اسی دولت کی وجہ سے حضور نے اپنی
آنکھ کی ٹھنڈک اس میں فرمائی اور اسی لذت کی وجہ سے حضور اقدس ﷺ رات کا اکثر حصہ نماز ہی میں
گذار دیتے تھےیہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وصال کے وقت خاص طور پر نماز کی وصیت
فرمائی اور اس کے اہتمام کی تاکید فرمائی متعدد احادیث میں ارشاد نبوی نقل کیا گیا اِتَّقُواللّٰہَ فِی الصَّلٰوۃ ’’نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرتے
رہو ‘‘حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ تمام اعمال میں مجھے
نماز سب سے زیادہ محبوب ہے ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ایک رات مسجد نبوی پر گزرا
حضوراَقدسﷺنماز پڑھ رہے تھے مجھے بھی شوق ہوا حضور کے پیچھے نیت باندھ لی حضورﷺسورہ
بقرہ پڑھ رہے تھے میں نے خیال کیا کہ سو آیتوں پر رکوع کر دیں گے مگر جب وہ گزر
گئیں اور رکوع نہ کیا تو میں نے سوچا دو سو پر رکوع کریں گے مگر وہاں بھی نہ کیا
تو مجھے خیال ہوا کہ سورت کے ختم ہی پر کرین گے جب سورت ختم ہوئی تو حضورنے کئی
مرتبہ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورہ آل عمران شروع
کردی میں سوچ میں پڑ گیا آخر میں نے خیال کیا کہ آخر اس کے ختم پر تو رکوع کریں ہی
گے حضور نے اس کو ختم فرمایا اور تین مرتبہ اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْد پڑھا اور سورئہ مائدہ شروع کردی
اس کو ختم کر کے رکوع کیا اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھتے رہے اور اس کے ساتھ کچھ
اور بھی پڑھتے رہے جوسمجھ میں نہ آیا اس کے بعد اسی طرح سجدہ میں سبْحانَ رَ بی الْاَ عْلٰی بھی پرھتے رہے اس کے ساتھ کجھ
اور بھی پڑھتے تھے اس کے بعد دوسری رکعت میں سورہ انعام شروع کردی میں حضور کے ساتھ
نماز پڑھنے کی ہمت نہ کر سکا اور مجبور ہو کر چلا آیا پہلی رکعت میں تقریاً پانچ
سیپارے ہوئے اور پھر حضور اقدس ﷺ کا پڑھنا جو نہایت اطمینان سے تجوید اور ترتیل کے
ساتھ ایک ایک آیت جدا جدا کر کے پڑھتے تھے ایسی صورت میں کتنی لانبی رکعت ہوئی
ہوگی انہیں وجوہ سے آپ کے پاؤںپر نماز پڑھتے پڑھتے ورم آ جاتا تھا مگر جس چیز کی
لذت دل میں اتر جاتی ہے اس میں مشقت اور تکلیف دشوار نہیں رہتی ابو اسحق سبیحی
مشہور محدث ہین سو برس کی عمر میں انتقال فرمایا اس پر افسوس کیا کرتے تھے کہ
بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے نماز کا لطف جاتا رہا دو رکعتوں میں صرف دو سورتیں سورہ
بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی جاتی ہیں زیادہ نہیں پڑھا جاتا ( تہذیب التہذیب ) یہ
دو سورتیں بھی پونے چار پاروں کی ہیں محمد بن سماک فرماتے ہیں کہ کوفہ میں میرا
ایک پڑوسی تھا اس کے ایک لڑکا تھا جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا اور رات بھر نماز میں
اور شوقیہ اشعار میں رہتا تھا وہ سوکھ کر ایسا ہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑہ رہ گیا
اس کے والد نے مجھ سے کہا کہ تم اس کو ڈرا سمجھاؤ میں ایک مرتبہ اپنے دروازہ پر
بیٹھا ہوا تھا وہ سامنے سے گزرا میں نے اسے بلایا وہ آیا سلام کرکے بیٹھ گیا میں
نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ کہنے لگا چچا شاید آپ محنت میں کمی کا مشورہ دیں گے
چچا جان میں نے اس محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ یہ طے کیا تھا کہ دیکھیں کون شخص
عبادت میں زیادہ کوشش کرے انہوں نے کوشش اور محنت کی اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بلا لئے
گئے جب وہ بلائے گئے تو بڑی خوشی اور سرور کے ساتھ گئے ان میں سے میرے سوا کوئی
باقی نہیں رہا میرا عمل دن مین دوبار ان پر ظاہرہوتا ہو گا وہ کیا کہیں گے جب اس
میں کوتاہی پائیں گے چچاجان ان جوانوں نے بڑے بڑے مجاہدے کئے ان کی محنتیں اور
مجاہدے بیان کرنے لگا جن کو سنکر ہم لوگ متحیر رہ گئے اس کے بعد وہ لڑکا اٹھ کر
چلا گیا تیسرے دن ہم نے سنا کہ وہ بھی رخصت ہو گیا ۔ رحمہ اﷲرحمۃ واسعۃ( نزہتہ) اب
بھی اس گئے گذرے زمانے میں اﷲ کے بندے ایسے دیکھے جاتے ہیں جو رات کا اکثر حصہ
نماز میں گزار دیتے ہیں اور دن دین کے کاموں تبلیغ و تعلیم میں منہمک رہتے ہیں حضرت
مجدد الف ثانی کے نام نامی سے کون شخص ہندوستان میں ناواقف ہو گا ان کے ایک خلیفہ
مولانا عبدالواحد لاہوری نے ایک دن ارشاد فرمایا کیا جنت میں نماز نہ ہو گی کسی نے
عرض کیا کہ حضرت جنت میں نماز کیوں ہو وہ تو اعمال کے بدلہ کی جگہ ہے نہ کہ عمل
کرنے کی اس پر ایک آہ کھینچی اور رونے لگے اور فرمایا کہ بغیر نماز کے جنت میں
کیونکر گزرے گی ایسے ہی لوگوں سے دنیا قائم ہے اور زندگی کو وصول کرنے والی حقیقت
میں یہی مبارک ہستیاں ہیں اﷲ جل شانہ اپنے لطف اور اپنے پر مر مٹنے والوں کے طفیل
اس روسیاہ کو بھی نواز دے تو اس کے لطف عام سے کیا بعید ہے ایک پر لطف قصہ پر اس
فصل کو ختم کرتا ہوں حافظ ابن حجر نے منیہات مین لکھا ہے ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں خوشبو ،عورتیں اور میری آنکھوں
کی ٹھنڈک نماز میں ہے حضورﷺکے پاس چند صحابہؓ تشریف فرما تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ
فرمایا اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں آپ کے چہرہ کا دیکھنا اپنے مال کو آپ پر خرچ
کرنا اور یہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہے حضرت عمر ؓنے فرمایا سچ ہے اور مجھے
تین چیزیں محبوب ہیں امر بالمعروف نہی عن المنکر اچھے کاموں کا حکم کرنا اور بری
باتوں سے روکنا اور پرانا کپڑا حضرت عثمان ؓنے فرمایا آپ نے سچ کہا اور مجھے تیں
چیزیں محبوب ہیں بھوکو کو کھلانا ننگوں کپڑا پہنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا
حضرت علی ؓنے ارشاد فرمایا آپ نے سچ فرمایا اور مجھے تین چیزیں پسند ہیں مہمان کی
خدمت ،گرمی کا روزہ اور دشمن پر تلوار ۔اتنے میں حضرت جبریئل علیہ السلام تشریف
لائے اور عرض کیا کہ مجھے حق تعالیٰ شا نہ‘ نے بھیجا ہے اور فرمایا کہ اگر میں (
یعنی جبرئیل) دنیا والوں میں ہوتا تو بتاؤں مجھے کیا پسند ہوتا حضور ﷺنماز دین کا
ستون ہے نے ارشاد فرمایا بتاؤ عرض کیا بھولے ہووں کو راستہ بتانا غریب عبادت کرنے
والوں سے محبت رکھنا اور عیال دار مفلسوں کی مدد کرنا اور اللہ جل شانہ‘ کو بندوں
کی تین چیزیں پسندہیں ( اﷲ کی راہ میں) طاقت کا خرچ کرنا ( مال سے ہو یا جان سے)
اور گناہ پرندامت کے وقت رونا اور فاقہ پر صبر کرنا ۔
حافظ ابن قَیِّمؒ در
زادالمعادمیں تحریر فرماتے ہیں کہ نماز روزی کو کھینچنے والی ہے صحت کی محافظ ہے
بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے دل کی تقویت پہنچاتی ہے چہرہ کو خوبصورت اور منور
کرتی ہے جان کو فرحت پہنچاتی ہے اعضاء میں نشاط پیدا کرتی ہے کاہلی کو دفع کرتی ہے
شرح صدر کا سبب ہے ۔رُوح کی غذا ہے ۔دل کو منور کرتی ہے ۔اﷲ کے انعام کی محافظ ہے
اور عذاب الٰہی سے حفاظت کا سبب ہے شیطان کو دور کرتی ہے اور رحمن سے قرب پیدا
کرتی ہے غرض روح اور بدن کی صحت کی حفاظت میں اس کو خاص دخل ہے اور دونوں چیزوں
میں اسکی عجیب تاثیر ہے نیز دنیا اور آخرت کی مضرتوں کے دور کرنے میں اور دونوں
جہان کے منافع پیدا کرنے میں اس کو بہت خصوصیت ہے ۔
No comments:
Post a Comment