۷۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ
قَالَ کَانَ رَجُلَانِ مِنْ بَلِیِّ حَیٌّ مِّنْ قُضَاعَۃَ اَسْلَمَا مَعَ
رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَاسْتُشْھِدْ اَحَدُ
ھُمَا وَاُخِّرَ الْاٰخَرُ سَنَۃً قَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اﷲِ فَرَأَیْتُ
الْمُؤَخَّرَ مِنْھُمَااُدْخِلَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ الشَّھِیْدِ فِتِعِجَّبْتُ لِذٰلِکَ
فَاَصْبَحْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ﷺ اَوْذُکِرَ لِرَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِاَلَیْسَ قَدْصَامَ
بَعْدَہ‘ رَمَضَانَ وَصَلّٰی سِتَّۃَ اٰلَافِ رَکْعَۃٍ وَکَذَا وَکَذَا رَکْعَۃً
صَلٰوۃَ سَنَۃٍ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو صحابی ایک ساتھ مسلمان ہوئے اُن میں سے ایک صاحب
جہاد میں شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد انتقال ہوا۔ حضرت طلحہ بن
عبیداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد
اِنتقال ہوا تھا اُن شہید سے بھی پہلے جنت میں ہوگئے تو مجھے بڑا تعجب ہواشہید کا
درجہ تو بہت اونچا ہے ہو پہلے جنت میں داخل ہوتے ۔ میں حضورﷺسے خود عرض کیا یا کسی
اور نے عرض کیا تو حضور اقدسﷺارشاد فرمایا کہ جن صاحب کا بعد میں اِنتقال ہوا ان کی
نیکیاں نہیں دیکھتے کتنی زیادہ ہوگئیں ایک رمضان المبارک کے پورے روزے بھی اُن کے
زیادہ ہوئے اور چھ ہزار اور اتنی اتنی رکعتیں نماز کی ایک سال میں اُن کی
بڑھ گئیں۔
(رواہ احمد باسنادحسن ورواہ ابن ماجۃوابن حبان
فی صحیہ والبیھقی کھم عن طلھۃ بنحوہ اطول منہ وزادابن ماجہ وابن حبان فی احرہ فلما
بیینھما اطول ما بین السما والارض کذا فی التر غیب ولفظ احمد فی النسخۃ التی با ید
ینا اوکذاوکذا رکعۃ بلفظ اووفی الد را خرجہ مالکٔ وا حمد والنسائی وابن خزیمۃوالحا
کم والبییہقی فے شعب الایمان عامر بن سعد قال سمعت سعد اونا سامن الصحا بۃ یقو لون
کان رجلان اخران فی عہد رسول اللّٰہ ﷺ وکان احدہما افضل من الاخر فتونی الزی ہو
افضلہما ثم عمر الاخر بعدہ اربعین لیلۃ الحدیث وقد ا خرج ابوداؤد بعنی حدیث الباب
من حدیث عبید بن خا لد بافظ قتل احدہما وما ت الاخر بعدہ بجمعۃ الحدیث) ۔
ف: اگرایک سال کے تمام مہینے انتیس دن کے لگائے
جائیں اور صرف فرض اور وتر کی بیس رکعتیں شمار کی جائیں تب بھی چھ ہزار نو سو ساٹھ
رکعتیں ہوتی ہیں اور جتنے مہینے تیس دن کے ہوں گے بیس بیس رکعتوں کا اضافہ ہوتا
رہے گا اور سنتیں اور نوافل بھی شمار کئے جائیں تو کیا ہی پوچھنا ۔ ابن ماجہ میں
یہ قصّہ اور بھی مفصل آیا ہے اس میں حضرت طلحہ ؓ جو خواب دیکھنے والے ہیں وہ خود
بیان کرتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو آدمی حضوراقدسﷺکی خدمت میں ایک ساتھ آئے اور
اکھٹے مسلمان ہوئے ایک صاحب بہت زیادہ مستعد اور ہمت والے تھے وہ ایک لڑائی میں
شہید ہو گئے اور دوسرے صاحب کا ایک سال بعد اِنتقال ہوا، میں نے خواب میں دیکھا کہ
میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں اور وہ دونوں صاحب بھی وہاں ہیں۔ اندر سے ایک شخص
آئے اور اُن صاحب کو جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا تھا اندر جانے کی اجازت ہوگئی
اور جو صاحب شہید ہوئے تھے وہ کھڑے رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اندر سے ایک شخص
آئے اور اُن شہید کو بھی اجازت ہوگئی اور مجھ سے کہا کہ تمہارا ابھی وقت نہیں
آیا تم واپس چلے جاؤ۔ میں نے صبح کو لوگوں سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ سب کو اس
پر تعجب ہوا کہ ان شہید کو بعد میں اجازت کیوں ہوئی ان کو تو پہلے ہونی چاہیے تھی۔
آخر حضورﷺسے لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا توحضورﷺنے اِرشاد فرمایا کہ اس میں تعجب کی
کیا بات ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسولﷺاللہ وہ شہید بھی ہوئے اور بہت زیادہ
مستعد اور ہمت والے بھی تھے اور جنت میں یہ دوسرے صاحب پہلے داخل ہوگئے حضورﷺنے
اِرشادفرمایا، کیا انہوں نے ایک سال عبادت زیادہ نہیں کی عرض کیا، بیشک کی۔ اِرشاد
فرمایا، کیا انہوں نے پورے ایک رمضان کے روزے اُن سے زیادہ نہیں رکھے عرض کیا گیا
بیشک رکھے۔ اِرشاد فرمایا کیا انہوں نے اتنے اتنے سجدے ایک سال کی نمازوں کے زیادہ
نہیں کئے۔ عرض کیا گیا بیشک کئے۔ حضورﷺنے فرمایا پھر اِ ن دونوں میں آسمان زمیں
کا فرق ہوگیا۔
اس نوع کے واقعہ کئی لوگوں کے
ساتھ پیش آئے ۔ ابوداؤد شریف میں دو صحابہؓ کا قصّہ اسی قسم کا صرف آٹھ دن کے
فرق سے ذکر کیا گیا ہے کہ دوسرے صاحب کا اِنتقال ایک ہفتہ بعد ہوا پھر بھی وہ جنت
پہلے داخل ہوگئے۔ حقیقت میں ہم لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں کہ نماز کتنی قیمتی چیز
ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ حضوراقدس ﷺْ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی
ہے۔ حضورﷺکی آنکھ کی ٹھنڈک جو انتہائی محبت کی علامت ہے معمولی چیز نہیں۔ ایک
حدیث میں آیا ہے کہ دو بھائی تھے ان میں سے ایک چالیس روز پہلے اِنتقال کر گئے۔
دوسرے بھائی کا چالیس روز بعد اِنتقال ہوا۔ پہلے بھائی زیادہ بزرگ تھے۔ لوگوں نے
اُن کو بہت بڑھانا شروع کر دیا۔ حضورﷺنے اِرشاد فرمایا کیا دوسرے بھائی مسلمان نہ
تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بیشک مسلمان تھے مگر معمولی درجہ میں تھے۔ حضورﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ ان چالیس دن کی نمازوں نے اُن کو کس درجہ تک
پہنچا دیا ہے۔ نماز کی مثال ایک میٹھی اور گہری نہر کی سی ہے جو دروازہ پر جاری ہو
اور آدمی پانچ دفعہ اس میں نہاتا ہو تو اس کے بدن پر کیا میل رہ سکتا ہے اس کے
بعد پھر دوبارہ حضورﷺنے فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ اس کی نمازوں نے جو بعد میں
پڑھی گئیں اس کو کس درجہ تک پہنچا دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment