۴۔ الف: عَنْ اَبِیْ
ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ سَمَعْتُ رسول اللّٰہ ﷺ یَقُوْلُ اَرَأَیْتُمْ
لَوْاَنَّ نَھْرًا بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ
مَرَّاتٍ ھَلْ بَقِیَ مِنْ دَرَنِہٖ شَیْئٌ قَالُوالَایَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَیْء
قَالَ فَکَذٰلِکَ مَثَلُ الصَّلَوٰتِ الْخَمْسِ یَمْحُوااﷲُ بِھِنَّ
الْخَطَایَا (رواہ البخاری ومسلم
والترمذے والنسایٔ ورواہ ابن مجہ من حدیث عثمان کذافی الترغیب)
حضرت ابوہریرہؓ، نبی اکرم ﷺ سے
نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا بتائو اگر کسی شخص کے دروازہ پر
نہر جاری ہو جس میں وہ پانچ مرتبہ روزانہ غسل کرتا ہو کیا اُس کے بدن پر کچھ میل
باقی رہے گا۔ صحابہ ؓنے عرض کیا کہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا حضورﷺنے فرمایا کہ
یہی حال پانچوں نمازوں کا ہے کہ اللہ جل شانہ‘ ان کی وجہ سے گناہوں کو زائل کردیتے
ہیں۔
۴۔ ب : عَنْ جَابِر قَالَ
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ مثَلُ الصَّلٰوتِ
الخَمْسِ کَمَثَلِ نَھْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلٰی بَابِاَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مَنْہ‘
کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ۔(رواہ مسلم کذافی الترغیب)
حضرت جابر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نبی
اکرم ﷺ کا اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی کے
دروازے پر ایک نہر ہو جس کا پانی جاری ہو اور بہت گہرا ہو۔ اس میں روزانہ پانچ
دفعہ غسل کرے۔
ف: جاری پانی گندگی وغیرہ سے پاک ہوتا ہے اور
پانی جتنا بھی گہرا ہوگا اتنا ہی پاک اور شفاف ہوگا اسی لئے اس حدیث میں اس کا
جاری ہونا اور گہرا ہونا فرمایا گیا ہے اور جتنے صاف پانی سے آدمی غسل کرے گا
اتنی ہی صفائی بدن پر آئے گی۔ اسی طرح نمازوں کی وجہ سے اگر آداب کی رعایت رکھتے
ہوئے پڑھی جائیں، تو گناہوں سے صفائی حاصل ہوتی ہے۔ جس قسم کا مضمون اِن دو
حدیثوںمیں اِرشاد ہوا ہے اس قسم کا مضمون کئی حدیثوں میں مختلف صحابہؓ سے مختلف الفاظ میں
نقل کیا گیا ہے۔ ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضوراقدس ﷺ
نے ارشاد فرمایا۔ پانچوں نمازیں درمیانی اوقات کیلئے کفارہ ہیں یعنی ایک نماز سے
دوسری نماز تک جو صغیرہ گناہ ہوتے ہیں ہو نماز کی برکت سے مُعاف ہوجاتے ہیں۔ اُس
کے بعد حضورﷺنے ارشاد فرمایا مثلاًایک شخص کا کوئی کارخانہ ہے جس میں وہ کچھ
کاروبار کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بد ن پر کچھ گردوغبار میل کچیل لگ جاتا ہے اور
اس کے کارخانے اور مکان کے درمیان میں پانچ نہریں پڑتی ہیں۔ جب وہ کارخانہ سے گھر
جاتا ہے تو ہر نہر پر غسل کرتا ہے۔ اسی طرح سے پانچوں نمازوں کا حال ہے کہ جب کبھی
درمیانی اوقات میں کچھ خطا اور لغزش وغیرہ ہوجاتی ہے تو نمازوں دُعا اِسْتِغْفار
کرنے سے اللہ جل شانہ‘ بالکل اس کو مُعاف فرمادیتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کا مقصود اس قسم
کی مثالوں سے اس امْر کا سمجھا دینا ہے کہ اللہ جل شانہ‘ نے نمازوں کو
گناہوں کی معافی میں بہت قوی تاثیر عطا فرمائی ہے اور چونکہ مثال سے بات ذرا اچھی
طرح سمجھ میں آجاتی ہے اس لئے مختلف مثالوں سے حضورﷺنے اس مضمون کو واضح فرمادیا
ہے۔ اللہ جل شانہ‘ کی اس رحمت اور وسعت مغفرت اور لطف و انعام اور کرم سے ہم لوگ
فائدہ نہ اٹھائیں تو کسی کا کیا نقصان ہے اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں۔ ہم لوگ گناہ کرتے
ہیں، نافرمانیاں کرتے ہیں، حکم عدولیاں کرتے ہیں تعمیل اِرشاد میں کوتاہیاں کرتے
ہیں اس کا مقتضی یہ تھا کہ قادر عادل بادشاہ کے یہاں ضرور سزا ہوتی اور اپنے کئے
کو بھگتتے، مگر اللہ کے کرم کے قربان کہ جس نے اپنی نافرمانیاں اور حکم عدولیاں
کرنے کی تلافی کا طریقہ بھی بتا دیا اگر ہم اس سے نفع حاصل نہ کریں تو ہماری حماقت
ہے۔ حق تعالیٰ شانہ‘ کی رحمت اور لطف تو عطا کے واسطے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ ایک حدیث
میں اِرشاد ہے کہ جو شخص سوتے ہوئے یہ ارادہ کرے کہ تہجد پڑھونگا اور پھر آنکھ نہ
کھلے تو اس کا ثواب اس کو ملے گا اور سونا مفت میں رہا۔ کیا تھکانا ہے اللہ کی دین
اور عطا کا، اور جو کریم اس طرح عطائیں کرتا ہو اُس سے نہ لینا کتنی محرومی اور
کتنا زبردست نقصان ہے۔
No comments:
Post a Comment