۳۔ عَنْ اَبِیْ عُثْمَاؓنَ
قَالَ کُنْتُ مَعْ سلْمَانَؓ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَاَ خَذَ غُصْنًا مِّنْہَا یَا
بِسًا فَہَزَّہٗ حَتّٰی تَحَاتَّ وَرَقُہٗ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَا عُثْمَانَ اَلاَ
تَسْئَلُنِیْ لِمَ اَفْعَلُ ھٰذَ قُلْتُ وَلِمَ تَفْعَلُہْ قَالَ ھٰکَذَافَعَلَ بِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺوَ اَنَامَعَہٗ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ وَاَخَذَ
َمنْھَاغُصْنًا یَا بِسًا فَھَزَّہ‘ حَتّٰی تَحَاتَّ وَرَقُہ‘ فَقَالَ یَا
سَلْمَانُ الاَ تَسْئَالُنِیْ لِمَ اَفْعَلُ ھٰذَاقُلْتُ وَلِمَ تَفْعَلُہ‘ قَالَ
اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا تَوَضَّائَفَاَحْسَنَ الْوُ ضُوْئَ ثُمَّ صَلَّی
الصَّلٰوت الْخَمْسَ تَحَاتَّتْ خَطَایَاہِکَمَا تَحَاتَّ ھَذَا الْوَرَقُ وَقَالَ
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفِیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَیِّئَاتِط
ذَالِکَ ذِ کْریٰ لِلذَّاکِرِیْنَ ط (رواہ احمد وا لنسائی والطبرانی ورواہ احمد محتج
بھم فی الصحیح الا علی بن ذیدکذافی الترغیب)
ابوعثمان رضی اﷲعنہ کہتے ہیں کہ
میں حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا اُنہوں نے اس درخت کی ایک
خشک ٹہنی پکڑ کر اس کو حرکت دی جس سے اُس کے پتے گر گئے پھر مجھ سے کہنے لگے کہ
ابو عثمان تم نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ میں نے یہ کیوں کیا۔ میں نے کہا بتا
دیجئے کیوں کیا اُنہوں نے کہامیں کہا بتا دیجئے کیوں کیا اُنہوں نے کہا کہ میں
ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھاآپﷺ نے بھی درخت کی ٹہنی پکڑ کر
اسی طرح کیا تھا جس سے اس ٹہنی کے پتّے جھڑ گئے تھے پھر حضورﷺ نے ارشا د فرمایا
تھا کہ سَلمان پوچھتے نہیں کہ میں نے اس طرح کیوں کیا میں نے عرض کیا کہ بتادیجئے
کیوں کیا آپﷺے ارشاد فرمایا تھا کہ جب مسلمان اچھی طرح سے وضو کرتا ہے پھر پانچوں
نمازیں پڑھتا ہے اس کی خطائیں اس سے ایسی ہی گر جاتی ہیں جیسے یہپتے گرتے ہیں
پھر آپﷺنے قرآن کی آیت اَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِتلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے
کہ قائم کر نماز کو دن کے دونوں میں اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں دور
کردیتی ہیں گناہوں کو ،یہ نصیحت ہے ،نصیحت ماننے والوں کے لئے۔
ف: حضرت سلمانؓ نے جو عمل کرکے
دکھلایا یہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے تعشق کی ادنیٰ مثال ہے۔ جب کسی شخص
کو کسی سے عشق ہوتا ہے اس کی ہر ادا بھاتی ہے اور اسی طرح ہر کام کے کرنے کو جی
چاہا کرتا ہے جس طرح محبوب کو کرتے دیکھتا ہے۔ جو لوگ محبت کا ذائقہ چکھ چکے ہیں
وہ اُسکی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ،نبی اکرم
ﷺکے ارشادات نقل کرنے میں اکثر ان افعال کی بھی نقل کرتے تھے جو اس ارشاد کے وقت
حضورﷺنے کیے تھے۔ نماز کا اہتمام اور اس کی وجہ سے گناہوں کا معاف ہونا جس کثرت
روایات میں ذکر کیا گیا ہے اس کا اِحاطہ کرنا دُشوار ہے۔ پہلے بھی متعدد روایات
میں یہ مضمون گزر چکاہے علما نے اس کو صغیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا
پہلے معلوم ہو چکا۔ مگر احادیث میں صغیرہ کبیرہ کی کوئی قید نہیں ہے مُطلق گناہوں
کا ذکر ہے۔ میرے والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے تعلیم کے وقت اس کی دو وجہیں اِرشاد
فرمائی تھیں۔ ایک یہ کہ مسلمان کی شان سے یہ بعید ہے کہ اُس کے ذمّہ کوئی کبیرہ
ہو۔ اولاً تو اس سے گناہ کبیرہ کا صادر ہونا ہی مشکل ہے اور اگر ہو بھی گیا تو
بغیر توبہ کے اس کو چین آنا مشکل ہے۔ مسلمان کی مسلمانی شان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ
جب اس سے کبیرہ صادر ہو جائے تو اتنے رو پیٹ کر اس کو دھو نہ لے اس کو چین نہ
آئے۔ البتہ صغیرہ گناہ ایسے ہیں کہ ان کی طرف بسا اوقات التفات نہیں ہوتا ہے اور
ذمہ پررہ جاتے ہیں۔جو نماز وغیرہ سے معاف ہو جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص
اخلاص سے نماز پڑھے گا اور آداب و مستحبات کی رعایت رکھے گا، وہ خود ہی نہ معلوم
کتنی مرتبہ توبہ و استغفار کرے گا۔ اور نماز میں التحیات کی اخیر دعا اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ
نَفْسِیْ الخ میں تو توبہ و استغفار
خود ہی موجود ہے۔ ان روایا ت میں وضو کو بھی اچھی طرح سے کرنے کا حکم ہے۔ جس کا
مطلب یہ ہے کہ اس کے آداب و مستحبات کی تحقیق کرکے ان کا اِہتمام کرے مثلاًایک
سنت اس کی مسواک ہی ہے۔ جس کی طرف عام طور پر بے توجہی ہے حالانکہ حدیث میں وارد
ہے کہ جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے وہ اس نماز سے جو بلا مسواک پڑھی جائے ستر
درجہ افضل ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ مسواک کا اِہتمام کیا کرو۔ اس میں دس فائدے
ہیں۔ منہ کو صاف کرتی ہے۔ اللہ کی رضا کا سبب ہے، شیطان کو غصہ دلاتی ہے، مسواک
کرنے والے کو اللہ محبوب رکھتے ہیں اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں،
مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے،بلغم کو قطع کرتی ہے، منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے، صفراء
کو دور کرتی ہے، نگاہ کو تیز کرتی ہے ، منہ کی بدبو کو زائل کرتی ہے اور اس سب کے
علاوہ یہ ہے کہ سنت ہے(منہبات ابن حجر)علماء نے لکھا ہے کہ مسواک کے اہتمام میں
ستر فائدے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب ہوتا ہے اور
اس کے بالمقابل افیون کھانے میں سترمضرتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت
کلمہ یاد نہیں آتا ۔ اچھی طرح وضو کرنے کے فضائل احادیث میں بڑی کثرت سے آئے
ہیں۔ وضو کے اَعضاء قیامت کے دن روشن اور چمک دار ہونگے اورحضورﷺ فوراًاپنے امتی کو پہچان
جائیں گے
No comments:
Post a Comment