ہیں اُن کو گناہوں کا زائل محسوس بھی ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا قصہ مشہور ہے کہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرما لیتے تھے کہ کونسا گناہ اس میں دھل رہا ہے۔ حضرت عثمان کی ایک روایت میں نبی اکرم ﷺْ کا یہ اِرشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو اس بات سے غرور نہیں ہونا چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھمنڈ پر کہ نماز سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں جرأت نہیں کرنا چاہیے اس لئے کہ ہم لوگوں کی نماز اور عبادات جیسی ہوتی ہیں اُن کو اگر حق تعالیٰ جل شانہ، اپنے لطف و کرم سے قبول فرمالیں تو اُن کا لطف، احسان و اِنعام ہے ورنہ ہماری عبادتوں کی حقیقت ہمیں خوب معلوم ہے۔ اگرچہ نماز کا یہ اثر ضروری ہے کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں مگر ہماری نماز بھی اس قابل ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ ا س وجہ سے گناہ کرنا کہ میرا مالک کریم ہے معاف کرنے والا ہے انتہائی بے غیرتی ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ کوئی شخص یوں کہے کہ اپنے ان بیٹوں سے جو فلاں کام کریں درگزر کرتا ہوں تو وہ نالائق بیٹے اس وجہ سے کہ باپ نے درگزر کرنے کو کہہ دیا ہے جان جان کر اُس کی نافرمانیاں کریں۔
۷۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ کَانَ رَجُلَانِ مِنْ بَلِیِّ حَیٌّ مِّنْ قُضَاعَۃَ اَسْلَمَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ  فَاسْتُشْھِدْ اَحَدُ ھُمَا وَاُخِّرَ الْاٰخَرُ سَنَۃً قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اﷲِ فَرَأَیْتُ الْمُؤَخَّرَ مِنْھُمَااُدْخِلَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الشَّھِیْدِ فِتِعِجَّبْتُ لِذٰلِکَ فَاَصْبَحْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ  اَوْذُکِرَ لِرَسُوْلِ اﷲِ  فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِاَلَیْسَ قَدْصَامَ بَعْدَہ‘ رَمَضَانَ وَصَلّٰی سِتَّۃَ اٰلَافِ رَکْعَۃٍ وَکَذَا وَکَذَا رَکْعَۃً صَلٰوۃَ سَنَۃٍ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو صحابی ایک ساتھ مسلمان ہوئے اُن میں سے ایک صاحب جہاد میں شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد انتقال ہوا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا تھا اُن شہید سے بھی پہلے جنت میں ہوگئے تو مجھے بڑا تعجب ہواشہید کا درجہ تو بہت اونچا ہے ہو پہلے جنت میں داخل ہوتے ۔ میں حضورﷺسے خود عرض کیا یا کسی اور نے عرض کیا تو حضور اقدسﷺارشاد فرمایا کہ جن صاحب کا بعد میں اِنتقال ہوا ان کی نیکیاں نہیں دیکھتے کتنی زیادہ ہوگئیں ایک رمضان المبارک کے پورے روزے بھی اُن کے زیادہ ہوئے اور چھ ہزار اور اتنی اتنی رکعتیں نماز کی ایک سال میں اُن کی بڑھ گئیں۔
(رواہ احمد باسنادحسن ورواہ ابن ماجۃوابن حبان فی صحیہ والبیھقی کھم عن طلھۃ بنحوہ اطول منہ وزادابن ماجہ وابن حبان فی احرہ فلما بیینھما اطول ما بین السما والارض کذا فی التر غیب ولفظ احمد فی النسخۃ التی با ید ینا اوکذاوکذا رکعۃ بلفظ اووفی الد را خرجہ مالکٔ وا حمد والنسائی وابن خزیمۃوالحا کم والبییہقی فے شعب الایمان عامر بن سعد قال سمعت سعد اونا سامن الصحا بۃ یقو لون کان رجلان اخران فی عہد رسول اللّٰہ  وکان احدہما افضل من الاخر فتونی الزی ہو افضلہما ثم عمر الاخر بعدہ اربعین لیلۃ الحدیث وقد ا خرج ابوداؤد بعنی حدیث الباب من حدیث عبید بن خا لد بافظ قتل احدہما وما ت الاخر بعدہ بجمعۃ الحدیث) ۔
ف: اگرایک سال کے تمام مہینے انتیس دن کے لگائے جائیں اور صرف فرض اور وتر کی بیس رکعتیں شمار کی جائیں تب بھی چھ ہزار نو سو ساٹھ رکعتیں ہوتی ہیں اور جتنے مہینے تیس دن کے ہوں گے بیس بیس رکعتوں کا اضافہ ہوتا رہے گا اور سنتیں اور نوافل بھی شمار کئے جائیں تو کیا ہی پوچھنا ۔ ابن ماجہ میں یہ قصّہ اور بھی مفصل آیا ہے اس میں حضرت طلحہ ؓ جو خواب دیکھنے والے ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو آدمی حضوراقدسﷺکی خدمت میں ایک ساتھ آئے اور اکھٹے مسلمان ہوئے ایک صاحب بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے تھے وہ ایک لڑائی میں شہید ہو گئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں اور وہ دونوں صاحب بھی وہاں ہیں۔ اندر سے ایک شخص آئے اور اُن صاحب کو جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا تھا اندر جانے کی اجازت ہوگئی اور جو صاحب شہید ہوئے تھے وہ کھڑے رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اندر سے ایک شخص آئے اور اُن شہید کو بھی اجازت ہوگئی اور مجھ سے کہا کہ تمہارا ابھی وقت نہیں آیا تم واپس چلے جاؤ۔ میں نے صبح کو لوگوں سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ سب کو اس پر تعجب ہوا کہ ان شہید کو بعد میں اجازت کیوں ہوئی ان کو تو پہلے ہونی چاہیے تھی۔ آخر حضورﷺسے لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا توحضورﷺنے اِرشاد فرمایا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسولﷺاللہ وہ شہید بھی ہوئے اور بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے بھی تھے اور جنت میں یہ دوسرے صاحب پہلے داخل ہوگئے حضورﷺنے اِرشادفرمایا، کیا انہوں نے ایک سال عبادت زیادہ نہیں کی عرض کیا، بیشک کی۔ اِرشاد فرمایا، کیا انہوں نے پورے ایک رمضان کے روزے اُن سے زیادہ نہیں رکھے عرض کیا گیا بیشک رکھے۔ اِرشاد فرمایا کیا انہوں نے اتنے اتنے سجدے ایک سال کی نمازوں کے زیادہ نہیں کئے۔ عرض کیا گیا بیشک کئے۔ حضورﷺنے فرمایا پھر اِ ن دونوں میں آسمان زمیں کا فرق ہوگیا۔
اس نوع کے واقعہ کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے ۔ ابوداؤد شریف میں دو صحابہؓ کا قصّہ اسی قسم کا صرف آٹھ دن کے فرق سے ذکر کیا گیا ہے کہ دوسرے صاحب کا اِنتقال ایک ہفتہ بعد ہوا پھر بھی وہ جنت پہلے داخل ہوگئے۔ حقیقت میں ہم لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں کہ نماز کتنی قیمتی چیز ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ حضوراقدس ﷺْ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔ حضورﷺکی آنکھ کی ٹھنڈک جو انتہائی محبت کی علامت ہے معمولی چیز نہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ دو بھائی تھے ان میں سے ایک چالیس روز پہلے اِنتقال کر گئے۔ دوسرے بھائی کا چالیس روز بعد اِنتقال ہوا۔ پہلے بھائی زیادہ بزرگ تھے۔ لوگوں نے اُن کو بہت بڑھانا شروع کر دیا۔ حضورﷺنے اِرشاد فرمایا کیا دوسرے بھائی مسلمان نہ تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بیشک مسلمان تھے مگر معمولی درجہ میں تھے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ ان چالیس دن کی نمازوں نے اُن کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔ نماز کی مثال ایک میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو دروازہ پر جاری ہو اور آدمی پانچ دفعہ اس میں نہاتا ہو تو اس کے بدن پر کیا میل رہ سکتا ہے اس کے بعد پھر دوبارہ حضورﷺنے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ اس کی نمازوں نے جو بعد میں پڑھی گئیں اس کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔
۸۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ عَنْ رَسُوْلِ  اَنَّہ‘ قَالَ یُبْعَث مُنَادٍ عِنْدَ حَضْرَۃِکُلِّ صَلٰوۃِ فَیَقُوْلُ یَا بَنِیْ اٰدَمَ قُوْمُوْا فَاَطْفِئُوْا مَا اَوْقَدْتُّم عَلٰی اَنْفُسِکُمْ فَیَقُوْمُوْنَ فَیَتَطَہَّرُوْنَ وَیُصَلُّونَ اظُّہْرَ فَیُغْفَرُلَہُمْ مَا بَیْنَہُمَا فَاِذَا  حَضَرَتِ الْعَصْرُ فَمِثْلُ ذٰلِکَ فَاِذَا حَضَرَتِ الْمَغْرِبُ فَمِثْلُ ذٰلِکَ فَاِذَا حَضَرَتِ الْعَتَمَۃُ فَمِثْلُ ذٰلِکَفَیَنَامُوْنَ فَمُدْلِجٌ فِیْ خَیْرٍ وَمُدْ لِجٌ فِیْ شَرٍّ۔(قال المنذری رواہ مالک واللفظ لہ واحمد ماسناد حسن والنسائی وابن خزیمۃ فی صحیحہ)۔
حضوراقدسﷺکا اِرشا د ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو ایک فرشتہ اعلان کرتاتا ہے کہ اے آدم کی اولاد اٹھواور جہنم کی اس آگ کو جسے تم نے (گناہوں کی بدولت) اپنے اوپر جلانا شروع کردیا ہے بجھاؤ چنانچہ (دیندار لوگ) اُٹھتے ہیں وضو کرتے ہیں ظہر کی نماز پڑھتے ہیں جس کی وجہ ان کے گناہوں کی (صبح سے ظہر تک کی) مغفرت کر دیجاتی ہے اسی طرح پھر عصر کے وقت پھر مغرب کے وقت پھر عشاء کے وقت (غرض ہر نماز کے وقت یہی صورت ہوتی ہے) عشاء کے بعد لوگ سونے میں مشغول ہوجاتے ہیں اس کے
بعد اندھیرے میں بعض لوگ برائیوں زنا کاری بدکاری، چوری وکی طرف چل دیتے ہیں اور بعض لوگ بھلائیوں (نماز، وظیفہ۔ذکر وغیرہ) کی طرف چلنے لگتے ہیں۔
ف: حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے یہ مضمون آیا ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے لطف سے نماز کی بدولت گناہوں کو معاف فرماتے ہیں اور نماز میں چونکہ استغفارخود موجود ہے جیسا کہ اوپر گذرا اسلئے صغیرہ اور کبیرہ ہر قسم کے گناہ اس میں داخل ہوجاتے ہیں بشرطیکہ دل سے گناہوں پر ندامت ہو۔ خود حق تعالی شانہ کاارشاد ہے۔اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِوَزُلَفًا مِّنْ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ طجیسا کہ حدیث (۳) میں گزرا ۔
حضرت سلمان ؓ ایک بڑے مشہور صحابی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب عشاء کی نماز ہو لیتی ہے تو تمام آدمی تین جماعتوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ایک وہ جماعت ہے جس کے لئے یہ رات نعمت ہے اور کمائی ہے اور بھلائی ہے۔ وہ حضرات ہیں جو رات کی فرصت کو غنیمت سمجھتے ہیں اور جب لوگ اپنے اپنے راحت وآرام اور سونے میں مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ نماز میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ ان کی رات ان کے لئے اجروثواب بن جاتی ہے۔ دوسری وہ جماعت ہے جس کیلئے رات وبال ہے عذاب ہے یہ وہ جماعت ہے جو رات کی تنہائی اور فرصت کو غنیمت سمجھتی ہے اور گناہوں میں مشغول ہو جاتی ہے اُن کی رات ان پر وبال بن جاتی ہے۔ تیسری وہ جماعت ہے جو عشاء کی نماز پڑھ کر سو جاتی ہے اس کے لئے نہ وبال ہے نہ کمائی، نہ کچھ گیا اور نہ آیا۔
۹۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ بِنْ رَبْعِیٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِنِّی افْتَرَضْتُ عَلٰی اُمَّتِکَ خَمْسَ صَلٰواتٍ وَعَھِدْتُ عِنْدِیْ عَھْدًااَنَّہ‘ مَنْ حَافِظَ عَلَیْھِنَّ لِوَقْتِھِنَّ اَدْخَلْتُہُالْجَنّۃَ فِیْ عَھْدِیْ وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْھِنَّ فَلَا عَھْدَ لَہ‘ عِنْدِیْ۔(کذافی الدرالمنثوربروایت ابی داود و ابن ماجۃوفیہایضا اخرج مالک وابن ابی شیبۃ و احمدد اود و النسایو ابن حبان والبقی عن عبادۃ بن الصامت فذکرمعنی حدیث الباب مرفوعاباطول منہ)
حضورﷺکا اِرشاد ہے کہ حق تعالی جل شانہ‘ نے یہ فرمایا کہ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اس کا میں نے اپنے لئے عہد کرلیا ہے کہ جو شخص ان پانچوں نمازوں کو اُن کے وقت پر ادا کرنے کا اِہتمام کرے اسکو اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کرونگا اور جو اِن نمازوں کا اہتمام نہ کرے تو مجھ پر اُسکی کوئی ذمہ داری نہیں۔
ف:ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون اور وضاحت سے آیاہے کہحق تعالی جل شانہ‘ نے پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جو شخص ان میں لاپروائی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ اچھی طرح وضو کرے اور وقت پر ادا کرے خشوع وخضوع سے پڑھے۔ حق تعالیٰ جل شانہ‘ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے اور جو شخص ایسا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اُس سے نہیں، چاہے اس کی مغفرت فرمائیں چاہے عذاب دیں کتنی بڑی فضیلت ہے نماز کی کہ اس کے اِہتمام سے اللہ کے عہد میں اورذمہ داری میں آدمی داخل ہوجاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی معمولی سا حاکم یا دولت مند کسی شخص کو اطمینان دلادے یا کسی مطالبہ کا ذِ مہ دار ہوجائے یا کسی قسم کی ضمانت کرلے تو وہ کتنا مطمئن اور خوش ہوتا ہے اور اُس حاکم کا کس قدر احسان مند اور گرویدہ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک معمولی عبادت پر جس میں کچھ مشقت بھی نہیں ہے مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ عہد کرتا ہے پھر بھی لوگ اس چیز سے غفلت اور لاپروائی کرتے ہیں۔ اِس کسی کا کیا نقصان ہے، اپنی ہی کم نصیبی اور اپنا یہ ضرر ہے۔
۱۰۔ عَنْ اِبْنِ سُلْمَانَ اَنَّ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِ حَدَّثَہ‘ قَالَ لَمَّا فَتَحْنَاخَیْبَرَاَخْرَجُوْا غَنَائِمَھُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبِیِ فَجَعَلَ النَّاسُ یَتَبَا یَعُوْنَ غَنَائِمَھُمْ فَجَائَ رجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِلَقَدْرَبِحْتُ رِبْحًا مَارَبِحَ الْیَوْمَ مِثْلَہ‘ اَحَدٌ مِّن اَھْلِ الْوَادِیْ قَالَ وَیْحَکَ وَمَارَبِحْتَ قَالَ مَازِلْتُ اَبِیْعُ وَاَبْتَاعُ حَتّٰی رَبِحْت ثَلٰثَ مِائَۃِ اُوْقِیَۃٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ  اَنَااُنَبِّئُکَ بِخَیْر رَجُلٍ رَبِحَ قَالَ مَاھُوَیَارَسُوْلَ اﷲِ قَالَ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَالصَّلٰوۃِ۔ (اخرجہ ابوداودوسکت عنہ المذری)
ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ لڑائی میں جب خیبر کو فتح کرچکے تو لوگوں نے اپنے مالِ غنیمت کو نکالا جس میں متفرق سامان تھا اور قیدی تھے اور خرید و فروخت شروع ہوگئی (کہ ہر شخص اپنی ضروریات خریدنے لگا اور دوسری زائد چیزیں فروخت کرنے لگا ، اتنے میں ایک صحابیؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے آج کی اس تجارت میں اس قدر نفع ہوا کہ ساری جماعت میں سے کسی کو بھی اتنا نفع نہیں مل سکا۔ حضورﷺنے تعجب سے پوچھا کہ کتنا کمایا اُنہوں نے عرض کیا کہ حضورمیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اوقیہ چاندی نفع میں بچی حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا میں تمہیں بہترین نفع کی چیز بتاؤں انہوں نے عرض کیا حضورمیں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اوقیہ چاندی نفع میں بچی حضورﷺنے اِرشاد فرمایا میں تمہیں بہترین نفع کی چیز بتاؤں انہوں نے عرض کیا حضور ضرور بتائیں اِرشاد فرمایاکہ فرض نماز کے بعد دو رکعت نفل۔
ف: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباًچار آنہ کا۔ تو اس حساب سے تین ہزار روپیہ ہوا۔ جس کے مقابلہ میں دو جہان کے بادشاہ کا ارشاد ہے کہ یہ کیا نفع ہوا۔ حقیقی نفع وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنے والا اور کبھی نہ ختم ہونے والا ہے اگر حقیقت میں ہم لوگوں کے ایمان ایسے ہی ہو جائیں اور دو رکعت نماز کے مقابلہ تین ہزار روپے کی وقعت نہ رہے تو پھرواقعی زندگی کا لطف ہے اور حق یہ ہے کہ نماز ہے ہی ایسی دولت۔ اسی وجہ سے حضوراقدس سیدالبشر فخر رسل ﷺنے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔ اور وصال کے وقت آخری وصیت جو فرمائی ہے اس میں نماز کے اِہتمام کا حکم فرمایا ہے (کنزالعمال) متعددحدیثوں میں اس کی وصیت مذکور ہے منجملہ ان کے حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ آخری وقت میں جب زبان مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے اس وقت بھی حضوراقدسﷺنماز اور غلاموں کے حقوق کی تاکید فرمائی تھی۔ حضرت علیؓ سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ آخری کلام حضوراَقدسﷺ کا نماز کی تاکید اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم تھا (جامع صغیر) حضوراقدسﷺْ نے نجد کی طرف ایک مرتبہ جہاد کے لئے لشکر بھیجا جو بہت ہی جلدی واپس لوٹ آیا اور ساتھ ہی بہت سارا مال غنیمت لے کر آیا۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ اتنی ذرا سی مدت میں اتنی بڑی کامیابی اور مال و دولت کے ساتھ واپس آگیا۔ حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس سے بھی کم وقت میں اس مال سے بہت زیادہ غنیمت اور دولت کمانے والی جماعت بتاؤں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح کی نماز میں جماعت میں شریک ہوں اور آفتاب نکلنے تک اسی جگہ بیٹھے رہیں۔ آفتاب نکلنے کے بعد (جب مکروہ وقت جو تقریباً بیس منٹ رہتا ہے نکل جائے) تو دو رکعت (اشراق کی) نماز پڑھیں۔ یہ لوگ بہت تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ دولت کمانے والے ہیں۔ حضرت شفیق ؒ بلخی مشہورصوفی اور بزرگ ہیں۔ فرماتے ہیںکہ ہم نے پانچ چیزیں تلاش کیں اُن کو پانچ جگہ پایا (۱) روزی کی برکت چاشت کی نماز میں ملی اور (۲) قبر کی روشنی تہجد کی نماز میں ملی (۳) منکر نکیر کے سوال کا جواب طلب کیا تو اس کو قرأت میں پایا اور (۴) پل صراط کا سہولت سے پار ہونا روزہ اور صدقہ میں پایا اور (۵) عرش کا سایہ خلوت میں پایا (نزہۃالمجالس) حدیث کی کتابوں میں نماز کے بارے میں بہت ہی تاکید اور بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے تبرکا ًچند احادیث کا صرف ترجمہ لکھا جاتا ہے۔
(۱) حضورﷺکا اِرشاد ہے کہ اللہ جل شانہ نے میری امت پر سب چیزوں سے پہلے نماز فرض کی اور قیامت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا (۲) نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرو (۳)آدمی کے اور شرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے (۴) اسلام کی علامت نماز ہے جو شخص دل کو فارع کر کے اور اوقات اور مستحبات کی رعایت رکھ کر نماز پڑھے وہ مومن ہے (۵) حق تعالیٰ شانہ ‘نے کوئی چیز ایمان اور نماز سے افضل فرض نہیں کی اگر اس سے افضل کسی اور چیز کو فرض کرتے تو فرشتوں کو اس کا حکم دیتے فرشتے دن رات کوئی رکوع میں ہے کوئی سجدے میں (۶) نماز دین کا ستون ہے (۷) نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے (۸) نماز مومن کا نور ہے (۹) نماز افضل جہاد ہے (۱۰) جب آدمی نماز میں داخل ہوگا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کی طرف پوری توجہ فرماتے ہیں جب وہ نماز سے ہٹ جاتا ہے تو وہ بھی توجہ ہٹا لیتے ہیں (۱۱)جب کوئی افت آسمان سے اترتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹ جاتی ہے (۱۲) اگر ادمی کسی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے تو اسکی آگ سجدے کی جگہ کو نہیں کھاتی(۱۳) اﷲ نے سجدہ کی جگہ کو آگ پر حرام فرما دیا ہے (۱۴) سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اﷲ کے نزدیک وہ نماز ہے جو وقت پر پڑھی جائے (۱۵)اﷲ جل شانہ کو آدمی کی ساری حالتوں میں سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس کو سجدہ میں پڑا ہوا دیکھی کہ پیشانی زمین سے رگڑ رہا ہے (۱۶) اﷲ جل شانہ کے ساتھ آدمی کو سب سے زیادہ قرب سجدہ میں ہوتا ہے (۱۷) جنت کی کنجیاں نماز ہیں (۱۸) جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اﷲ جل شانہ کے اور اس نمازی کے درمیان پردے ہٹ جاتے ہیں جب تک کہ کھانسی وعیرہ میں مشغول نہ ہو (۱۹) نمازی شہنشاہ کا دروازہ کھٹکٹاتا اور یہ قاعدہ ہے کہ جو دروازہ کھٹکٹاتا ہی رہے تو کھلتا ہی ہے (۲۰) نماز کا مرتبہ دین میں ایسا ہی ہے جیسا کہ سر کا درجہ ہے بدن میں (۲۱) نماز دل کا نور ہے جو اپنے دل کو نورانی بنانا چاہے (نماز کے ڈریعہ سے ) بنا لے (۲۲) جو شخص اچھی طرح وضو کر اس کے اعد خشوع و خضوع سے دو یا چار رکعت نماز فرض یا نفل پڑھ کر اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے اﷲ تعالی شانہ معاف فرما دیتے ہیں (۲۳) زمین کے جس حصہ پر نماز کے ذریعہ سے اﷲ کی یاد کی جاتی ہے وہ حصہ زمین کے دوسرے ٹکڑوں پر فخر کرتا ہے (۲۴) جو شخص دو رکعت نماز پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے تو حق تعالی شانہ وہ دعا قبول فرما لیتے ہیں خواہ فوراً ہو یا کسی مصلحت سے کجھ دیر کے بعد مگر قبول ضرور فرماتے ہیں (۲۵) جو شخص تنہائی میں دو رکعت نماز پڑھے جس کو اﷲ اور اس کے فرشتوں کے سوا کوئی نہ دیکھے تو اس کی جہنم کی آگ سے بری ہونے کا پروانہ مل جاتاہے (۲۶) جو شخص ایک فرض نماز ادا کرے اﷲ جل شانہ کے یہاں ایک مقبول دعا اس کی ہو جاتی ہے (۲۷) جو پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہے ان کے رکوع و سجود اور وضو وغیرہ کو اہتمام کے ساتھ اچھی طرح سے پورا کرتا رہے جنت اس کے لئے واجب ہو جاتی ہے اور دوزخ اس پر حرام ہو جاتی ہے (۲۸)مسلمان جب تک پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے شیطان اس سے ڈرتا رہتا ہے اور جب وہ نمازوں میں کوتاہی کرنے لگتا ہے تو شیطان کو اس پر جرأت ہو جاتی ہے اور اس کے بہکانے کی طمع کرنے لگتا ہے (۲۹) سب سے افضل عمل اول وقت نماز پڑھنا ہے (۳۰) نماز ہر متقی کی قربانی ہے (۳۱) اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل نماز کو اول وقت پڑھنا ہے (۳۲) صبح کو جو شخص نماز کو جاتا ہے اس کے ہاتھ میں ایمان کا جھنڈا ہوتا ہے اور جو بازار کو جاتا ہے اس کے ہاتھ میں شیطان کا جھنڈا ہوتا ہے (۳۳) ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتوں کا ثواب ایسا ہے جیسا کہ تہجد کی چار رکعتوں کا (۳۴) ظہر سے پہلے چار رکعتیں تہجد کی چار رکعتوں کے برابر شمار ہوتی ہیں (۳۵) جب آدمی نماز کو کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الٰہیہ اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے (۳۶)افضل ترین نماز آدھی رات کی ہے مگر اس کے پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں (۳۷) میرے پاس حضرت جبرئیل آئے اور کہنے لگے اے محمد ﷺ خواہ کتنا ہی آپ زندہ رہیں آخر ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہیں محبت کریں آخر ایک دن اس سے جدا ہونا ہے اور آپ جس قسم کا بھی عمل کریں (بھلا یا برا ) اس کا بدلہ ضرور ملے گا اس میں کو ئی تردد نہیں کہ مؤمن کی شرافت تہجد کی نماز ہے اور مومن کی عزت لوگوں سے استغنا ہے (۳۸) اخیر رات کی دو رکعتیں تمام دنیا سے افضل ہیں اگر مجھے مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو امت پر فرض کر دیتا(۳۹) تہجد ضرور پڑھا کرو کہ تہجد صالحین کا طریقہ ہے اور اﷲ کے قرب کا سبب ہے تہجد گناہوں سے روکتا ہے اور خطاؤں کی معافی کا ذریعہ ہے اس سے بدن کی تندرستی بھی ہوتی ہے (۴۰) حق تعالیٰ شا نہ‘ کا ارشاد ہے کہ اے آدم کی اولاد تو دن کے شروع مین چار رکعتوں سے عاجز نہ بن میں تمام دن تیرے کاموں کی کفایت کروں گا ۔
حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے نماز کے فضائل اور ترغیبن ذکر کی گئی ہیں چالیس کے عدد کی رعایت سے اتنے پر کفایت کی گئی کہ اگر کوئی شخص ان کو حفظ یاد کر لے تو چالیس حدیثیں یاد کرنے کی فضیلت حاصل کرلے گا حق یہ ہے کہ نماز ایسی بڑی دولت ہے کہ اس کی قدر وہی کر سکتا ہے جس کو اﷲ جل شانہ نے اس کا مزہ چکھا دیا ہو اسی دولت کی وجہ سے حضور نے اپنی آنکھ کی ٹھنڈک اس میں فرمائی اور اسی لذت کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ رات کا اکثر حصہ نماز ہی میں گذار دیتے تھےیہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وصال کے وقت خاص طور پر نماز کی وصیت فرمائی اور اس کے اہتمام کی تاکید فرمائی متعدد احادیث میں ارشاد نبوی نقل کیا گیا اِتَّقُواللّٰہَ فِی الصَّلٰوۃ ’’نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرتے رہو ‘‘حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ تمام اعمال میں مجھے نماز سب سے زیادہ محبوب ہے ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ایک رات مسجد نبوی پر گزرا حضوراَقدسﷺنماز پڑھ رہے تھے مجھے بھی شوق ہوا حضور کے پیچھے نیت باندھ لی حضورﷺسورہ بقرہ پڑھ رہے تھے میں نے خیال کیا کہ سو آیتوں پر رکوع کر دیں گے مگر جب وہ گزر گئیں اور رکوع نہ کیا تو میں نے سوچا دو سو پر رکوع کریں گے مگر وہاں بھی نہ کیا تو مجھے خیال ہوا کہ سورت کے ختم ہی پر کرین گے جب سورت ختم ہوئی تو حضورنے کئی مرتبہ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورہ آل عمران شروع کردی میں سوچ میں پڑ گیا آخر میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے ختم پر تو رکوع کریں ہی گے حضور نے اس کو ختم فرمایا اور تین مرتبہ اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورئہ مائدہ شروع کردی اس کو ختم کر کے رکوع کیا اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھتے رہے اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھتے رہے جوسمجھ میں نہ آیا اس کے بعد اسی طرح سجدہ میں سبْحانَ رَ بی الْاَ عْلٰی بھی پرھتے رہے اس کے ساتھ کجھ اور بھی پڑھتے تھے اس کے بعد دوسری رکعت میں سورہ انعام شروع کردی میں حضور کے ساتھ نماز پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا اور مجبور ہو کر چلا آیا پہلی رکعت میں تقریاً پانچ سیپارے ہوئے اور پھر حضور اقدس ﷺ کا پڑھنا جو نہایت اطمینان سے تجوید اور ترتیل کے ساتھ ایک ایک آیت جدا جدا کر کے پڑھتے تھے ایسی صورت میں کتنی لانبی رکعت ہوئی ہوگی انہیں وجوہ سے آپ کے پاؤںپر نماز پڑھتے پڑھتے ورم آ جاتا تھا مگر جس چیز کی لذت دل میں اتر جاتی ہے اس میں مشقت اور تکلیف دشوار نہیں رہتی ابو اسحق سبیحی مشہور محدث ہین سو برس کی عمر میں انتقال فرمایا اس پر افسوس کیا کرتے تھے کہ بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے نماز کا لطف جاتا رہا دو رکعتوں میں صرف دو سورتیں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی جاتی ہیں زیادہ نہیں پڑھا جاتا ( تہذیب التہذیب ) یہ دو سورتیں بھی پونے چار پاروں کی ہیں محمد بن سماک فرماتے ہیں کہ کوفہ میں میرا ایک پڑوسی تھا اس کے ایک لڑکا تھا جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا اور رات بھر نماز میں اور شوقیہ اشعار میں رہتا تھا وہ سوکھ کر ایسا ہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑہ رہ گیا اس کے والد نے مجھ سے کہا کہ تم اس کو ڈرا سمجھاؤ میں ایک مرتبہ اپنے دروازہ پر بیٹھا ہوا تھا وہ سامنے سے گزرا میں نے اسے بلایا وہ آیا سلام کرکے بیٹھ گیا میں نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ کہنے لگا چچا شاید آپ محنت میں کمی کا مشورہ دیں گے چچا جان میں نے اس محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ دیکھیں کون شخص عبادت میں زیادہ کوشش کرے انہوں نے کوشش اور محنت کی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بلا لئے گئے جب وہ بلائے گئے تو بڑی خوشی اور سرور کے ساتھ گئے ان میں سے میرے سوا کوئی باقی نہیں رہا میرا عمل دن مین دوبار ان پر ظاہرہوتا ہو گا وہ کیا کہیں گے جب اس میں کوتاہی پائیں گے چچاجان ان جوانوں نے بڑے بڑے مجاہدے کئے ان کی محنتیں اور مجاہدے بیان کرنے لگا جن کو سنکر ہم لوگ متحیر رہ گئے اس کے بعد وہ لڑکا اٹھ کر چلا گیا تیسرے دن ہم نے سنا کہ وہ بھی رخصت ہو گیا ۔ رحمہ اﷲرحمۃ واسعۃ( نزہتہ) اب بھی اس گئے گذرے زمانے میں اﷲ کے بندے ایسے دیکھے جاتے ہیں جو رات کا اکثر حصہ نماز میں گزار دیتے ہیں اور دن دین کے کاموں تبلیغ و تعلیم میں منہمک رہتے ہیں حضرت مجدد الف ثانی کے نام نامی سے کون شخص ہندوستان میں ناواقف ہو گا ان کے ایک خلیفہ مولانا عبدالواحد لاہوری نے ایک دن ارشاد فرمایا کیا جنت میں نماز نہ ہو گی کسی نے عرض کیا کہ حضرت جنت میں نماز کیوں ہو وہ تو اعمال کے بدلہ کی جگہ ہے نہ کہ عمل کرنے کی اس پر ایک آہ کھینچی اور رونے لگے اور فرمایا کہ بغیر نماز کے جنت میں کیونکر گزرے گی ایسے ہی لوگوں سے دنیا قائم ہے اور زندگی کو وصول کرنے والی حقیقت میں یہی مبارک ہستیاں ہیں اﷲ جل شانہ اپنے لطف اور اپنے پر مر مٹنے والوں کے طفیل اس روسیاہ کو بھی نواز دے تو اس کے لطف عام سے کیا بعید ہے ایک پر لطف قصہ پر اس فصل کو ختم کرتا ہوں حافظ ابن حجر نے منیہات مین لکھا ہے ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں خوشبو ،عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضورﷺکے پاس چند صحابہؓ تشریف فرما تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں آپ کے چہرہ کا دیکھنا اپنے مال کو آپ پر خرچ کرنا اور یہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہے حضرت عمر ؓنے فرمایا سچ ہے اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں امر بالمعروف نہی عن المنکر اچھے کاموں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا اور پرانا کپڑا حضرت عثمان ؓنے فرمایا آپ نے سچ کہا اور مجھے تیں چیزیں محبوب ہیں بھوکو کو کھلانا ننگوں کپڑا پہنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا حضرت علی ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں پسند ہیں مہمان کی خدمت ،گرمی کا روزہ اور دشمن پر تلوار ۔اتنے میں حضرت جبریئل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھے حق تعالیٰ شا نہ‘ نے بھیجا ہے اور فرمایا کہ اگر میں ( یعنی جبرئیل) دنیا والوں میں ہوتا تو بتاؤں مجھے کیا پسند ہوتا حضور ﷺنماز دین کا ستون ہے نے ارشاد فرمایا بتاؤ عرض کیا بھولے ہووں کو راستہ بتانا غریب عبادت کرنے والوں سے محبت رکھنا اور عیال دار مفلسوں کی مدد کرنا اور اللہ جل شانہ‘ کو بندوں کی تین چیزیں پسندہیں ( اﷲ کی راہ میں) طاقت کا خرچ کرنا ( مال سے ہو یا جان سے) اور گناہ پرندامت کے وقت رونا اور فاقہ پر صبر کرنا ۔
حافظ ابن قَیِّمؒ در زادالمعادمیں تحریر فرماتے ہیں کہ نماز روزی کو کھینچنے والی ہے صحت کی محافظ ہے بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے دل کی تقویت پہنچاتی ہے چہرہ کو خوبصورت اور منور کرتی ہے جان کو فرحت پہنچاتی ہے اعضاء میں نشاط پیدا کرتی ہے کاہلی کو دفع کرتی ہے شرح صدر کا سبب ہے ۔رُوح کی غذا ہے ۔دل کو منور کرتی ہے ۔اﷲ کے انعام کی محافظ ہے اور عذاب الٰہی سے حفاظت کا سبب ہے شیطان کو دور کرتی ہے اور رحمن سے قرب پیدا کرتی ہے غرض روح اور بدن کی صحت کی حفاظت میں اس کو خاص دخل ہے اور دونوں چیزوں میں اسکی عجیب تاثیر ہے نیز دنیا اور آخرت کی مضرتوں کے دور کرنے میں اور دونوں جہان کے منافع پیدا کرنے میں اس کو بہت خصوصیت ہے ۔
فصل دوم
نماز کے چھوڑنے پر جو وعید اور عتاب حدیث میں آیا ہے اس کا بیان
حدیث کی کتابوں میں نماز نہ پڑھنے پر بہت سخت سخت عذاب ذکر کئے گئے ہیں نمونے کے طور پر چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں سجی خبر دینے والے کا ایک ارشاد بھی سمجھ دار کے لئے کافی تھا مگر حضور اقدس ﷺکی شفقت کے قربان کہ آپ نے کئی کئی طرح سے اور بار بار اس چیز کی طرف متوجہ فرمایا کہ ان کے نام لیوا ان کی امت کہیں اس میں کوتاہی نہ کرنے لگے پھر افسوس ہے ہمارے حال پر کہ ہم حضور کے اس اہتمام کے باوجود نماز کا اہتمام نہیں کرتے اور بے غیری اور بے حیائی سے اپنے کو امتی اور متبع رسول اور اسلام کا دھنی بھی سمجھتے ہیں ۔
۱۔ عَنْ جَابِرِؓ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ الرَّجُلاِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃ۔(رواہ احمد و مسلم) وَقَالَ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ۔ (ابوداودوالنسای ولفظہ لیس بین العبد وبین الکفر الاترکُ الصَّلٰوۃوالترمذی ولفظہ قال بین الکفروالایمان ترک الصلوۃ وابن ماجۃ ولفظہ قال بین العبد وبین الکفر ترالصلوۃکذافی التراغیب للمنذری وقال السیوطی فی الدرالحدیث جابراخرجہ ابن ابی شیبۃواحمدومسلم وابوداودوالترمذی النسای وابن ماجۃ ثم قال واخراج ابن ابی شیبۃواحمدوابوداودوالترمذی وصححہ والنسای وابن ماجۃ و ان حبان والحاکم وصححہ عن بُرَیدَۃَ مَرْفُوْعًا اَلْعَھْدُالَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلٰوۃ فَمَنْ تَرَکَھَاَ فَقَدْ کَفَر
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز چھوڑنا آدمی کو کفر سے ملادیتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ بندہ کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز چھوڑنا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔
ف : اس قسم کا مضمون اور بھی کئی حدیثوں میں آیا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ ابر کے دن نماز جلدی پڑھا کرو کیونکہ نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ ابر کی وجہ سے وقت کا پتہ نہ چلے اور نماز قضا ہو جائے اس کو بھی نماز کا چھوڑنا ارشاد فرمایا کتنی سخت بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز کے چھوڑنے والے پر کفر کا حکم لگانے میں گو علماء نے اس حدیث کوانکار کے ساتھ مقید فرمایا ہے مگر حضور ﷺکے ارشاد کی فکر اتنی سخت چیز ہے کہ جس کے دل میں ذرا بھی حضور اقدس ﷺ کی وقعت اور حضور ﷺکے ارشاد کی اہمیت ہو گی اس کے لئے یہ ارشادات نہایت سخت ہیں اس کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ جیسا کہ حضرت عمرؓ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓوغیرہ حضرات کا یہی مذہب ہے کہ بلا عذر جان کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے ائمہ میں سے حضرت امام احمد بن حنبل اسحق بن راہویہ ابن مبارک کا بھی یہی مذہب نقل کیا جاتا ہے اللہم احفظنا منہ۔
۲۔ عَنْ عُبَادَۃَبْن الصَّامتِؓ قَالَ أَوْ صَانِیْ خَلِیْلِی ْرَسُوْلُ اﷲِ بِسَبْعِ خِصَالٍ فَقَالَ لَا تُشْرِکُوْابِاﷲِ شَیْئًاوَّاِنْ قُطِعْتُمْ اَوْ حُرِّقْتُمْ اَوْصُلِّبْتُمْ وَلَا تَتْرُکُوالصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدِیْنَ فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّداً افَقَد خَرَجَ مِنَ المِلَّۃِ وَلَا تَرْکَبُوْا الْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّھَاسَخَطُ اﷲِ وَلَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ فَاِنَّھَا رَأْسُ الْخَطَایَاکُلِّھَا۔(الحدیث رواہ الطبرانی ومحمد بن نصرفی کتابی الصلوۃباسنادین لاناس بھما کذافیالترغیب وھکذاذکرہ السیوطی فی الدرالمنثورواعزہ الیھمافی المشکوۃ بروایۃ ابن ماجۃعن ابن ابی الدرداء نحوہ
حضرت عبادہؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضوراقدسﷺ نے سات نصیحتیں کی ہیں جن میں سے چار یہ ہیں اول یہ کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ بناؤ چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا تم جلا دئے جاؤ یا تم سولی چڑھا دئے جاؤ دوسری یہ کہ جان کر نماز نہ چھوڑو جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے وہ مذہت سے نکل جاتا ہے تیسری یہ کہ اﷲ تعالی کی نافرمانی نہ کرو کہ اس سے حق تعالی ناراض ہو جاتے ہیں جوتھی یہ کہ شراب نہ پیو کہ وہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔
ف: ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو الدردا ؓ بھی اسی قسم کا مضمون نقل فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے وصیت فرمائی کہ اﷲ کا شریک کسی کو نہ کرنا خواہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاویں یا آگ میں جلا دیا جائے دوسری نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑنا جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے اﷲ تعالی شانہ بری الذمہ ہیں تیسری شراب نہ پینا کہ ہر برائی کی کنجی ہے۔
۳۔ عَنْ مُّعَاؓذِبْنِ جَبَلٍ قَالَ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اﷲِ  بِعَشْرِ کَلِمَاتٍ قَالَ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ شَیْاً وَّاِنْ قُتِلْتَ اَؤحُرِّقْتَ وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِد یْکَ وَاِنْ اَمَرَاکَاَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ وَلَا تَتْرُکَن صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًافَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًافَقَدْبَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُاﷲِ وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرَاَفَاِنَّہ‘ رَأْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ وَاِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اﷲِ وَاِیَّاکَ وَالْفِرَارَمِنَ الزَّحْفِ وَاِنْ ھَلَکَ النَّاسُ وَاِنْ اَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ فَاثْبُتُ وَاَنْفِقْ عَلٰی اَھْلِکَ مِنْ طَوْلِکَ وَلَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ اَدَبًاوَاَخِفْھُمْ فِی اﷲِ۔
حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اقدسؐ نے دس باتوں کی وصیت فرمائی (۱) یہ کہ اﷲ کیساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے (۲) والدین کی نافرمانی نہ کرنا گو وہ تجھے اسکا حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کر دے (۳) فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا جو شخص فرض نماز جان کر چھوڑ دیتا ہے اﷲ کا ذمہ اس سے بری ہے (۴)شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی اور فحش کی جڑہے(۵) اﷲ کی نافرمانی نہ کرنا کہ اس سے اﷲ تعالیٰ کا غضب اور قہر نازل ہوتا ہے (۶) لڑائی میں نہ بھاگنا چاہے سب ساتھی مر جائیں (۷) اگر کسی جگہ وبا پھیل جاوے (جیسے طاعون وغیرہ) تو وہاں سے نہ بھاگنا اپنے گھر ولوں پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا (۹) تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا (۱۰) اﷲ تعالیٰ سے انکو ڈراتے رہنا۔
(رواہاحمدوالطبرنی فی الکبیرواسناد احمدصحیح لوسلم من الانقطاع فان عبدالرحمن ابن جبیر لم یسمع من معاذذافی الترغیب الیھما عزاہ السیوطیفی الدرولم یذکرالا نقطاع ثم قال واخرج الطبرانی عن امیمۃ مولۃرسول اﷲ قالت کنت اصب علی رسول اﷲ علیہ وسلم وضوء ہ فدخل رجل فقال اوصنی فقال لاتشرک باﷲشیا وان قطعت او حرقت خمرا فانہ مفتاح کل شرولاتترکن صلوۃمتعمداً فمن فعل ذلک فقد برات منہ ذمۃاﷲورسولہ)۔
ف: لکڑی نہ ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بے فکر نہ ہوں کہ باپ تنبیہ نہیں کرتا اور مارتا نہیں جو چاہے کرتے رہو بلکہ ان کو حدود شرعیہ کے تحت کبھی کبھی مارتے رہنا چاہئے کہ بغیر مار کے اگثرتنبیہ نہیں ہوتی آج کل اولاد کو شروع میں تو محبت کے جوش میں تنبیہ نہیں کی جاتی جب وہ بری عادتوں میں پختہ ہو جاتے ہیں تو پھر روتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ اولاد کے ساتھ محبت نہیں سخت دشمنی ہے کہ اس کو بری باتوں سے روکا نہ جائے اور مارپیٹ کو محبت کے خلاف سمجھا جائے کون سمجھ دار اس کو گوارا کر سکتا ہے کہ اولاد کے پھوڑے پھنسی کو بڑھایا جائے اور اس وجہ سے کہ نشتر لگانے سے زخم اور تکلیف ہو گی عمل جراحی نہ کرایا جائے بلکہ لاکھ بچہ روئے منہ بنائے بھاگے بہرحال نشتر لگانا ہی پڑتا ہے بہت سی حدیثوں میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ بچہ کو سات برس کی عمر میں نماز کا حکم کرو اور دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو حضرت لقمان حکیم کا ارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لئے ایسی ہے جیسا کہ کھیتی کے لئے پانی حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے یہ ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر علہ کا ہوتا ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی اس شخص پر رحمت کرے جو گھر والوں کو تنبیہ کے واسطے گھر میں کورا لٹکائے رکھے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے افضل عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھا طریقہ تعلیم کرے۔
۴۔ عَنْ نَوفَلِ بْنِ مُعٰوِیَۃَؓ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ فَاتَتُہُ صَلٰوۃٌفَکَاَنَّمَا وُتِرَاَھْلُہ‘ وَمَالُہ‘۔(رواہ ابن حبان فی صحیحہ کذافی الترغیب
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کی ایک نماز بھی فوت ہو گئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔
زادالسیوطی فی الدروالنسائی ایضاقلت ورواہ احمد فی مندہ) ۔
ف: نماز کا ضائع کرنا اکثر یا بال بچوں کی و جہ سے ہوتا ہے کہ ان کی خیر خبر میں مشغول رہے یا مال و دولت کمانے کے لالچ میں ضائع کی جاتی ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز کا ضائع کرنا انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے گویا بال بچے اور مال و دولت سب ہی چھیں لیا گیا اور اکیلا کھڑا رہ گیا یعنی جتنا خسارہ اور نقصان اس حالت میں ہے اتنا ہی نماز کے چھوڑنے میں ہے یا جس قدر رنج و صدمہ اس حالت میں ہو اتنا ہی نماز کے چھوٹنے میں ہونا چاہئے اگر کسی شخص سے کوئی معتبر آدمی یہ کہہ دے اور اسے یقین آ جائے کہ فلاں راستہ لٹتا ہے اور جو رات کو اس راستہ سے جاتا ہے تو ڈاکو اس کو قتل کر دیتے ہیں اور مال چھیں لیتے ہیں تو کون بہادر ہے کہ اس راستہ سے رات کو چلے رات کو تو درکنار دن کو بھی مشکل سے اس راستہ کو چلے گا مگر اﷲ کے سچے رسول کا یہ پاک ارشاد ایک دو نہیں کئی کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اور ہم مسلمان حضورﷺ کے سچے ہونیکا دعوٰی بھی جھوٹی زبانوں سے کرتے ہیں مگر اس پاک ارشاد کا ہم پر اثر کیا ہے ہر شخص کو معلوم ہے۔
۵۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصَّلٰوتَیْنِ مِنْ غَیْرِعُذْرٍ فَقَدْاَتٰی بَابًا مِنْ اَبُوَابِ الْکَبَآئِرِ۔
نبی اکر م ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص دو نمازوں کو بلا کسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر پہنچ گیا۔
(رواہ الحا کم و قال حنش ھوابن قیس ثقۃ وقال الحافظ بل واہ بمرۃ لا نعلم احمدوثقہ غیر حصین بن نمیرکذافی الترغیب زادالسیوطی فی الدرالترمذی ایضا و ذکرفی الالی لہ شواھد اکذافی التعقبات وقال الحدیث اخرجہ الترمذی وقالحنش ضعیف ضعفہ احمد وغیرہ والعملعلی ھذاعند اھل العلم فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقدصرح غیر واحد بان من ولیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ لم یکن اسناد یعتمد علی مثلہ۱ہ)
ف: حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تین چیز میں تاخیر نہ کر ایک نماز جب اس کا وقت ہو جائے دوسری جنازہ جب تیار ہو جائے تیسری بے نکاحی عورت جب اس کے جوڑ کا خاوند مل جائے ( یعنی فوراً نکاح کر دینا ) بہت سے لوگ جو اپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیں اور گویا نماز کے پابند بھی سمجھے جاتے ہیں وہ کئی کئی نمازیں معمولی بہانہ سے سفر کا ہو دوکان کا ہو ملازمت کا ہو گھر آ کر اکھٹی ہی پڑھ لیتے ہین یہ گناہ کبیرہ ہے کہ بلا کسی عذر بیماری وغیرہ کے نماز کو اپنے وقت پر نہ پڑھا جاوے گو بالکل نماز نہ پڑھنے کے برابر گناہ نہ ہو لیکن بے وقت پڑھنے کا بھی سخت گناہ ہے اس سے خلاصی نہ ہوئی۔
۶۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍوؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہ‘ ذَکَرَ الصَّلٰوۃَ یَوْمًا فَقَالَ مَنْ حَافَظَ عَلَیْہَا کَا نَتْ لَہ‘ نُوْرًا وَّبُرْہَانًا وَّ نَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَّمْ یُحَا فِظْ عَلَیْہَا لَمْ یَکُنْ لَّہ‘ نُوْرٌ وَّلَابُرْہَانٌ وَّ لَا نَجَاۃٌ وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلْفٍ ـ
ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے نماز کا ذکر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ وہ شخص نماز کا اہتمام کرے تو نماز اس کیلئے قیامت کے دن نور ہو گی اور حساب پیش ہونے کے وقت حجت ہو گی اور نجات کا سبب ہو گی اور جو شخص نماز کا اہتمام نہ کرے اس کیلئے قیامت کے دن نہ نور ہو گا اور نہ اسکے پاس کوئی حجت ہو گی اور نہ نجات کا کوئی ذریعہ اسکا حشر فرعون ہامان اور ابی بن خلف کیساتھ ہو گا۔
ف: فرعون کو تو ہر شخص جانتا ہے کہ کس درجہ کا کافر تھا حتی کہ خدائی کا دعوی کیا تھا اور ہامان اس کے وزیر کا نام ہے اور ابی بن خلف مکہ کے مشرکین میں سے بڑا سخت دشمن اسلام تھا ہجرت سے پہلے نبی اکرم ﷺ سے کہا کرتا تھا کہ میں نے ایک گھوڑا پالا ہے اس کو بہت کچھ کھلاتا ہوں اس پر سوار ہو کر ( نعوذ باﷲ) تم کو قتل کروں گا حضور نے ایک مرتبہ اس سے فرمایا تھا کہ انشاء اﷲ میں ہی تجھ کو قتل کروں گا احد کی لڑآئی میں وہ حصور اقدس ﷺ کو تلاش کرتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر وہ آج بچ گئے تو میری خیر نہیں چنانچہ حملہ کے ارادہ سے وہ حضور کے قریب پہنچ گیا صحابہ نے ارادہ بھی فرمایا کہ دور ہی سے اس کو نمٹا دیں حضور نے ارشاد فرمایا کہ آنیدو جب وہ قریب ہوا تو حضور ﷺنے ایک صحابی کے ہاتھ میں سے برچھا لیکر اسکے مارا جو اسکی گردن پر لگا اور ہلکا سا خراش اس کی گردن پر آ گیا مگر اس کی وجہ سے گھوڑے سے لڑھکتا ہوا گرا اور کئی مرتبہ گرا اور بھاگتا ہوا اپنے لشکر میں پہنچ گیا اور چلاتا تھا کہ خدا کی قسم مجھے محمد ﷺ نے قتل کر دیا کفار نے اس کو اطمینان دلایا کہ معمولی خراش ہے کوئی فکر کی بات نہیں مگر وہ کہتا تھا کہ محمد نے مکہ میں کہا تھاکہ میں تجھ کو قتل کروں گا خدا کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں مر جاتا لکھتے ہیں کہ اس کے چلانیکی آواز ایسی ہو گئی تھی جیسا کہ بیل کی ہوتی ہے ابو سفیان نے جو اس لڑائی میں بڑے زوروں پر تھا اس کو شرم دلائی کہ اس ذرا سی خراش سے اتنا چلاتا ہے اس نے کہا تجھے خبر بھی ہے کہ یہ کس نے ماری ہے یہ محمد کی مار ہے مجھے اس سے جس قدر تکلیف ہو رہی ہے لات اور غزی ( دو مشہور بتوں کے نام ہیں ) کی قسم اگر یہ تکلیف سارے حجاز والوں کو تقسیم کر دی جائے تو سب ہلاک ہو جائیں محمد نے مجھ سے مکہ میں کہا تھا کہ مین تجھ کو قتل کروںگا میں نیاسی وقت سمجھ لیا تھا کہ میں ان کے ہاتھ سے ضرور مارا جاؤں گا میں ان سے چھوٹ نہیں سکتا اگر وہ اس کہنے کے بعد مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں اس سے بھی مرجاتا چنانچہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے ایک دن پہلے وہ راستہ ہی میں مر گیا ہم مسلمانوں کے نہایت غیرت اور عبرت کا مقام ہے کہ ایک کافر پکے کافر اور سخت دشمن کو تو حضور ﷺکے ارشاد کے سچا ہونیکا اس قدر یقین ہو کہ اس کو اپنے مارے جانے میں ذرا بھی تردد یا شک نہ تھا لیکن ہم لوگ حضورﷺ کو نبی ماننے کے باوجود حضور ﷺکو سچاماننے کے باوجود حضورﷺ کے ارشادات کو یقینی کہنے کے باوجود حضورﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کے باوجود حضورﷺ کی امت میں ہو نے پر فخر کے باوجود کتنے ارشادات پر عمل کرتے ہیں اور جن چیزوں میں حضورﷺ نے عذاب بتائے ہیں ان سے کتنا ڈرتے ہیں کتنا کانپتے ہیں یہ ہر شخص کے اپنے ہی گریبان میں منہ ڈال کر دیکھنے کی بات ہے کو ی ٔدوسرا کسی کے متعلق کیا کہہ سکتا ہے ابن حجر نے کتاب الزواجر میں قارون کا بھی فرعون وغیرہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اکثر انہی وجوہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھین پس اگر اس کی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہو گا اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ اور وزارت ( یعنی ملازمت یا مصاحبت ) ہے تو ہامان کے ساتھ اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ اور جب ان لوگوں کے ساٹھ اس کا حشر لو گیا تو پھر جس قسم کے بھی عذاب احادیث میں وارد ہوئے خواہ وہ حدیثیں متکلم فیہ ہوں ان میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ جہنم کے عذاب سخت سے سخت ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کو اپنے ایمان کی وجہ سے ایک نہ ایک دن ان سے خلاصی ہو جائے گی اور وہ لوگ ہمیشہ کیلئے اس میں رہیں گے لیکن خلاصی ہونے تک کا زمانہ کیا کچھ ہنسی کھیل ہے نہ معلوم کتنے ہزار برس ہوں گے۔
۷۔ قَالَ بَعُضُھُمْ وَرَدَفِی الْحَدِیْثِ اَنَّ مَنْ حَافَظَ عَلَی الصَّلٰوۃِ اَکْرَمَہُ اﷲُ تَعَالٰی بِخَمْسِ خِصَالٍ یَرْفَعُ عَنْہُ ضِیْقَ الْعَیْشِ وَعَذَابَ الْقَبْرِ وَیُعْطِیْہِ اﷲُ کِتَابَہ‘ بِیَمِیْنِہٖ وَ یَمُرُّ عَلَی الصِّرَاطِ کَالْبَرْقِ وَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَمَنْ تَھَاوَنَ عَنِ الصِّلٰوۃِ عَاقَبَہُ اﷲُ بِخَمْسَ عَشَرَۃَ عُقُوْبَۃً خَمْسَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَثَلٰثَۃٌ عِنْدَالْمَوْتِ و ثَلٰثٌ فِیْ قَبْرِہٖ وَ ثَلَاثٌ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ مِنَ الْقَبْرِ فَاَمَّا الَّلَواتِیْ فِی الدُّنْیَا فَالْاُوْلٰی تُنْزَعُ الْبَرَکَۃُ مِنْ عُمْرِہٖ یَمُوْتُ ذَلِیْلًا وَالثَّانِیَۃُ یَمُوْتُ جُوْعًا وَّالثَّالِثَۃُ یَمُوْتُ عَطْشَانًا وَلَوْسُقِیَ بِحَارُ الدُّنْیَا مَا رَوِیَ مِنْ عَطْشِہٖ اَضْلَاعُہ‘ وَوَ الثَّانِیَۃُ یُوْقَدُ عَلَیْہِ الْقَبْرُ نَارًافَیَتَقَلَّبُ عَلَی الْجَمَرِ لَیْلًا وَّنَھَارًا وَ الثَّالِثَۃُ یُسَلَّطُ عَلَیْہِ فِیْ قَبْرِہٖ ثُعْبَانٌ اِسْمُہُ الشَّجَاعُ الْاَقْرَعُ عَیْنَاہُ مِنْ نَّارَوَاَظْفَارُہ‘ مِنْ حَدِیْدٍ طُوْلُ کُلِّ ظُفْرٍ مَسِیْرَۃُ یَوْمٍیُکَلِّمُ الْمَیِّتَ فَیَقُوْلُ اَنَا الشُّجَاعُ الْاَقْرَعُ وَصَوْتُہ‘مِثْلُ الرَّعْدِ الْقَاصِفِ یَقُوْلُ اَمَرَنِیْ رَبِّیْٓ اَنْ اَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ اِلٰی بَعْدِ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَاَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الظُّھْرِ اِلَی الْعَصْر وَاَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلَی الْمَغْرِبِ وَاَضْرِبَکَ عَلٰی تَضْیِیْعِ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ اِلَی الْعِشَآئِ وَاَضْرِبَکِ عَلٰی تَضْیِیْع صَلٰوۃالْعِشَآئِ اِلَی الْفَجْرِ فَکُلَّمَا ضَرَبَہٗ ضَرْبَۃً یَغُوْصُ فِی الْاَرْضِ سَبْعِیْنَ ذِرَاعًا فَلَایَزَالُ فِی الْقَبْرِ مُعَذَّبًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَاَمَّاالَّتِیْ تُصِیْبُہٗ عِنْدَ خُرُوْجِہٖ مِنَ الْقَبْرِفِیْ مَوْقِفِ الْقِیَامَۃِ فَشِدَّۃُ الْحِسَابِ وَسَخَطُ الرَّبِّ وَدُخُوْلُ النَّارِ وَفِی رِوَایَۃٍ فَاِنَّہٗ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْھِہٖ ثَلَاثَۃُ اَسْطُرً مَّکْتُوْبَاتٌ اَلسَّطْرُ الْاَوَّلُ یَا مُضَیِّعَ حَقِّ اﷲِ السَّطْرُ الثَّانِیْ یَا مَخْصُوْصًا بِغَضَبِ اﷲِ الثَّالِثُ کَمَا ضَیَّعْتَ فِی الدُّنْیَا حَقَّ اﷲِ فَأٰیِسٌ الْیَوْمَ اَنْتَ مِنْ رَّحْمَۃ اﷲِ
ایک حدیث میں آیاہے کہ جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ‘ پانچ طرح سے اس کااکرام و اعزاز فرماتے ہیں ایک یہ کہ اس پر سے رزق کی تنگی ہٹا دیجاتی ہے دوسرے یہ کہ اس سے عذاب قبر ہٹا دیا جاتا ہے تیسرے یہ کہ قیامت کو اس کے اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (جن کا حال سورہ الحاقہ میں مفصل مذکور ہے کہ جن لوگوں کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دئے جائیں گے وہ نہایت خوش وخرم ہر شخص کو دکھاتے پھریں گے) اور چوتھے یہ کہ پل صراط پر سے بجلی کی طرح گذر جائیں گے پانچویں بغیر حساب جنت میں د اخل ہونگے اور جوشخص نمار میں سستی کرتا ہے اس کو پندرہ طریقہ سے عذاب ہوتا ہے پانچ طرح دنیا میں اور تین طرح موت کے وقت اور تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد۔ دنیا کے پانچ تویہ ہیں اول یہ کہ اس کی زندگی میں برکت نہیں ہوتی دوسرے یہ کہ صلحاء کا نور اس کے چہرہ سے ہٹادیا جاتا ہے تیسرے یہ کہ اس کے نیک کاموں کا اجر ہٹا دیاجاتا ہے چوتھے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں پانچویں یہ کہ نیک بندوں کی دعائوں میں اس کا استحقاق نہیں رہتا اورموت کے وقت کے تین عذاب یہ ہے کہ اول ذلت سے مرتا ہے دوسرے بھوکا مرتاہے تیسرے پیاس کی شدت میں موت آتی ہے، اگر سمندر بھی پی لے تو پیاس نہیں بجھتی۔ قبرکے تین عذاب یہ ہے اول اس پر قبر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں
دوسرے قبر میں آگ جلادی جاتی ہے تیسرے قبر میں ایک سانپ اس پر ایسی شکل کا مسلط ہوتا ہے جس کی آنکھیں آگ کی ہوتی ہیں اور ناخن لوہے کہ اتنے لانبے کہ ایک دن پورا چل کر اس کے ختم تک پہنچا جائے اس کی آواز بجلی کی کڑک کی طرح ہوتی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے ربنے تجھ پرمسلط کیا ہے کہ تجھے صبح کی نمازضائع کرنیکی و جہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤن اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی و جہ سے غروب تک مغرب کی نماز کی و جہ سے عشاء تک اور عشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤںضائع کرنیکی و جہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤن اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے غروب تک مغرب کی نماز کی وجہ سے عشاء تک اور عشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں جب وہ ایک دفعہ اس کو مارتا ہے تو اس کی و جہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میںعشاء کی نماز کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں جب وہ ایک دفعہ اس کو مارتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ہے اسی طرح قیامت تک اسکو عذاب ہوتا رہیگا اور قبر سے نکلنے کے بعد کے تین عذاب یہ ہیں : ایک حساب سکتی سے کیا جائے گا دوسرے حق تعالیٰ شا نہ‘ کا اس پرغصہ ہو گا تیسرے جہنم میں داخل کر دیا جائیگا یہ کل میزان چودہ ہوئی ممکن ہے کہ پندرھواں بھول سے رہ گیا ہو اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کے چہرہ پر تین سطریں لکھی ہوئی ہوتی ہیں پہلی سطر او اﷲ کے حق کو ضائع کرنے والے دوسری سطر او اﷲ کے غصے کیساتھ مخصوص تیسری سطر جیسا کہ تو نے دنیا میں اﷲ کے حق کوضائع کیا آج تو اﷲ کی رحمت سے مایوس ہے۔
(ماذکرفی ھذاالحدیث من تفصیل العدد لا یطابق جملۃ الخمس عشرۃ لان المفصل اربع عشرۃ فقط فلعل الرای نسی الخمس عشر کذافی الزواجر لابن حجرالملکی قلت وھو کذلک فان ابا اللیث السمرقندی ذکرالحدیث فی قرۃ العیون فجعل ستہ فی الدنیا فقال الخامسۃ تمقتہ الخلائق فی الدار الدنیا والسادس لیس لہ حظ فی دعاء الصالحین ثم ذکر الحدیث بتمامہ ولم یعزہ الی احد وفی تنبیہ الغافلین للشیخ نصربن محمد ابراھیم السمرقندی یقال من داوم علی الصوۃ الخمس فی الجاعۃ اعطاہ اﷲ خمس خصال ومن تھاون بھافی الجماعۃ عاقبہ اﷲ باثنی عشر خصلۃ ثلثۃ فی الدنیا ثلثۃ عند الموت وثلثۃ فی القبر وثلثۃ یوم القیامۃ ثم ذکرنحوھاثم قال وروی عن ابی ذر عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم نحو ھذا وذکر السیوطی فی ذیل الالی بعد ما اخج بمعناہ من تخریج ابن النجار فی تریخ بغداد بستدہالی ابی ہریرۃ قال فی المیزان ہذا حدیث بطل رکبہ محمد بن علی بن عباس علی ابی بکر بن زیاد النیسا بوری قلت لکن ذکر الحافظ فی المنبہات عن ابی ہریرۃ مرفوعا الصلوۃ عماد الد ین وفیہا عشر خصال الحدیث ذکرتہ فی الہندیہ ونکر الغزالی فی دقائق ائق الاخبار بنحو ہذا اتم منہ وقال من حافظ علیہا اکرمہ اللہ بخس عشرۃ الخ مفصلا)
ف: یہ حدیث پوری اگرچہ عام کتب حدیث میں مجھے نہیں ملی لیکن اس میں جتنی قسم کے ثواب اور غزاب ذکر کئے گئے ہیں ان کی اکثر کی تائید بہت سی روایات سے ہوتی ہے جن میں سے بعض پہلے گذر چکی ہیں اور بعض آگے آ رہی ہیں اور پہلی روایات میں بے نمازی کا اسلام سے نکل جانا بھی مذکور ہے تو پھر جس قدر غزاب ہو تھوڑا ہے البتہ یہ ضرر ہے کہ یہ کچھ مذکور ہے اور آئیندہ آ رہا ہے وہ سب اس فعل کی سزا ہے اس کے مستحق سزا ہونے کے بعد اور اس دفعہ کی فرد جرم کے ساتھ ہی ارشاد خداوندی ہے ان اﷲ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشائکہ اﷲ تعالیٰ شرک کی تو معافی نہیں فرمائیں گے اس کے علاوہ جس کی دل چاہے معافی فرمادیں گے اس آیت شریفہ اور اس جیسی آیات اور احادیث کی بنا پر اگر معاف فرمادیں تو زہے قسمت احادیث مین آیا ہے کہ قیامت میں تین عدالتیں ہیں ایک کفر و اسلام کی اس میں بالکل بخشش نہیں دوسری حقوق العباد کی اس میں حق والے کا حق ضرور دلایا جائیگا چاہے اس سے لیا جائے جس کے ذمہ ہے یا اس کو معاف فرمانے کی مرضی ہو تو اپنے پاس سے دیا جائیگا تیسری عدالت اﷲ تعالی ٰکے اپنے حقوق کی ہے اس میں بخشش کے دروازے کھول دئے جائیں گے اس بناء پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے افعال کی سزائیں تو یہی ہیں جو احادیث میں وارد ہوئیں لیکن مراحم خسروانہ اس سے بالاتر ہیں ان کے علاوہ اور بھی بعض قسم کے عذا ب اور ثواب احادیث مین آئے ہیں بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا معمول تھا کہ صبح کی نماز کے بعد صحابہ سے دریافت فرماتے کہ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے اگر کوئی دیکھتا تو بیان کر دیتا حضور اس کی تعبیر ارشاد فرما دیتے۔ایک مرتبہ حضور نے حسب معمول دریافت فرمایا اس کیے بعد ارشاد فرمایاکہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ دو شخص آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے اس کے بعد بہت لمبا خواب ذکر فرمایا جس میں جنت دوزخ اور اس میں مختلف قسم کے غذاب لوگوں کو ہوتے ہوئے دیکھے منجملہ ان کے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا سر پتھر سے کچلا جارہا ہے اور اس زور سے پتھر مارا جاتا ہے کہ وہ پتھر لڑھکتا ہوا دور جا پڑتا ہے اتنے اسکو اٹھایا جاتا ہے وہ سر پھر ویسا ہی ہو جاتا ہے تو دوبارہ اس کو زور سے مارا جاتا ہے اسی طرح اس کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے حضور نے اپنے دونوں ساتھیوں سے دریافت فرمایا کہ یہ کون شخص ہے تو انہوں نے بتایا کہ اس شخص نے قرآن شریف پڑھا تھا اور اس کو چھوڑ دیا تھا اور فرص نماز چھوڑ کر سو جاتا تھا ایک دوسری حدیث میں اسی قسم کا ایک اور قصہ ہے جس میں ہے کہ حضور نے ایک جماعت کے ساتھ یہ برتاؤ دیکھا تو حضرت جبرئیل ںسے دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز میں سستی کرتے تھے مجاہد کہتے ہیں کہ جو لوگ نماز کے اوقات معلوم کرنے کا اہتمام رکھتے ہیں ان میں ایسی برکت ہوتی ہے جیسی حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد میں ہوئی حضرت انس ؓ حضورﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص دنیا سے ایسے حال میں رخصت ہو کہ اخلاص کا ساتھ ایمان رکھتا ہو اس کی عبادت کرتا ہو نماز پڑھتا ہو زکوٰۃ ادا کرتا ہو تو وہ ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گا کہ حق تعالیٰ شا نہ‘ اس سے راضی ہوں گے حضرت انسؓ حضورﷺ سے حق تعالیٰ شا نہ‘ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں کسی جگہ غذاب بھیجنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر وہاں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اﷲ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں اخیر راتوں میں استغفار کرتے ہیں تو عذاب کو موقوف کر دیتا ہوں حضرت ابو دردؓا نے حضرت سلمان ؓ کو ایک خط لکھا جس میں یہ لکھا کہ مسجد میں اکثر اوقات گزارا کرو میں نے حضور سے سنا ہے کہ مسجد متقی کا گھر ہے اور اﷲ جل شانہ نے اس بات کا عہد فر ما لیا ہے کہ جو شخص مسجد میں اکثر رہتا ہے اس پر رحمت کروں گا اس کو راحت دونگا اور قیامت مین پل صراط کا راستہ آسان کر دوں گا اور اپنی رضا نصیب کروں گا حضرت عبداﷲ بن مسعود حضور سے نقل کرتے ہیں کہ جب مردہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو جو لوگ قبر تک ساتھ گئے تھے واپس بھی نہیں ہوتے کہ فرشتے اس کے امتحان کے لئے آتے ہیں اس وقت اگر وہ مؤمن ہے تو نماز اس کے سر کے قریب ہوتی ہے اور زکوۃ دائیں جانب اور روزہ بائیں جانب اور باقی جتنے بھلائی کے کام کئے تھے وہ پاؤں کی جانب ہو جاتے ہیں اور ہر طرف سے اس کا احاطہ کر لیتے ہیں کہ اس کے قریب تک کوئی نہیں پہنچ سکتا فرشتے دور ہی سے کھڑے ہو کر سوال کرتے ہیں ایک صحابی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضور کے گھر والوں پر خرچ کی کچھ تنگی ہوتی تو آپ ان کو نماز کا حکم فرماتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے تلاوت فرماتے و امر اھلک بالصلوۃ واصطبر علیھا لا نسئلک رزقاً نحن نرزقک و العاقبۃ للتوی اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس کا اہتمام کرتے رہئے ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے روزی تو ہم دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیز گاری ہی کا ہے حضرت اسماء کہتی ہیں میں نیحضور سے سنا کہ قیامت کے دن سارے آدمی ایک جگہ جمع ہوں گے اور فرشتہ جو بھی آواز دے گا سب کو سنائی دے گی اسوقت اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جو راحت اور تکلیف میں ہر حال میں اﷲ کی حمد کرتے تھے یہ سنکر ایک جماعت اٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی پھر اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جو راتوں کو عبادت میں مشغول رہتے تھے اور ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے تھے پھر ایک جماعت اٹھے گی اور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی پھر اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی تھی پھر ایک جماعت اٹھے گیاور بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہو جائے گی ایک اور حدیث میں بھی یہی قصہ آیا ہے اس میں بہ بھی ہے کہ اعلان ہو گا آج محشر والے دیکھیں گے کہ کریم لوگ کون ہیں اور اعلان ہو گا کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارتی مشاغل اﷲ کے ذکر اور نماز سے نہیں روکتے تھے شیخ نصر سمر قندی نے تنبیہ الغافلین میں بھی یہ حدیث لکھی ہے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب یہ حضرات بغیر حساب کتاب چھوٹ چکیں گے تو جہنم سے ایک ( عنق ) لمبی گردن ظاہر ہو گی جو لوگوں کی پھاندتی ہوئی چلی آئے گی اس میں دو چمکدار آنکھیں ہوں گی اور نہایت فصیح زبان ہو گی وہ کہے گی کہ میں ہر اس شخص پر مسلط ہوں جو متکبر بد مزاج ہو اور مجمع میں سے ایسے لوگوں کو اس طرح چن لے گی جیسا کہ جانور دانہ چگتا ہے ان سب کو چن کر جہنم میں پھینک دے گی اس کے بعد پھر اسی طرح دوبارہ نکلے گی اور کہے گی کہ اب میں ہر اس شخص پر مسلط ہوں جس نے اﷲ کو اور اس کے رسول کی ایذادی ان لوگوں کو بھی جماعت سے چن کر لے جائے گی اس کے بعد سہ بارہ پھر نکلے گی اور اس مرتبہ تصویر والوں کو چن کر لے جائے گی اس کے بعد جب یہ تینوں قسم کے آدمی مجمع سے چھٹ جائیں گے تو حساب کتاب شروع ہو گا کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں شیطان آدمیوں کو نظر آ جاتا تھا ایک صاحب نے اس سے کہا کہ کوئی ترکیب ایسی بتا کہ میں تجھ جیسا ہوجاؤں شیطان نے کہا کہ ایسی فرمائش تو آج تک مجھ سے کسی نے بھی نہیں کی تجھے اسکی کیا ضرورت پیش ائی انہوں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے شیطان نے کہ اس کی ترکیب یہ ہے کہ نماز میں سستی کر اور قسم کھانے میں ذرا پرواہ نہ کر جھوٹی سچی ہر طرح کی قسمیں کھایا کر ان صاحب نے کہا کہ میں اﷲ سے عہد کرتا ہوں کہ کبھی نماز نہ چھوڑوں گا اور کبھی قسم نہ کھاؤں گا شیطان نے کہا کہ تیرے سوا مجھ سے چال کے ساتھ کسی نے کچھ نہیں لیا میں نے بھی عہد کر لیا کہ آدمی کو کبھی نصیحت نہیں کروں گا ۔
حضرت ابی ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا اس امت کو رفعت و عزت اور دین کے فروغ کی بشارت دو لیکن دین کے کسی کام کو جو شخص دنیا کے واطے کرے آخرت میں اس کاکوئی حصہ نہیں ایک حدیث میں آیا ہے حضور اقدس ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حق تعالیٰ شا نہ‘ کی بہتریں صورت میں زیارت کی مجھ سے ارشاد ہوا کہ محمد ملا اعلی والے یعنی فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں میں نے عرض کیا مجھے تو علم نہیں تو حق تعالیٰ شا نہ‘ نے اپنا دست مبارک میرے سینہ پر رکھ دیا جس کی ٹھنڈک سینہ کے اندر تک محسوس ہوئی اور اسکی برکت سے تمام عالم مجھ پر منکشف ہو گیا پھر مجھ سے ارشاد فرمایا اب بتاؤ فرشتے کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجہ بلند کرنے والی چیزوں میں اور ان چیزوں میں جو گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں اور جماعت کی نماز کی طرف جو قدم اٹھتے ہیں ان کے ثواب میں اور سردی کے وقت وضو کو ا چھی طرح سے کرنے کے فضائل میں اور ایک نماز کے بعد سے دوسری نماز تک انتظار میں بیٹھے رہنے کی فضیلت میں جو شخص ان کا اہتمام کرے گا بہتریں حالت مین زندگی گذارے گا اور بہترین حالت میں مرے گا متعدد احادیث میں آیا ہے حق تعالیٰ شا نُہ‘ ارشاد فرماتے ہیں اے ابن آدم تو دن کے شروع میں میرے لئے چار رکعت پرھ لیا کر میں تمام دن کے تیرے کام بنا دیا کروں گا تنبیہ الغافلیں میں ایک حدیث لکھی ہے کہ نماز اﷲ کی رضا کا سبب ہے فرشتوں کی محبوب چیز ہے انبیاء کی سنت ہے اس سے معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے دعا قبول ہوتی ہے رزق میں برکت ہوتی ہے یہ ایمان کی جڑ ہے بدن کی راحت ہے دشمن کے لئے ہتھیار ہے نمازی کے لئے سفارشی ہے قبر میں چراغ ہے اور اس کی وحشت میں دل پہلانے والی ہے منکر نکیر کے سوال کا جواب ہے اور قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے اور اندھیرے میں روشنی ہے جہنم کی آگ کے لئے آڑ ہے اعمال کی ترازو کا بوجھ ہے پل صراط پر جلدی سے گزارنے والی ہے جنت کی کنجی ہے حافظ ابن حجر نے منبیہات میں حضرت عثمان غنی ؓ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص نماز کی محافظت کرے اوقات کی پابندی کے ساتھ اس کا اہتمام کرے حق تعالیٰ شا نُہ‘ نو چیزوں کیساتھ اس کا اکرام فرماتے ہیں اول یہ کہ اس کو خودمحبوب رکھتے ہیں دوسرے تندرستی عطا فرماتے ہیں تیسرے فرشتے اس کی حفاظت فرماتے ہیں چوتھے اس کے گھر میں برکت عطا فرماتے ہین پانچویں اس کے چہرہ پر صلحاء کے انوار ظاہر ہوتے ہیں چھٹے اس کا دل نرم فرماتے ہیں ساتویں وہ پل صراط پر بجلی کی طرح سے گزر جائے گا آٹھویں جہنم سے نجات فر ما دیتے ہیں نویں جنت میں ایسے لوگوں کا پروس نصیب ہو گا جن کے بارے میں لا خوف علیھم و لا ھم یخزنون الایۃ وارد ہے یعنی قیامت مین نہ ان کو کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں کے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس خوبیان ہیں چہرہ کی رونق ہے دل کا نور ہے بدن کی راحت اور تندرسی کا سبب ہے قبر کا انس ہے اﷲ کی رحمت اترنے کا ذریعہ ہے آسمان کی کنجی ہے اعمالناموں کی ترازو کا وزن ہے ( کہ اس سے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے ) اﷲ کی رضا کا سبب ہے جنت کی قیمت ہے اور دوزخ کی آر ہے جس شخص نے اس کو قائم کیا اس نے دین کو قائم رکھا اور جس نے اس کو چھوڑا اپنے دین کو گرا دیا ایک حدیث میں وارد ہوا کہ گھر میں نماز پڑھنا نور ہے نماز سے اپنے گھروں کو منور کیا کرو اور یہ تو مشہور حدیث ہے کہ میری امت قیامت کے دن وضو اور سجدہ کی وجہ سے روشن ہاتھ پاؤںوالی روشن چہرہ والی ہو گی اسی علامت سے دوسری امتوں سے پہچانی جائے گی ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آسمان سے کوئی بلا آفت نازل ہوتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹا لی جاتی ہے متعدد احادیث مین آیا ہے کہ اﷲ تعالی نے جہنم پر حرام کر دیا ہے کہ سجدہ کے نشان کو جلاے (یعنی اگر اپنے اعمال بد کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل بھی ہو گا تو سجدہ کا نشان جس جگہ ہو گا اس پر آگ کا اثر نہ ہوسکے گا ) ایک حدیث میں ہے کہ نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے اور صدقہ اس کی کمر توڑ دیتا ہے ایک جگہ ارشاد ہے کہ نماز شفاء ہے دوسری جگہ اس کے متعلق ایک قصہ نقل کیا کہ حضرت ابو ہریرہ ایک مرتبہ پیٹ کے بل لیٹء ہو تھے حضورؐ نے دریافت فرمایا کیا پیٹ مین درد ہے عرض کیا جی ہاں فرمایا اٹھ نماز پڑھ نماز میں شفاء ہے حضور اقدسﷺ نے ایک مرتبہ جنت کو خواب مین دیکھا تو حضرت بلال کے جوتوں کے گھسیٹنے کی آواز بھی سنائی دی صبح کو حضورﷺنے پوچھا کہ تیرا وہ خصوصی عمل کیا ہے جس کی وجہ سے جنت میں بھی تو ( دنیا کی طرح سے) میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا عرض کیا کہ رات دن میں جس وقت بہی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو وضو کرتا ہوں اس کے بعد ( تحیۃ الضو کی ) نماز جتنی مقدر ہو پڑھتا ہوں سفیری نے کہا ہے کہ صبح کی نماز چھوڑنے والے کو ملائکہ اور فاجر سے پکارتے ہین اور ظہر کی نماز چھوڑنے والے کو او خاسر (خسارہ والے ) سے اور عصر کی نماز چھوڑنے والے کو عاصی سے اور مغرب کی نماز چہوڑنے والے کو کافر سے اور عشاے کی نماز جھوڑنے والے کو او مضیع ( اﷲ کا حق ضائع کرنے والے سے پکارتے ہیں علامہ شعرانی فرماتے ہین کہ یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ مصیبت ہر اس آبادی سے ہٹا دی جاتی ہے کہ جہاں کے لوگ نمازی ہوں جیسا کہ ہر اس آبادی پر نازل ہوتی ہے جہاں کہ لوگ نمازی نہ ہوں ایسی جگہوں میں زلزلوں کا آنا بجلیوں کا گرنا مکانوں کا دھنس جانا کچھ بھی مستبعد نہیں اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میں تو نمازی ہوں مجھے دوسری سے کیا غرص اس لئے کہ جب بلا نازل ہوتی ہے تو عام ہوا کرتی ہے ( خود حدیث شریف مین مذکور ہے کسی نے سوال کیا کہ ہم لوگ ایسی صورت میںہلاک ہو سکتے ہیں کہ ہم میں صلحا موجود ہوں حضورﷺنے ارشاد فرمایا ہاں جب خباثت کا غلبہ ہو جائے ) اسلئے کہ ان کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی وسعت کے موافق دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور اچھی باتوں کا حکم کریں ۔
۸۔ رُوِیَ اَنَّہُ عَلَیَہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ قَالَ مَنْ تَرَکَٔ الصَّلٰوۃَ حَتّٰی مَضٰی وَ قْتُھَا ثُمَّ قَضٰی عُذِّبَ فِی النَّارِ حُقْبًا وَ الْحُقْبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَٰلثُمِا ئَۃٍ وَّسِتُّوْنَ یَوْمًا کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ۔
حضور ﷺ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کر دے گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہو گا ( اس حساب سے ) ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی۔
( کذافی مجالس الابرار قلت لم اجدہ فیما عندی من کتب الحدیث الاان مجالس الابرار مدحہ شیخ مشائخنا الشاہ عبد العزیز الدہلوی ثم قال الرغب فی قولہ تعالی لا بثین فیہا الحقابا قیل جمع الحقب ای الدہر قیل والحقبۃ ثمانون عاما والصحیح ان الحقبۃ مدۃ من الزمان مبہمہ و اخراج ابن کثیر فی تفسیر قولہ تعالی فویل للمصلین الذین ہم عن صلوتہم ساہون عن ابن عباس ان فی جہنّم لوادیا تسعیذ جہنّم من ذلک الوادی فی کل یوم ار بماتۃ مرۃ اعد ذلک الوادی للمرائتین من امت محمد الحدیث وذکر ابو للیث السمرقندی فی قرۃ العیون عن ابن عباس وہو مسکن من یوخر الصلوۃ عن وقتہا و عن سعد بن ابی وقاص مرفوعا الذین ہم عن صلوتہم ساہون قال ہم الذین یوخرون الصلوۃ عن وقتہا وصحح الحاکم البیہقی وقفہ وخراج الحاکم عن عبد اللّٰہ فی قولہ تعالی فسوف یلقون غیا قال واد فی جہنّم بعید القعر خبیث الطعم وقال صحیح الاسناد)۔
ف: حقب کے معنی لغت مین بہت زیادہ زمانہ کے ہیں اکثر حدیثوں میں اسکی مقدار یہی آئی ہے جو اوپر گذری یعنی اسی سال در منژور میں متعدد روایات سے یہی مقدار منقول ہے حضرت علی ؓ نے ہلال ہجری سے دریافت فرمایا کہ حقب کی کیا مقدار ہے انہوں نے کہا کہ حقب اسی برس کا ہوتا ہے اور ہر برس بارہ مہینے کا اور ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار برس کا حضرت عبداﷲبن مسعود سے بھی صحیح روایت سے اسی برس منقول ہین حضرت ابو ہریرہ نے خود حضور اقدس ﷺ سے یہی نقل کیا ہے کہ ایک حقب اسی سال کا ہوتا ہے اور ایک سال تین سو ساٹھ دن کا اور ایک دن تمھارے دنوں کے اعتبار سے ( یعنی دنیا کے موافق) ایک ہزار سال کا یہی مضمون حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے بھی حضورﷺ سے نقل فرمایا ہے اس کے بعد حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اس بھروسہ پر نہیں رہنا چاہئے کہ ایمان کی بدولت جہنم سے آکر نکل جائیں گے اتنے سال یعنی دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جلنے کے بعد نکلنا ہو گا وہ بھی جب ہی کہ اور وجہ زیادہ پڑے رہنے کی نہ ہو اس کے علاوہ اور بھی کجھ مقدار اس سے کم و زیادہ حدیث مین آئی ہے مگر اول تو اوپر والی مقدار کئی حدیثوں کمیں آئی ہے اسلئے یہ مقدم ہے دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ آدمیوں کی حالت کے اعتبار سے کم و بیش ہو۔
ابواللیث سمرقندی نے قرۃ العیون میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے جو شخص ایک فرض نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے اس کا نام جہنم کے دروازہ پر لکھ دیا جاتا ہی اور اس کو اس میں جانا ضروری اور حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا یہ کہو کہ اے اﷲ ہم میں کسی کو شقی محروم نہ کر پھر فرمایا جاتے ہو شقی محروم کون ہے صحابہ کے استفسار پر ارشاد فرمایاکہ شقی محروم نماز کا چھوڑنے والا ہے اس کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں ایک حدیث میں ہے کہ دیدہ دانستہ بلا عذر نماز چھوڑنے والا ہیاس کا کوئی حصہ اسلام میں نہیں ایک حدیث میں ہے کہ دیدہدہ و دانستہ بلا عذر نماز چھڑنے والے کی طرف حق تعالی قیامت میں التفات ہی نہ فرمائیں گے اور عزاب الیم (دکھ دینے والا عذاب ) اس کو دیا جائے گا ایک حدیث سے نقل کیا ہے کہ دس آدمیوں کو خاص طور سے عزاب ہو گا منجملہ ان کے نماز کا چھوڑنے والا بھی ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے اور فرشتے منہ اور پشت پر ضرب لگا رہے ہوں گے جنت کہے گی کہ میرا تیرا کوئی تعلق نہیں نہ میں تیرے لئے نہ تو میرے لئے دوزخ کہے گی کہ آ جا میرے پاس آ جا تو میرے لئے ہے میں تیرے لئے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جہنم کی ایک وادی (جنگل) ہے جس کا نام لم لم اس میں سانپ ہیں جو اونٹ کی گردن کے برابر موٹے ہیں اور ان کی لمبائی ایک مہینہ کی مسافت کے برابر ہے اس میں نماز چھوڑنے والوں کو غذاب دیا جائے گا ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک میدان ہے جس کا نام جب الحزن ہے وہ بچھوؤں کا گھر ہے اور ہر بچھو خچر کے برابر بڑا ہے وہ بھی نماز چھوڑنے والوں کو ڈسنے کے لئے ہیں ہاں مولائے کریم معاف کر دے تو کون پوچھنے والا ہے مگر کوئی معافی چاہے بھی تو ابن حجر نے زواجر میں لکھا ہے کہ ایک عورت کا انتقال ہو گیا تھا اس کا بھائی دفن میں شریک تھا اتفاق سے دفن کرتے ہوئے ایک تھیلی قبر میں گر گئی اس وقت خیال نہیں آیا بعد میں یا آئی تو بہت رنج ہوا چپکے سے قبر کھول کر نکالنے کا ارادہ کیا قبر کو کھولا تو وہ آگ کے شعلوں سے بھر رہی تھی روتا ہوا ماں کے پاس آیا اور حال بیان کیا اور پوچھا کہ یہ بات کیا ہے ماں نے بتایا کہ وہ نماز میں سستی کرتی تھی اور قضا کر دیتی تھی اعا ذنا اﷲ منہا۔
۹۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِؓیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاسَھْمَ فِی الْاِسْلَامِ لِمَنْ لَّاصَلٰوۃَ لَہٗ وَلَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّاوُضُوْئَ لَہٗ۔
حضور اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام میںکوئی بھی حصہ نہیں اس شخص کا جو نماز نہ پڑھتا ہو اور بے وضو کی نماز نہیں ہوتی دوسری حدیث میں ہے کہ دین بغیر نماز کے نہیں ہے نماز دین کے لیے ایسی ہے جیسا آدمی کے بدن کیلئے سر ہوتاہے۔
(اخرجہ البزار واخرج الحاکم عن عائشۃ مرفوعا صححہ ثلث احلف علیھن لایجعل اﷲ من لہ سھم فی الاسلام کمن لا سھم لہ وسھام الاسلام الصوم و الصلوۃ و الصدقۃالحدیث واخرج الطبرانی فی الاوسط عنابی عمر مرفوعا لا دین لمن لاصلوۃ لہ انماموضع الصلوۃمن الدین کموضع الراس من الجسد کذافی الدرالمنثور)
ف: جو لوگ نماز نہ پڑھ کر اپنے کو مسلمان کہتے ہیں یا حمیت اسلامی کے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں وہ حضور اقدس ﷺ کے ان ارشادات پر زرا غور کر لیں اور جن اسلاف کی کامیابیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھتے ہیں ان کے حالات کی بھی تحقیق کریں کہ وہ دین کو کس مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی پھر دنیا ان کے قدم کیوں نہ چومتی حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ کی آنکھ میں پانی اتر آیا لوگوں نے عرض کیا کہاس کا علاج تو ہو سکتا ہے مگر چند روز آپ نماز نہ پڑھ سکیں گے انہوں نے فرمایا یہ نہیںہو سکتا میں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ جو شخص نماز نہ پڑھے وہ اﷲ جل شانہ کے یہاں ایسی حالت میںحاصر ہو گا کہ حق تعالیٰ شا نہ‘ اس پر ناراض ہوں گے ایک حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں نے کہا پانچ دن لکڑی پر سجدہ کرنا پڑء گا انہوں نے فرمایا کہ ایک رکعت بھی اس طرح نہیں پڑھوں گا عمر بھر بینائی کو صبر کر لینا ان حضرات کے یہاں اس سے سہل تھا کہ نماز چھوڑیں حالانکہ اس عذر کی وجہ سے نماز کا چھوڑنا جائز بھی تھا حضرت عمر ﷲ کے اخیر زمانہ میں جب برچھا مارا گیا تو ہر وقت خون جاری رہتا تھا اور اکثر اوقات غفلت رہتی تھی حتی کہ اسی غفلت میں وصال بھی ہو گیا مگر بیماری کے ان دنوں میں جب نماز کا وقت ہوتا تو ان کو ہوشیار کیا جاتا اور نماز کی درخواست کی جاتی وہ اسی حالت میں نماز ادا کرتے اور یہ فرماتے کہ ہاں ہاں صرور جو شخص نماز نہ پڑھے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہمارے یہاں بیمار کی خیر خواہی راحت رسانی اس میں سمجھی جاتی ہے کہ اس کو نماز کی تکلیف نہ دی جائے بعد میں فدیہ دے دیا جائے گا ان حصرت کے یہاں خیر خواہی یہ تھی جو عبادت بھی چلتے چلاتے کر سکے دریغ نہ کیا جائے یبین تفاوت رہ از کجا است تا بہ کجا۔
حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ حضورﷺسے ایک خادم مانگا کہ کاروبار میں مدد کرے حضورؐ نے فرمایاکہ یہ تین غلام ہیں جو پسند ہو لے لو انہوں نے عرض کیا آپ ہی پسند فرما دیں حضورؐ نے ایک شخص کے متعلق فرمایا کہ اس کو لے لو یہ نمازی ہے مگر اس کو مارنا نہیں ہمیں نمازیوں کے مارے کی ممانعت ہے اس قسم کا واقعہ ایک اور صحابی اوالہیثم کے ساتھ بھی ہوا انہوں نے بھی حضورﷺسے غلام مانگا تھااس کے بالمقابل ہمارا ملازم نمازی بن جائے تو ہم اس کو طعن کرتے ہیں اور حماقت سے اس کی نماز میں اپنا حرج سمجھتے ہیں حضرت سفیان ثوری  ؒپر ایک مرتبہ غلبہ حال ہوا تو سات روز تک گھر میں رہے نہ کھاتے تھے نہ پیتے تھے نہ سوتے تھے شیخ کو اس کی اطلاع کی گئی دریافت کیا کہ نماز کے اوقات تو محفوظ رہتے ہیں (یعنی نماز کے اوقات کا تو اہتمام رہتا ہے ) لوگوں نے عرض کیا کہ نماز کے اوقات بیشک محفوظ ہیں فرمایا الحمد ﷲ الذی لم یجعل للشیطان علیہ سبیلاتمام تعریف اﷲ ہی کے لئے ہے جس نے شیطان کواس پرمسلط نہ ہونے دیا ( بہجۃ النفوس)

No comments:

Post a Comment