Maslak E Ahle Sunnat Wal Jamaat ka Taaruf اہل سنت والجماعت کا مختصر تعارف


اہل سنت والجماعت کا مختصر تعارف
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ (م 150 ھ)
امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ ( م 189 ھ)
امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ (م 204 ھ)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ (م 241 ھ)

ان ائمہ کرام نے اپنی خداد داد علمی و فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بناء پر اپنے اپنے دور میں حسب ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل فقہ مرتب کئے، یوں ان ائمہ کے زیر اثر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔
امام ابوحنیفہ اسلامی عالم تھے جن کی وجہ شہرت احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اکٹھا اور تدوین دینے کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ جو اس مجموعہ حدیث کو ہی کامل مانتے ہیں حنفی کہلاتے ہیں اور ابوحنیفہ اسطرح اس فقہ حنفی کے بانی امام سمجھے جاتے ہیں۔
ابتدائی زندگی
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔
آپ کے سفر
امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
اساتذہ
علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقيه كےعالم هين .آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل هے.
درس و تدریس
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے۔
تلامذہ
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ
امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اﷲ علیہ
امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ
امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ
امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ
امام داؤد بن نصیررحمۃ اﷲ علیہ
اہم تصانیف
آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :
الفقه الأکبر
الفقه الأبسط
العالم والمتعلم
رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتی
وصية الامام أبي حنيفة
المقصود فی علم التصریف کتاب الوصیۃ لجمیع الامۃ الوصیۃ لعثمان السبتی کتاب الوصیۃ لابی یوسف الوصیۃ لاصحابہ الکبار الرسالہ الی نوح بن مریم
اور ان کی احادیث میں تصانیف کی تعداد 27کے قریب ہیں
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
فقہ حنفی کی تدوین و ترویج
امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں امام قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی نے حنفی فقہ کی باضابطہ تدوین کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
عباسی خلفا کے عہد میں سرکاری فقہ حنفی تھی۔ یہ فقہ مشرقی ملکوں بالخصوص غیر عربوں میں زیادہ مقبول ہوئی۔ عثمانی ترک بھی حنفی تھے۔ بخارا، خراسان، اور بغداد ان کے خاص مرکز تھے۔
آج کے دور میں
اس وقت بھی پاکستان، بھارت، افغانستان، چینی ترکستان، وسطی ایشیا اور ترکی وغیرہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت حنفی فقہ پر کاربند ہے۔
امام مالک
مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 197ھ) مسلمانوں میں "امام مالک" اور "شیخ الاسلام" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علماء میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی ، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے ، نے ایک بار کہا کہ "علماء میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام (موطا) تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔
وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انہیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
فقہ مالکی
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام مالک کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان مالکی کہلاتے ہیں۔
موطاء امام مالک
موطاء امام مالکحدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو مشہور سنی عالم دین مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 197ھ) نے تصنیف کی۔ انہی کی وجہ سے مسلمانوں کا طبقہ فقہ مالکی کہلاتا ہے جو اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
موطا کےمصنف کا پورانام یہ ہے: ابوعبداللہ مالک بن انس بن ابی عامرالاصبحی الحمیری ہے۔(۱) اپ کی تاریخ ولادت میں ۹۰ھ سے ۹۷ھ تک کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ذہبی نے یحیی بن کثیرکے قول کو اصح قراردیاہے جس کے مطابق اپ کی ولادت ۹۳ھ میں ہوءی ہے۔ جبکہ اپ کی وفات ربیع؁ الاول؁۱۷۹ھ کومدنیہ منورہ میں ہوءی امام مالک فقہ اورحدیث مین اھل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں۔ اپ کی کتاب "الموطا" حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ترین مجموعہ ہے۔موطاسے پہلے بھی احادیث کے کی مجموعے تیار ہوءے اور ان میں سے کيی ایک اج موجود بھی ہیں لیکن وہ مقبول اورمتداول نہیں ہیں۔ موطاکے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پےدرپے چل کر اتناہموارکردیاہو کہ بعد میں انے والوں کے لیےاسپرچلنااسان ہوگیاہو۔ جمہور علماء نے موطاکو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولی میں شمار کیاہے امام شافعی فرماتے ہیں"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک" کہ میں نے روءے زمین پر موطاامام مالک سے زیادہ کوءی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں دیکھی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ موطاکے بارے میں لکھتے ہیں" فقہ میں موطا امام مالک سےزیادہ کوءی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے" موطا میں احادیث کی تعداد کے بارے میں کءی روایات ہیں، اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام مالک نے اپنی روایات کی تہذیب اورتنقیح برابر جاری رکھی لہذا مختلف اوفات میں احادیث کی تعداد مختلف رہی۔
امام مالک
مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 197ھ) مسلمانوں میں "امام مالک" اور "شیخ الاسلام" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علماء میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی ، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے ، نے ایک بار کہا کہ "علماء میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام (موطا) تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔
وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انہیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام مالک کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان مالکی کہلاتے ہیں۔
امام شافعی
محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع بن السائب بن عبید بن عبد زید ابن ھاشم بن المطلب بن عبد مناف القرشی۔ یہ سید المرسلین سیدنا محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ " عبد مناف " کے ذریعے ملتے ہیں. شافعی قریشی ہیں اور والدہ کی طرف سے (مشہور قول کی بنا پر کہ) آپ کی والدہ ایک شریف قبیلہ الأزد سے تھیں جن کا نام السيدة فاطمہ ( أم حبيبہ ) الأزديہ تھا، یہ قبیلہ یمن کہ السعید سے تعلق رکھتا تھا.
حالات زندگی
آپ ماہ رجب سال 150ھ بمطابق 768ء میں شہر غزہ ، فلسطین میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد مکہ مکرمہ سے مسلمین کے ساتھ ہجرت کر کے فلسطین آگئے تھے ، اسکے بعد غزہ و عسقلان میں بھی رہے۔ امام شافعی کی ولادت کے بعد کچھ دنوں ہی میں انکے والد کا انتقال ہوگیا۔ انکی والدہ انکو واپس مکہ لے آئیں اور وہیں انکی علمی تربیت ہوئی۔ آپ امام مالک کے شاگرد بھی رہے ، اور آپ کی عمر کا بیشتر حصہ مکہ ، مدینہ ، بغداد اور مصر میں گزرا اور آخرکار مصر ہی میں وفات پائی۔ آپ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ عربی زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ اور اعلٰی درجہ کے انشاپرداز تھے۔ آپ کی دو کتب (کتاب الام) اور (الرسالہ) کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ صدیوں تک مصر عرب ، شام ، عراق ، اور ایران میں آپ کی قابلیت کا چرچہ رہا۔
تصانیف
الرسالہ القدیمہ
الرسالہ الجدیدۃ
اختلاف الحدیث
جماع العلم
ابطال الاستحسان
احکام القرآن
بیاض الغرض
صفہ الامر والنھی
اختلاف العراقیین
فضائل قریش
کتاب: الام
کتاب: السُنَن
کتاب: المبسوط
المسند الشافعی
امام احمد بن حنبل
780ء کو پیدا ہوئے اور 855ء کو وفات پائی۔ اپنے دور کے بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے (مسند) کے نام سے حدیث کی کتاب تالیف کی جس میں تقریباً چالیس ہزار احادیث ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام احمد بن حنبل کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ لوگ انہیں بے شمار تحائف اور ہدیہ پیش کرتے لیکن آپ اپنے اوپر اس میں سے کچھ بھی نہ صرف کرتے سب کچھ بانٹ دیتے ۔
خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ ان کے انتقال کے وقت آٹھ لاکھ سے زیادہ اشخاص بغداد میں جمع ہوئے اور نماز جنازہ پڑھی۔ عباسی خلافت کے آخری دور میں فقہ حنبلی کا بڑا زور تھا۔ پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی بھی حنبلی تھے۔ آج کل ان کے پیروکاروں کی تعداد گھٹ کر عرب کے علاقے نجد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حنبلی علماء میں ابن تیمیہ کا شمار صف اول کے لوگوں میں کیا جاتا ہے۔
آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآن کے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔
حنبلی
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام احمد بن محمد بن حنبل کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان حنبلی کہلاتے ہیں۔اسلوب فقہ
حنابلہ فقہی معاملات میں قیاس یا رائے کو نہیں مانتے اور اپنی فقہ کی بنیاد زیادہ تر قرآن اور حدیث پر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کی دیگر کتب میں مسند احمد بن حنبل کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
آج کے دور میں
دیگر اسلامی فقھوں کے تناسب سے اس وقت حنبلی فقہ کے مقلدین کی تعداد سب سے کم ہے۔ چودھویں صدی عیسوی تک ان کی تعداد کافی تھی اور شام و فلسطین کے علاقوں میں ان کا بہت زور تھا۔ امام ابن تیمیہ بھی فقہ حنبلی کے مقلد تھے۔ عثمانی ترکوں کی خلافت سے قبل ہر بڑے اسلامی شہر میں دیگر تینوں اسلامی فقھوں کے علاوہ حنبلی قاضی بھی مقرر کیے جاتے تھے مگر ترکوں نے یہ رسم ترک کر دی۔

No comments:

Post a Comment